الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
43. باب مَا جَاءَ فِي الزَّوْجَيْنِ الْمُشْرِكَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا
43. باب: اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 1143
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" رَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بْنِ الرَّبِيعِ، بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ وَلَمْ يُحْدِثْ نِكَاحًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ وَلَكِنْ لَا نَعْرِفُ وَجْهَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَعَلَّهُ قَدْ جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس چھ سال بعد ۱؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔ شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1143]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الطلاق 24 (2240)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2009)، (تحفة الأشراف: 6073) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)»

وضاحت: ۱؎: احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دو سال بعد انہیں واپس کیا، اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد، حافظ ابن حجر نے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مراد زینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کا واقعہ ہے، اور دو اور تین سے مراد آیت کریمہ «لاهن حل لهم» کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جو دو سال اور چند مہینوں پر مشتمل۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2009)

قال الشيخ زبير على زئي: (1143) إسناده ضعيف / د 2240، جه 2009

   جامع الترمذيرد النبي ابنته زينب على أبي العاصي بن الربيع بعد ست سنين بالنكاح الأول ولم يحدث نكاحا
   سنن أبي داودرد رسول الله ابنته زينب على أبي العاص بالنكاح الأول لم يحدث شيئا
   سنن ابن ماجهرد ابنته على أبي العاص بن الربيع بعد سنتين بنكاحها الأول
   بلوغ المرامابنته زينب على ابي العاص بن الربيع بعد ست سنين بالنكاح الاول ولم يحدث نكاحا

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1143 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1143  
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
احمد،
ابوداوداورابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے دوسال بعد انہیں واپس کیا،
اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد،
حافظ ابن حجر ؒ نے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مراد زینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کا واقعہ ہے،
اور دو اورتین سے مراد آیت کریمہ ﴿لَاهُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ﴾ کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جودوسال اورچند مہینوں پرمشتمل۔

نوٹ:
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ داؤد کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1143   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 861  
´کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کی طرف چھ سال بعد پہلے نکاح کے ساتھ واپس فرما دیا تھا۔ نیا نکاح نہیں کیا تھا۔ اسے احمد اور چاروں نے سوائے نسائی کے روایت کیا ہے اور احمد اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 861»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب إلي متي ترد عليه امرأته إذا أسلم بعدها، حديث:2240، والترمذي، النكاح، حديث:1143، وابن ماجه، النكاح، حديث:2009، وأحمد:1 /261، 351، 6 /366، والحاكم:2 /200 وصححه، ووافقه الذهبي.* داود بن الحصين ثقة ولكن قال ابن المديني: "ماروي عن عكرمة فمنكر" فالجرح مقدم ومفسر، وللحديث شواهد مرسلة.»
تشریح:
وضاحت: «حضرت زینب رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے بڑی تھیں۔
ان کی والدہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔
ان سے ان کے خالہ زاد ابوالعاص بن ربیع نے نکاح کیا اور ایک بیٹا علی پیدا ہوا۔
وہ جب بلوغت کے قریب پہنچا تو فوت ہوگیا۔
فتح مکہ میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار تھا۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بطن سے امامہ رضی اللہ عنہا بھی پیدا ہوئیں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بدر کے بعد ہجرت کی اور ۸ ہجری کو فوت ہوئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں قبر میں اتارا۔
«حضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا نام مقسم (میم کے نیچے کسرہ اور قاف ساکن) بن ربیع بن عبدالعزیٰ ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام لقیط تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا ان کے نکاح میں تھیں۔
بدر کے روز حالت کفر میں قید کر لیے گئے‘ پھر فدیہ لیے بغیر انھیں رہا کر دیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ زینب رضی اللہ عنہا کو ہمارے پاس بھیج دینا۔
انھوں نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
ابوالعاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اور محبوب تھے۔
جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 861   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2240  
´جب مرد عورت کے بعد اسلام قبول کرے تو کب تک عورت کو اسے لوٹایا جا سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح پر واپس بھیج دیا اور نئے سرے سے کوئی نکاح نہیں پڑھایا۔ محمد بن عمرو کی روایت میں ہے چھ سال کے بعد ایسا کیا اور حسن بن علی نے کہا: دو سال کے بعد۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2240]
فوائد ومسائل:
یہ روایت شیخ البانی ؒ کے نزدیک سنین کے ذکر کے بغیرصحیح ہے اور حافظ ابن حجر نے چھ سال یا دو سال کے ذکر کو صحیح سمجھتے ہوئے ان کے درمیان یہ تطبیق لکھی ہےکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی ہجرت اور ابو العاص رضی اللہ عنہ کے اسلام اور ہجرت میں چھ سال کا وقفہ تھا مگر آیت کریمہ: (لا هُنَّ حِلٌّ لَّهُم) (الممتحنه:10) مسلمان عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں۔
کے نزول اور ابو العاص کے اسلام وہجرت کرکے آنے میں دو سال اور کچھ ماہ کا وقفہ تھا۔
(شرح حدیث:5288) صحیح یہ ہے کہ ابو العاص نے مذکورہ آیت کے نزول سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور ہجرت کی تھی۔
زادالمعاد میں حافظ ابن القیم ؒ رقم طراز ہیں کہ ہمیں کسی شخص کے متعلق معلوم نہیں کہ قبول اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کے نکاح کی تجدید کی ہو۔
اس قسم کی صورت میں دو کیفیتیں ہوتی تھیں۔
یا تو افتراق ہوجاتا تھا اور عورت کسی اور سے نکاح کر لیتی تھی یا سابقہ نکاح قائم رہتا حتی کہ شوہر مسلمان ہوجاتا۔
محض اسلام قبول کرلینے سے کامل تفریق ہونا یا عدت کا اعتبار کرنا کرانا کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ نبیﷺنے ایسا کیا ہو حالانکہ آپ کے زمانے میں ایک کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے تھے۔
(زاد المعاد جلد چہارم، حکمه في الزوجین یسلم أحدھما قبل الآخر) علاوہ ازیں حضرت زینب اور ان کے خاوند کے بارے میں ایک دوسری روایت نکاح جدید کے ساتھ لوٹانے کی بھی آتی ہے۔
بعض علماء نے ان میں پہلی حدیث کو اور دیگر بعض علماء نے دوسری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور بعض نے ان کے درمیا ن تطبیق دی ہے۔
(تفصیل کے لیے فتح الباری کا محولہ مقام فرمایا جائے)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2240   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2009  
´میاں بیوی میں سے کوئی دوسرے سے پہلے مسلمان ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس دو سال کے بعد اسی پہلے نکاح پر بھیج دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2009]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
بنا بریں اگر عورت اپنے خاوند سے پہلے اسلام قبول کرلے تو اس کا اپنے خاوند سے ازدواجی تعلق قائم رکھنا جائز نہیں رہتا۔
ایک دفعہ ماہواری آنے کے بعد عورت کے لیے جائز ہوتا ہے کہ کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب نکاح من اسلم من المشرکات وعدتهن، حدیث: 5286)

(2)
  اگر عورت دوسری جگہ نکاح نہ کرے، بلکہ خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کرے تو جائز ہے۔
اگر خاوند طویل عرصے کے بعد بھی اسلام قبول کرے، تب بھی سابقہ نکا ح کے ساتھ وہ ازدواجی زندگی گزارسکتے ہیں، البتہ امام بخاری نے بعض صحابہ و تابعین کے فتوے ذکر کیے ہیں کہ اگر عورت پہلے مسلمان ہو جائے، پھر خاوند مسلمان ہو، خواہ عدت نہ گزری ہو، تب بھی نیا نکاح کرنا ضروری ہے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب إذا أسلمت المشرکة أو النصرانیة تحت الذمي أو الحربي، حدیث: 5288)
جبکہ امام ابن قیم  اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ ہمیں کسی شخص کے متعلق معلوم نہیں کہ قبول اسلام کے بعد نبئ اکرم ﷺ نے اس کے نکاح کی تجدید کی ہو۔
اس قسم کسی صورت میں دو کیفیتیں ہوتی تھیں۔
یا تو افتراق ہوجاتا تھا اور عورت کسی اور سے نکاح کرلیتی تھی یا سابقہ نکاح قائم رہتا حتی کہ شوہر مسلمان ہوجاتا۔
محض اسلام قبول کرلینے سے کامل تفریق ہونا یا عدت کا اعتبار کرنا کرانا، کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ نبئ اکرم ﷺ نےایسے کیا ہو، حالانکہ آپ کے زمانے میں ایک کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے تھے۔
دیکھئے: (زادالمعاد، جلد چہارم، حکمه ﷺ فی الزوجین یسلم أحدهما قبل الآخر)
علاوہ ازیں حضرت زینت اور ان کے خاوند کے بارے میں ذیل کی حدیث میں نکاح جدید سے لوٹانے کا ذکر آیا ہے تو اس کی بابت بعض علماء پہلی حدیث کو اور بعض نے دوسری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور بعض نے ان کے درمیان تطبیق دی ہے۔
تفصیل کےلیے دیکھئے: (فتح الباري، الطلاق، باب إذاأسلمت المشرکة.....، و إرواء الغلیل: 6؍339، 342، رقم: 1921، 1922، وصحیح سنن إبي داؤد (مفصل)
: 7؍10، 11 رقم: 1938)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2009