عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
”جس نے
«تأبیر» ۱؎ (پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا
۲؎ الا یہ کہ خریدنے والا
(خریدتے وقت پھل کی) شرط لگا لے۔ اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا
(خریدتے وقت مال کی) شرط لگا لے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح اور بھی طرق سے بسند
«عن الزهري عن سالم عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے روایت ہے آپ نے فرمایا:
”جس نے پیوند کاری کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا
(درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگا لے اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا
(غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگا لے
“،
۳- یہ نافع سے بھی مروی ہے انہوں نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”جس نے کھجور کا کوئی درخت خریدا جس کی پیوند کاری کی جا چکی ہو تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا
(درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگا لے
“،
۴- نافع سے مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جس نے کوئی غلام بیچا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا
(غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگا لے،
۵- اسی طرح عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے نافع سے دونوں حدیثیں روایت کی ہیں،
۶- نیز بعض لوگوں نے یہ حدیث نافع سے، نافع نے ابن عمر سے اور انہوں نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۷- عکرمہ بن خالد نے ابن عمر سے ابن عمر نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے سالم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔
۸- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق:
«عن سالم عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے،
۹- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۱۰- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1244]
● صحيح البخاري | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح البخاري | من باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح البخاري | أيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترطه المبتاع |
● صحيح البخاري | من باع نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح مسلم | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح مسلم | أيما نخل اشتري أصولها وقد أبرت فإن ثمرها للذي أبرها إلا أن يشترط الذي اشتراها |
● صحيح مسلم | من باع نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح مسلم | أيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترط المبتاع |
● جامع الترمذي | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن أبي داود | من باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترطه المبتاع من باع نخلا مؤبرا فالثمرة للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن النسائى الصغرى | أيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن النسائى الصغرى | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع من باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن ابن ماجه | من باع نخلا قد أبرت فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن ابن ماجه | من باع نخلا وباع عبدا جمعهما جميعا |
● سنن ابن ماجه | من اشترى نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | من باع نخلا قد ابرت فثمرها للبائع إلا ان يشترطه المبتاع |
● بلوغ المرام | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع |
● مسندالحميدي | من باع عبدا وله مال، فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع، ومن باع نخلا بعد أن تؤبر، فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع |