علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام کر دئیے ہیں جو نسب سے حرام ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ابن عباس اور ام حبیبہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں جانتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1146]
وضاحت: ۱؎: یہ سات رشتے ہیں (۱) مائیں (۲) بیٹیاں (۳) بہنیں (۴) پھوپھیاں (۵) خالائیں (۶) بھتیجیاں (۷) بھانجیاں، ماں میں دادی نانی داخل ہے اور بیٹی میں پوتی نواسی داخل، اور بہنیں تین طرح کی ہیں: سگی، سوتیلی اور اخیافی، اسی طرح بھتیجیاں اور بھانجیاں اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں اور پھوپھیاں سگی ہوں خواہ سوتیلی خواہ اخیافی، اسی طرح باپ دادا اور ماں اور نانی کی پھوپھیاں سب حرام ہیں اور «خالائیں علی ہذا القیاس» ۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1146
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: یہ سات رشتے ہیں (1) مائیں (2) بیٹیاں (3) بہنیں (4)پھوپھیاں (5)خالائیں (6)بھتیجیاں (7)بھانجیاں، ماں میں دادی نانی داخل ہے اوربیٹی میں پوتی نواسی داخل، اوربہنیں تین طرح کی ہیں: سگی، سوتیلی اوراخیافی، اسی طرح بھتیجیاں اور بھانجیاں اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں اور پھوپھیاں سگی ہوں خواہ سوتیلی خواہ اخیافی، اسی طرح باپ دادا اورماں اورنانی کی پھوپھیاں سب حرام ہیں اورخالائیں علی ہذا القیاس۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1146
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3306
´رضاعی بھائی کی بیٹی (سے شادی) کی حرمت کا بیان۔` علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے آپ کی مہربانیاں و دلچسپیاں قریش میں بڑھ رہی ہیں اور (ہم جو آپ کے خاص الخاص ہیں) آپ ہمیں چھوڑ رہے (اور نظر انداز فرما رہے) ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی (شادی کے لائق) ہے؟“ میں نے کہا: ہاں! حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں ہے، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی ک [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3306]
اردو حاشہ: حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نسبی لحاظ سے تو رسول اللہﷺ کی چچا زاد بہن تھی اور اس سے آپ کا نکاح جائز تھا‘ اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے نکاح کی پیش کش کی لیکن چونکہ وہ آپ کی رضاعی بھتیجی بھی تھی کہ رسول اللہﷺ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ثویبہ نے بھی دودھ پلایا تھا۔ اس لحاظ سے وہ بھی آپ کے رضاعی بھائی تھے‘ لہٰذا ان کی بیٹی سے نکاح جائز نہیں تھا کیونکہ رضاعی بھتیجی بھی نسبتی بھتیجی کی طرح ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3306
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3581
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا وجہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے انتخاب کرتے ہیں اور ہمیں (بنو ہاشم کو) نظر انداز کر دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے ہاں کوئی رشتہ ہے؟“ میں نے عرض کیا۔ جی ہاں، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3581]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: تَنَوَّقُ: اصل میں تَتَنَوَّقُ ہے جو نیقہ سے ماخوذ ہے۔ اعلی اور عمدہ کو کہتے ہیں یہاں انتخاب کرنا پسند کرنا ہے۔ فوائد ومسائل: حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں دو چار سال بڑے تھے۔ اور انہیں ابولہب کی لونڈی نے دودھ پلایا تھا اور اس لونڈی ثوبیہ نامی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دودھ پلایا تھا ابولہب نے ثوبیہ کو اس وقت آزاد کیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ جا چکے تھے۔ (طبقات ابن سعد ج1ص 108) اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بیٹی کے نام میں بہت اختلاف ہے۔ مشہور نام عمارہ ہے جو مکہ میں اپنی والدہ کے پاس تھیں اور عمرۃ القضا سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ آ گئی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضانت میں دے دیا تھا۔ اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کسی صاحب علم وفضل کو اپنے خاندان اور قبیلہ کی بچی کے نکاح کی پیشکش کی جا سکتی ہے اور اس سلسلہ میں دوسری روایت کی روشنی میں اس کے حسن وجمال کا تذکرہ بھی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ حسن وجمال بھی باعث کشش ہے۔