عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا: ”تمہارے بھائی نجاشی ۱؎ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو“۔ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ حدیث ابوقلابہ نے بھی اپنے چچا ابومہلب سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے، ۳- ابومہلب کا نام عبدالرحمٰن بن عمرو ہے۔ انہیں معاویہ بن عمرو بھی کہا جاتا ہے، ۴- اس باب میں ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، ابوسعید، حذیفہ بن اسید اور جریر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1039]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الجنائز72 (1977) سنن ابن ماجہ/الجنائز33 (1535) (تحفة الأشراف: 10889) مسند احمد (4/439) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الجنائز22 (953) سنن النسائی/الجنائز57 (1948) مسند احمد (4/433، 441، 446) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھا جیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصر اور ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا، نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجر تھا اسی بادشاہ کے دور میں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶ھ کے آخر یا محرم ۷ھ میں نجاشی کو عمرو بن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا، اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور جعفر بن ابی طالب رضی الله عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوہ تبوک ۹ھ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔
۲؎: اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے، نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو گیا الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول امام احمد بن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی تعامل امت ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1039
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھاجیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصراورایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا، نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجرتھا اسی بادشاہ کے دورمیں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی، نبی اکرمﷺ نے 6ھ کے آخر یا محرم 7ھ میں نجاشی کو عمروبن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی توانہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا، اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اوراپنے تخت شاہی سے نیچے اترآیا اورجعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرمﷺکو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوئہ تبوک 9ھ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔
2؎: اس سے بعض لوگوں نے صلاۃِجنازہ غائبانہ کے جواز پراستدلال کیا ہے، صلاۃِ جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگرمیت کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اوراگرپڑھی جاچکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ اداہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اورصالح شخصیت ہو تو پڑھنابہترہے یہی قول امام احمدبن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرمﷺ سے ثابت نہیں ہے اورنہ ہی تعامل امت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1039
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1948
´مردے پر نماز جنازہ پڑھنے کے حکم کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا بھائی مر گیا ہے، اٹھو اس کی نماز جنازہ پڑھو۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1948]
1948۔ اردو حاشیہ: امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے، یعنی ہر (مسلم) میت کا جنازہ ضرور ہونا چاہیے، تھوڑے لوگ پڑھیں یا زیادہ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے۔ اس حدیث سے بالتبع جنازۂ غائبانہ بھی ثابت ہوتا ہے، امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں جبکہ حنفی اور مالکی اس کے قائل نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے اور مذکوورہ حدیث اس کی دلیل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1948
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1977
´جنازہ پر صف بندی کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”تمہارے بھائی نجاشی انتقال کر گئے ہیں تو تم اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو“، تو ہم کھڑے ہوئے (اور) ہم نے ان پر اسی طرح صف بندی کی جس طرح میت پر کی جاتی ہے، اور ہم نے ان کی نماز (جنازہ) اسی طرح پڑھی جس طرح میت کی پڑھی جاتی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1977]
1977۔ اردو حاشیہ: ”جیسے میت پر کی جاتی ہے“ گویا جنازے میں صف بندی ایک مشہور اور غیر متنازعہ بات ہے۔ ویسے بھی جنازے کے لیے لفظ نماز کا استعمال دلالت کرتا ہے کہ جنازے کے خصوصی احکام کے علاوہ نماز کے تمام احکام اس پر لاگو ہوں گے، مثلاً: قبلے کی طرف منہ کرنا، وضو کرنا، صفیں درست کرنا اور فاتحہ کی قرأت وغیرہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1977
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2210
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا بھائی فوت ہو چکا ہے، تو اٹھو اوراس کا جنازہ پڑھو۔“ آپﷺ کا مقصد نجاشی تھا، زہیر کی روایت میں إِنَّ أَخَالكُمْ کی بجائے أَخَاكُمْ ہے۔ (مقصد ایک ہی ہے)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2210]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ شاہ حبشہ کا لقب نجاشی ہے۔ اور حبشہ کا ہر بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمان ہو کر مرنے والا نجاشی اصحمہ تھا جس کی وفات رجب 9ہجری میں ہوئی۔ 2۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسا انسان فوت ہوا جس کا امت مسلمہ کے ہاں مقام ومرتبہ اس کی خوبیوں اور کمالات کی بنا پر تسلیم شدہ ہو کہ سب لوگ اس کے احسان مند ہوں تو اس کا غائبانہ جنازہ پڑھا جائے گا۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس معتدل مؤقف کو اختیار کیا ہے۔ ائمہ اربعہ کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غائبانہ جنازہ جائز ہے کیونکہ بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ صلاۃ جنازہ دعا ہے اور دعا موجود اورغائب دونوں کے لیے ہو سکتی ہے۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ آپﷺ کی زندگی میں آپ کے بہت سے ساتھی غائبانہ طور پر فوت ہوئے ہیں۔ لیکن آپﷺ نے کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ خلاصہ یہی ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی خدمات کے اعتراف کے طور پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا صحیح ہے اور ہر نیک آدمی کے لیے درست نہیں ہے۔ 3۔ ائمہ اربعہ کا جنازہ کی چار تکبیرات ہونے پر اتفاق ہے۔