ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے فلاں سے بڑھ کر کسی کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ نماز نہیں پڑھی (سلیمان کہتے ہیں) ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی، وہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتے تھے، اور آخری دونوں (رکعتیں) ہلکی کرتے، اور عصر بھی ہلکی کرتے، اور مغرب میں قصار مفصل پڑھتے، اور عشاء میں «والشمس وضحاها» اور اسی طرح کی سورتیں پڑھتے، اور فجر میں دو لمبی دو سورتیں پڑھتے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 984]
يطيل الأوليين من الظهر ويخفف في الأخريين ويخفف في العصر ويقرأ في المغرب بقصار المفصل ويقرأ في العشاء بالشمس وضحاها وأشباهها ويقرأ في الصبح بسورتين طويلتين
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 226
´نماز کی صفت کا بیان` «. . . وعن سليمان بن يسار قال: كان فلان يطيل الأوليين من الظهر ويخفف العصر ويقرأ في المغرب بقصار المفصل وفي العشاء بوسطه وفي الصبح بطواله . فقال أبو هريرة: ما صليت وراء أحد أشبه صلاة برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من هذا . أخرجه النسائي بإسناد صحيح. . . .» ”. . . سیدنا سلیمان بن یسار رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ فلاں صاحب ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتے ہیں (ان میں قرآت لمبی کرتے ہیں) اور نماز عصر میں تخفیف کرتے ہیں اور نماز مغرب میں قصار مفصل (چھوٹی سورتیں) اور عشاء میں اوساط مفصل اور صبح کی نماز میں طوال مفصل پڑھتے ہیں۔ تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے کسی کی امامت میں اس سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ نماز نہیں پڑھی۔ نسائی نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 226]
لغوی تشریح: «كَان فُلان» بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد امیر مدینہ عمرو بن سلمہ ہیں۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ مراد ہیں مگر یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی تو ولادت ہی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔ «يُخَفَّفُ العصر» سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تخفیف ظہر کے اعتبار سے عصر کی سب رکعتوں میں ہے۔ «بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ» «قِصَار» میں ”قاف“ کے نیچے کسرہ ہے۔ «قصيرة» کی جمع ہے۔ اور مفصل: جس کے درمیان میں فواصل آیات زیادہ ہوں۔ یاد رہے کہ قرآن کا آخری حصہ جن چھوٹی چھوٹی سورتوں پر مشتمل ہے اس کا نام مفصل ہے کیونکہ اس حصے کی سورتیں چھوٹی ہیں اور ہر سورت کی نوعیت ایسی ہے کہ جیسے الگ اور مستقل گفتگو ہو۔ اس میں اختلاف ہے کہ مفصل حصہ کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ مشہور تو یہی ہے کہ اس کا آغاز سورۃ الحجرات سے ہوتا ہے۔ اور یہ بھی رائے ہے کہ دوسری کسی سورت سے اس کی ابتدا ہوتی ہے اور اس کی انتہا آخر قرآن تک ہے۔ پھر مفصل کی تین اقسام ہیں: طوال مفصل، اوساط مفصل اور قصار مفصل۔ چنانچہ مشہور قول کے مطابق طوال مفصل، سورہ حجرات سے شروع ہوکر سورہ بروج تک اور اوساط مفصل، سورہ بروج سے شروع ہوکر سورہ بینہ تک اور سورہ بینہ سے لے کر قرآن پاک کے اختتام تک قصار مفصل ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورہ حجرات سے لے کر اختتام قرآن مجید تک تمام سورتیں مفصلات کہلاتی ہیں۔ ➋ مفصلات کی تین اقسام ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ ➌ صبح کی نماز میں طوال مفصل، نماز عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب کی نماز میں قصار مفصل سورتوں کا مسنون ہے۔
راویٔ حدیث: (سلیمان بن یسار رحمہ اللہ) ان کی کنیت ابوایوب ہے۔ «يَسَار» کی ”یا“ پر فتحہ ہے۔ کبار تابعین میں سے ہیں۔ فقہائے سبعہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بڑے عابد اور فقیہ تھے۔ بہت بڑے مرتبے کے عالم تھے۔ بہت سی احادیث ان سے مروی ہیں۔ سیدہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔ 107 ہجری میں 73 سال کی عمر میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 226
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 983
´قیام اور قرأت کو ہلکا کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو فلاں ۱؎ کی نماز سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہو، سلیمان کہتے ہیں: وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتے اور آخری دونوں رکعتیں ہلکی کرتے، اور عصر کو ہلکی کرتے، اور مغرب میں «قصارِ» مفصل پڑھتے تھے، اور عشاء میں «وساطِ» مفصل پڑھتے تھے، اور فجر میں «طوالِ» مفصل پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 983]
983 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اگرچہ بعض روایات میں عصر کی نماز کو ظہر کے برابر بتلایا گیا ہے مگر کثیر اور راجح روایات کی رو سے عصر کی نماز ظہر کی نماز سے تقریباً نصف ہوتی تھی۔ اس کی مناسبت ظہر کی بجائے مغرب کے ساتھ زیادہ تھی۔ ➋ مغرب کی نماز میں بہت ہلکی قرأت ہونی چاہیے۔ ➌ ”مفصل“ سے مراد قرآن مجید کی آخری ساتویں منزل ہے جس میں چھوٹی سورتیں ہیں جو عام طور پر نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ فاصلہ تھوڑا تھوڑا ہونے کی وجہ سے انہیں مفصل کہا جاتا ہے۔ ان کی ابتدا سورۂ حجرات سے ہوتی ہے۔ آگے تقسیم میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ زیادہ مشہور یہ ہے کہ طوال مفصل ”حجرات“ سے ”بروج“ تک اور اوساط مفصل یہاں سے ”بینہ“ تک اور قصار مفصل اس سے آگے آخر تک ہیں۔ طوال مفصل صبح کی نماز میں، اوساط مفصل عشاء اور ظہر کی نماز میں اور قصار مفصل مغرب اور عصر کی نماز میں پڑھی جاتی ہیں۔ مغرب کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات لمبی سورت بھی پڑھ لیتے تھے، معمول قصار مفصل ہی کا تھا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 983
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث827
´ظہر اور عصر کی قرات کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے فلاں یعنی عمرو بن سلمہ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کی نماز نہیں دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتے، اور آخری دونوں ہلکی کرتے، اور عصر کی نماز بھی ہلکی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 827]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) علامہ وحید الذمان بیان کرتے ہیں کہ وہ شخص حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ یا عمر بن عبد العزیز یا عمر بن سلمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یعنی حضرت ابو ہریرۃ کا اشارہ ان حضرات میں سے کسی ایک کی طرف ہے۔ کہ ان کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے بہت ملتی جلتی ہے۔
(2) عصر کی نماز ظہر کی نماز سے ہلکی پڑھنا مسنون ہے۔ تاہم اس میں بھی پہلی رکعتیں نسبتاً طویل اور آخری رکعتیں مختصر ہونی چاہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 827