عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مروان بن حکم نے انہیں خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ کیا بات ہے کہ میں مغرب میں تمہیں چھوٹی سورتیں پڑھتے دیکھتا ہوں، حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز میں دو بڑی سورتوں میں جو زیادہ بڑی سورت ہے اسے پڑھتے دیکھا ہے، میں نے پوچھا: اے ابوعبداللہ! دو بڑی سورتوں میں سے زیادہ بڑی سورت کون سی ہے؟ انہوں نے کہا: اعراف۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 991]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 991
991 ۔ اردو حاشیہ: حضرت مروان اس وقت مدینے کے گورنر تھے، بعد میں امیر المؤمنین ہوئے، لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ بہت چھوٹی سورتیں پڑھتے ہوں گے جیسا کہ حدیث نمبر: 990 میں ذکر ہے، حالانکہ چھوٹی مفصل سورتوں میں ان سے دگنی بلکہ تگنی سورتیں بھی شامل ہیں۔ انہیں بھی پڑھنا چاہیے۔ گویا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اعتراض بہت چھوٹی سورتیں ہمیشہ پڑھنے پر تھا، نہ کہ قصار مفصل پڑھنے پر کیونکہ ان کا پڑھنا تو مسنون ہے۔ باقی رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سورۂ اعراف جیسی طویل سورت مغرب میں پڑھنا تو وہ کبھی کبھار تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 991
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 812
´مغرب میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔` مروان بن حکم کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا وجہ ہے کہ تم مغرب میں قصار مفصل پڑھا کرتے ہو؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، مروان کہتے ہیں: میں نے (ان سے) پوچھا: وہ دو لمبی لمبی سورتیں کون سی ہیں؟ انہوں نے کہا سورۃ الاعراف اور دوسری سورۃ الانعام ہے۔ ابن جریج کہتے ہیں: میں نے ابن ابی ملیکہ سے پوچھا: تو انہوں نے مجھ سے خود اپنی طرف سے کہا: وہ سورۃ المائدہ اور اعراف ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 812]
812۔ اردو حاشیہ: ➊ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر لمبی قرأت بھی کی ہے۔ امام کو اپنے مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے قرأت اختیار کرنی چاہیے۔ ➋ سورۃ حجرات سے آخر قرآن تک کی سورتوں کو مفصل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ ان میں «بسم الله» سے فصل کا تکرار ہے۔ سورہ «لم يكن» سے آخر تک ”قصار مفصل“، سورہ بروج سے «لم يكن» تک ”اوساط مفصل“ اور سورۃ حجرات سے بروج تک ”طوال مفصل“ کہلاتی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 812
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 990
´مغرب میں سورۃ «المص» پڑھنے کا بیان۔` زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مروان سے پوچھا: اے ابوعبدالملک! کیا تم مغرب میں «قل هو اللہ أحد» اور «إنا أعطيناك الكوثر» پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں! تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں «المص» جو دو لمبی سورتوں (انعام اور اعراف) میں زیادہ لمبی ہے (سورۃ الاعراف) پڑھتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 990]
990 ۔ اردو حاشیہ: دو لمبی سورتوں سے مراد سورہ انعام اور سورہ اعراف ہیں اور ان میں سے زیادہ لمبی سورت سورہ اعراف ہے۔ اس سورہ المص بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انھی حروف سے اس سورت کا آغاز ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 990
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:764
764. مروان بن حکم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: تو نماز مغرب میں چھوٹی چھوٹی سورتیں (قصار) پڑھتا ہے جبکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز مغرب میں دو بڑی سورتوں میں سے زیادہ بڑی سورت پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:764]
حدیث حاشیہ: (1) دیگر روایات میں وضاحت ہے کہ مروان بن حکم اس وقت مدینے کا گورنر تھا اور اس نے نماز مغرب میں سورۂ اخلاص اور سورۂ کوثر پڑھیں۔ اس پر حضرت زید بن ثابت ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے عمل سے تنبیہ فرمائی۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 990) روایت میں دو بڑی سورتوں میں سے بڑی سورت کی صراحت بھی ہے کہ وہ سورۂ اعراف ہے۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 991) نیز راوی نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورۂ اعراف پڑھی تھی، یعنی کچھ حصہ پہلی رکعت میں اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں تلاوت فرمایا۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 992) (2) قرآنی سورتوں کی چھوٹی بڑی ہونے کے اعتبار سے چار اقسام ہیں: ٭سبع طوال: سات لمبی سورتیں۔ اس سے مراد سورۂ بقرہ سے سورۂ توبہ تک سات سورتیں ہیں۔ واضح رہے کہ مضمون کے اعتبار سے سورۂ انفال اور سورۂ توبہ کو ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ ٭مئین: اس سے مراد وہ سورتیں ہیں جن کی آیات کم ازکم سویا اس سے زیادہ ہوں۔ یہ سورۂ یونس سے سورۂ طہ تک ہیں۔ ٭مثانی: وہ سورتیں جن کی آیات سو سے کم ہوں۔ یہ سورتیں سورۂ انبیاء سے سورۂ فتح تک ہیں۔ ٭ مفصل: اس سے مراد وہ سورتیں ہیں جن میں بکثرت بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کے ذریعے سے فاصلہ آیا ہے۔ ان کی تین اقسام ہیں: ٭ طوال مفصل: سورۂ ق سے سورۂ عم یتساءلون تک۔ ٭ اوساط مفصل: سورۂ نازعات سے سورۂ والضحیٰ تک۔ ٭قصار مفصل: سورۂ الم نشرح سے سورۂ ناس تک۔ (الإتقان في علوم القرآن للسیوطي،النوع الثامن عشر في جمعه وترتیبه: 1/199۔ 203، طبع دار ابن کثیر) عام طور پر رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ وہ نماز فجر میں طوال مفصل، عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 983) لیکن امام کو اپنے مقتدی کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی قراءت ان کے لیے بار خاطر نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلے میں متعدد انداز سے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 764