علی بن طلق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ہوا خارج کرے تو چاہیئے کہ وضو کرے اور تم عورتوں کی دبر میں صحبت نہ کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: علی سے مراد علی بن طلق ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1166]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر رقم 1164 (ضعیف) (اس میں مسلم بن سلام ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (26) // عندنا برقم (35 / 205) ولفظه أتم ; لكن الشطر الثاني صحيح بما بعده (1166)
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 160
´نماز میں جس کا وضو ٹوٹ جائے اسے ازسر نو دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے` «. . . عن علي بن طلق رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا فسا احدكم في الصلاة فلينصرف وليتوضا وليعد الصلاة . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوران نماز جب تم میں سے کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو وہ واپس جائے، ازسرنو (دوبارہ سے) وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 160]
� لغوی تشریح: «بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ» شرط اسے کہتے ہیں جو اصل چیز سے خارج ہو لیکن اس کے لیے اس طرح لازمی اور ضروری ہو کہ اس کے نہ ہونے سے اس چیز کا وجود بھی ناپید ہو جائے، یعنی اس چیز کا ہونا اس شرط کے ساتھ لازم ہو۔ بالفاظ دیگر شرط اس کام کو کہتے ہیں کہ جس کے نہ ہونے سے شرط والا کام بھی نہ ہو۔ «اذا فات الشرط فات المشروط» جب شرط نہ رہے تو مشروط بھی معدوم ہو جاتا ہے۔ «فَسَا» «فسو» سے ماضی کا صیغہ ہے۔ مراد ہے مقعد سے بغیر آواز کے خارج ہونے والی ہوا۔ «وَلْيُعِدْ الصَّلَاةَ» «وَلْيُعِدْ» اعادہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: لوٹانا، دوبارہ ادا کرنا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نماز میں جس کا وضو ٹوٹ جائے اسے ازسر نو دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے۔ پہلی نماز پر بنا کسی صورت بھی صحیح نہیں۔ یہ اس حدیث کے معارض ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نواقض وضو کے باب میں پہلے گزر چکی ہے جس میں مذکور ہے کہ حالت نماز میں بے وضو ہو جانے والا آدمی نیا وضو کرے اور اپنی نماز پر بنا کرے۔ چونکہ وہ حدیث ضعیف ہے، لہٰذا اس حدیث کا باب مذکور کی حدیث سے مقابلہ نہیں ہو سکتا، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ نماز نئے سرے سے پڑھی جائے۔
راوئ حدیث: (سیدنا علی بن طلق رضی اللہ عنہ) پورا نام علی بن طلق (”طا“ پر فتحہ اور ”لام“ ساکن ہے) بن منذر بن قیس سحیمی یمامی حنفی ہے، بنو حنیفہ کی طرف نسبت کی وجہ سے حنفی ہیں۔ صحابی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کے والد ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے نام ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 160
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1005
´وضو ٹوٹ جانے پر دوبارہ نماز ادا کرنے کا بیان۔` علی بن طلق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو دوران نماز بغیر آواز کے ہوا خارج ہو تو وہ (نماز) چھوڑ کر چلا جائے اور وضو کرے اور نماز دہرائے ۱؎۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1005]
1005۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ہوا کا خروج آواز کے ساتھ ہو یا بے آواز دونوں طرح سے مسئلہ اسی طرح ہے۔ ➋ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر دوران نماز وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو کر کے نماز دہرانی پڑے گی نہ کہ بنا کی جائے گی۔ کیونکہ حدیث شریف کے واضح الفاظ ہیں۔ «وليعد صلوته» کہ ایسے شخص کو اپنی نماز دہرانی چاہیے۔ ➌ شیخ البانی رحمہ اللہ اور دیگر اکثر محققین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ لیکن جس طرح بے وضو آدمی کی نماز مقبول نہیں (صحیح بخاری حدیث 6954 میں ہے۔) اسی طرح دوران نماز میں بے وضو ہو جانے کی صورت میں بھی اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ اور اسے نئے سرے سے نماز پڑھنی پڑے گی اور اس کی دلیل بھی صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث ہی ہو گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1005
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1164
´عورتوں کی دبر میں صحبت کرنے کی حرمت کا بیان۔` علی بن طلق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ہم میں ایک شخص صحرا (بیابان) میں ہوتا ہے، اور اس کو ہوا خارج ہو جاتی ہے (اور وضو ٹوٹ جاتا ہے) اور پانی کی قلت بھی ہوتی ہے (تو وہ کیا کرے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کی جب ہوا خارج ہو جائے تو چاہیئے کہ وہ وضو کرے، اور عورتوں کی دبر میں صحبت نہ کرو، اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا۔“[سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1164]
اردو حاشہ: نوٹ: (اس کے دوراوی عیسیٰ بن حطان اور ان کے شیخ مسلم بن سلام الحنفی دونوں کے بارے میں ابن حجر نے کہا ہے کہ مقبول ہیں، یعنی جب ان کا کوئی متابع یا شاہد ہو، لیکن یہاں کوئی چیز ان کو تقویت پہنچانے والی نہیں ہے اس واسطے دونوں لین الحدیث ہیں، اس لیے حدیث ضعیف ہے، ) نیز ملاحظہ ہو: (تراجع الالبانی 353)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1164