عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے، تو ان کی طرف رخ کر کے آپ نے فرمایا: «السلام عليكم يا أهل القبور يغفر الله لنا ولكم أنتم سلفنا ونحن بالأثر»”سلامتی ہو تم پر اے قبر والو! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے تم ہمارے پیش روہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں بریدہ رضی الله عنہ اور عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1053]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5403) (ضعیف) (اس کے راوی ”قابوس“ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے صحابہ کی روایت سے یہ حدیث ثابت ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1765) // ضعيف الجامع الصغير (3372) ، أحكام الجنائز (197) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1053) إسناده ضعيف قابوس: ضعيف (د 3032)
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 481
´اصحاب القبور کو سلام کرنا` ”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر مدینہ کے قبرستان سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے اہل قبور! تم پر سلام ہو! اللہ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے! تم ہمارے پیش رو ہو ہم تمہارے پیچھے چلے آ رہے ہیں۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 481]
لغوی تشریح: «أَنْتُمْ سَلَفُنَا» «سلْفُنَا» میں ”سین“ اور ”لام“ دونوں پر فتحہ ہے، یعنی پہلے فوت ہونے والے۔ «وَنَحْنُ بِالْاَثْرِ» «اثر» میں ”ہمزہ“ اور ”ثا“ پر فتحہ ہے، یعنی ہم تمہارے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں اور تمہیں ملنے والے ہیں۔
فائدہ: اصحاب القبور کو سلام، ایک دعائیہ کلام ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے لے سلامتی کی دعا ہوتی ہے، مردوں کی سنانا مقصود نہیں ہوتا، جس طرح خط لکھتے وقت غائب دوست کو مخاطب کر کے السلام علیکم کہا جاتا ہے، اس سے خطاب مقصود نہیں ہوتا بلکہ دعائیہ کلام مقصود ہوتا ہے۔ بعینہ اصحاب القبور کو سلام سنانا مقصود نہیں ہوتا اور نہ وہ سنتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: «وَمَا أَنْتَ بِمُسْمعِ مَّنْ فِي الْقُبُورِ»[الفاطر، 22: 35] یعنی آپ قبروں والوں کو نہیں سنا سکتے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 481