´کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کی طرف چھ سال بعد پہلے نکاح کے ساتھ واپس فرما دیا تھا۔ نیا نکاح نہیں کیا تھا۔ اسے احمد اور چاروں نے سوائے نسائی کے روایت کیا ہے اور احمد اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 861»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الطلاق، باب إلي متي ترد عليه امرأته إذا أسلم بعدها، حديث:2240، والترمذي، النكاح، حديث:1143، وابن ماجه، النكاح، حديث:2009، وأحمد:1 /261، 351، 6 /366، والحاكم:2 /200 وصححه، ووافقه الذهبي.* داود بن الحصين ثقة ولكن قال ابن المديني: "ماروي عن عكرمة فمنكر" فالجرح مقدم ومفسر، وللحديث شواهد مرسلة.»
تشریح:
وضاحت:
«حضرت زینب رضی اللہ عنہا» بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے بڑی تھیں۔
ان کی والدہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔
ان سے ان کے خالہ زاد ابوالعاص بن ربیع نے نکاح کیا اور ایک بیٹا علی پیدا ہوا۔
وہ جب بلوغت کے قریب پہنچا تو فوت ہوگیا۔
فتح مکہ میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار تھا۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بطن سے امامہ رضی اللہ عنہا بھی پیدا ہوئیں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بدر کے بعد ہجرت کی اور ۸ ہجری کو فوت ہوئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں قبر میں اتارا۔
«حضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ» ان کا نام مقسم
(”میم“ کے نیچے کسرہ اور ”قاف“ ساکن) بن ربیع بن عبدالعزیٰ ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام لقیط تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا ان کے نکاح میں تھیں۔
بدر کے روز حالت کفر میں قید کر لیے گئے‘ پھر فدیہ لیے بغیر انھیں رہا کر دیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ زینب رضی اللہ عنہا کو ہمارے پاس بھیج دینا۔
انھوں نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
ابوالعاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اور محبوب تھے۔
جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔