ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک سورت پڑھائی تھی، میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اسی سورت کو پڑھ رہا ہے، اور میری قرآت کے خلاف پڑھ رہا ہے، تو میں نے اس سے پوچھا: تمہیں یہ سورت کس نے سکھائی ہے؟ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: تم مجھ سے جدا نہ ہونا جب تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آ جائیں، میں آپ کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ شخص وہ سورت جسے آپ نے مجھے سکھائی ہے میرے طریقے کے خلاف پڑھ رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی! تم پڑھو“ تو میں نے وہ سورت پڑھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت خوب“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: ”تم پڑھو!“ تو اس نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت خوب“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی! قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، اور ہر ایک درست اور کافی ہے“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: معقل بن عبیداللہ (زیادہ) قوی نہیں ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 941]
وضاحت: ۱؎: مؤلف نے الف لام کے ساتھ «القوی» کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے مراد ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک یہ ہے کہ ”یہ اتنا قوی نہیں ہیں جتنا صحیح حدیث کے راوی کو ہونا چاہیے“ یہ بقول حافظ ابن حجر «صدوق یخطیٔ» ہیں، یعنی عدالت میں تو ثقہ ہیں مگر حافظہ کے ذرا کمزور ہیں، متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر ان کی یہ روایت حسن صحیح ہے۔
الله يأمرك أن تقرأ أمتك القرآن على حرف أسأل الله معافاته ومغفرته وإن أمتي لا تطيق ذلك ثم أتاه الثانية فقال إن الله يأمرك أن تقرأ أمتك القرآن على حرفين فقال أسأل الله معافاته ومغفرته وإن أمتي لا تطيق ذلك ثم جاءه الثالثة فقال إن الله يأمرك أن تقرأ أمتك القر