ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، اور انہیں بلایا، تو میں نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوسعید تمہیں مجھے جواب دینے سے کس چیز نے روکا؟“ کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے!: «يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم»”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے حیات بخش ہو“(الحجر: ۸۷) کیا تم کو مسجد سے نکلنے سے پہلے میں ایک عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں؟“ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو کہا تھا بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ سورت «الحمد لله رب العالمين» ہے، اور یہی «سبع المثاني»۱؎ ہے جو مجھے دی گئی ہے، یہی قرآن عظیم ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 914]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة 1 (4474)، تفسیر الأنفال 3 (4647)، تفسیر الحجر 3 (4703)، فضائل القرآن 9 (5006)، سنن ابی داود/الصلاة 350 (1458)، سنن ابن ماجہ/الأدب 52 (3785)، (تحفة الأشراف: 12047)، مسند احمد 3/450، 4 (211)، سنن الدارمی/الصلاة 172 (1533)، فضائل القرآن 12 (3414)، موطا امام مالک/ الصلاة 8 (37) من حدیث أبی بن کعب (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سورۃ فاتحہ کا نام «سبع المثاني» ہے، «سبع» اس لیے ہے کہ یہ سات آیتوں پر مشتمل ہے، اور «مثانی» اس لیے کہ یہ نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، اس کی اسی اہمیت و خصوصیت کے اعتبار سے اسے قرآن عظیم کہا کیا ہے، گرچہ قرآن کی ہر سورت قرآن عظیم ہے جس طرح کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے گرچہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، لیکن اس کی عظمت و خصوصیت کے اظہار کے لیے صرف کعبہ ہی کو بیت اللہ کہتے ہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 914
914 ۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپ نماز میں بھی بلائیں تو جانا فرض ہے اور جواب دینا بھی۔ ➋ سبع مثانی کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ ابن مسعود، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سات طویل سورتیں، یعنی: بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس ہیں کیونکہ ان سورتوں میں فرائض، حدود، قصص اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے اور یہ سات آیات پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر حضرت علی، حضرت عمر اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ دیکھیے: [تفسیر الطبری: 14: 72، 73] امام بخاری رحمہ اللہ اس بارے میں حدیث بیان کرتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أُمُّ القرآنِ وَهيَ السَّبعُ المَثاني وَهيَ القرآنُ العظيمُ»”ام القرآن (سورۂ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔“[صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4704] یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سبع مثانی، نماز میں دوہرا کر پڑھی جانی والی سات آیات اور قرآن عظیم ہے لیکن یہ اس کے منافی نہیں کہ سات طویل سورتوں کو بھی سبع مثانی قرار دیا جائے۔ کیونکہ ان میں بھی یہ وصف موجود ہے بلکہ یہ اس کے بھی منافی نہیں کہ پورے قرآن کو سبع مثانی قرار دیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: « ﴿اللَّهُ نزلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ﴾ »[الزمر: 39: 23] ”اللہ نے کتابی شکل میں بہترین کلام اتارا ہے جس کی ملتی جلتی آیات و احکام باربار دوہرائے جاتے ہیں۔“ یعنی اس کتاب کی آیات باربار دوہرائی بھی جاتی ہیں اور یہ قرآن عظیم بھی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ کو قرآن مجید اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو توحیدورسالت، آخرت، اوامرونواہی، تبشیروانذار، انعامات، قصص و واقعات اور سابقہ امتوں کا بیان ہے، سورۂ فاتحہ میں یہ سب کچھ اختصارواجمال کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔ ➌ جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم آ جائے تو بلاتامل فوراًً اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور اس کے مقابلے میں اپنی یا کسی امتی کی رائے یا قیاس پیش نہیں کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 914
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1458
´سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان۔` ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ان کے پاس سے ہوا وہ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ نے انہیں بلایا، میں (نماز پڑھ کر) آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے مجھے جواب کیوں نہیں دیا؟“، عرض کیا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ”اے مومنو! جواب دو اللہ اور اس کے رسول کو، جب رسول اللہ تمہیں ایسے کام کے لیے بلائیں، جس میں تمہاری زندگی ہے“ میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورۃ سکھاؤں گا اس سے پہلے کہ میں مسجد سے نکلوں“، (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے) تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابھی آپ نے کیا فرمایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ سورۃ «الحمد لله رب العالمين» ہے اور یہی سبع مثانی ہے جو مجھے دی گئی ہے اور قرآن عظیم ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1458]
1458. اردو حاشیہ: رسول اللہ ﷺ کا مقام یہ ہے۔ کہ آپ کی پکار کا فوراً جواب دینا فرض تھا۔ خواہ انسان نماز میں بھی ہو۔ اور اب یہ ہے کہ مومن کو چاہیے کہ کتاب وسنت کے احکام سن کر بلا حیل وحجت ان پر عمل کرے۔ اور تردد اور پس وپیش کی کیفیت سے باز رہے اور اسی میں حیات اور نجات ہے۔ ➋ اعظم کے معنی مقدار میں بڑا ہونا ہی نہیں ہیں۔ بلکہ مقام ورتبہ کے لہاظ سے بھی بڑے کو اعظم کہتے ہیں۔ اس سے زبان زد عوام روایت (فإذا رايتهم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم] [سنن ابن ماجة۔ الفتن۔ حدیث:3950] کے معنی بھی متعین ہوجاتے ہیں۔ سواد اعظم کی اتباع کرو یعنی وہ جماعت جو افضل ہو۔ یہ روایت اگرچہ سخت ضعیف ہے۔ لیکن اگر اسے کسی درجے میں تسلیم کر لیا جائے۔ تو اعظم کے معنی یہاں اکثر کے نہیں۔ افضل کے ہوں گے۔ اور افضلیت اتباع قرآن وسنت میں ہے نہ کہ بھیڑ جمع ہوجانے میں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1458
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4474
4474. حضرت ابو سعید بن معلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی لیکن میں اس وقت حاضر نہ ہو سکا۔ (نماز پڑھ کر آپ کے پاس آیا) تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد گرامی نہیں: ”اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب وہ تمہیں بلائیں۔“ پھر فرمایا: ”میں تیرے مسجد سے باہر جانے سے قبل تجھے ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑھ کر ہے۔“ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ جب آپ نے مسجد سے باہر آنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا: ”میں تجھے ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑھ کر ہے۔“ آپ نے فرمایا: ”وہ سورت (الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ یعنی فاتحہ ہے۔ یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4474]
(ب) مالك يوم الحساب۔ یہ دونوں لازم ملزوم ہیں کیونکہ حساب، جزا کے لیے ہوتا ہے اور جزا و سزا، محاسبہ کے بغیر ممکن نہیں۔ حدیث ترجمہ: ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابو سعید بن معلی ؓ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے مجھے اسی حالت میں بلایا، میں نے کوئی جواب نہیں دیا (پھر بعدمیں، میں نے حاضر ہوکر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا، کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے نہیں فرمایا ہے۔ ﴿اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ﴾(اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو) پھر حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورت کی تعلیم دوںگا جو قرآ ن کی سب سے بڑی سورت ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جب آپ باہر نکلنے لگے تو میں نے یا د دلایا کہ حضورﷺ نے مجھے قرآ ن کی سب سے بڑی سورت بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ آپ نے فرمایا ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔ حدیث حاشیہ: سبع مثانی وہ سات آیات جو بار بار پڑھی جائی ہیں۔ جن کو نماز کی ہرہر رکعت میں امام اور مقتدی سب کے لیے پڑھنا ضروری ہے جس کے پڑھے بغیر کسی کی نماز نہیں ہوتی۔ یہی قرآن عظیم ہے۔ صدق اللہ تبارك وتعالیٰ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4474
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4647
4647. حضرت ابوسعید بن معلٰی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے اور آپ نے مجھے آواز دی۔ میں آپ کی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ فراغت نماز کے بعد حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے میرے پاس آنے میں کیا رکاوٹ تھی؟“ کیا اللہ تعالٰی نے نہیں فرمایا: "ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں بلائیں۔" پھر آپ نے فرمایا: ”مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے میں تمہیں قرآن کی ایک عظیم ترین سورت کی تعلیم دوں گا۔“ تھوڑی دیر بعد جب رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔ معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبیب بن عبدالرحمٰن سے بیان کیا، انہوں نے حفص سے سنا، انہوں نے ابو سعید بن معلٰی ؓ سے سنا جو نبی ﷺ کے صحابی تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ”وہ سورت ﴿ٱلْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿٢﴾ ہے جس میں سات آیات ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4647]
حدیث حاشیہ: قرآن مجید کی پوری آیت یوں ہے ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ﴾(الحجر: 87) اے نبی! ہم نے آپ کو قرآن مجید میں سات آیات ایسی دی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی رہتی ہیں اور جو قرآن مجید کی بہت ہی بڑی عظمت والی آیات ہیں گویا یہ آیات قرآن عظیم کہلانے کی مستحق ہیں۔ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس آیت میں جن آیتوں کا ذکر ہوا ہے، اس سے سورۃہ فاتحہ مراد ہے۔ حدیث میں جسے ام الکتاب یعنی قرآن مجید کی جڑ بنیاد کہا گیا ہے۔ یہی وہ سورہ ہے جسے ہر نمازی اپنی نماز میں بار بار پڑھتا ہے۔ نماز نفل ہو یا سنت یا فرض ہر ہر رکعت میں یہ سورہ پڑھی جاتی ہے۔ سارے قرآن میں اور کوئی سورہ شریفہ ایسی نہیں ہے جو اس کا بدل ہو سکے۔ اس سورہ کے بہت سے نام ہیں، اس کو صلوٰۃ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ حدیث ابو ہریرہ ؓ میں حدیث قدسی میں نقل ہوا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وبيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ'' میں نے ''صلوٰة'' کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کردیا ہے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ کا آدھا حصہ تعریف وحمد وتقدیس الٰہی پر مشتمل ہے اور آگے دعاؤں اور ان کے آداب و قوانین کا بیان ہے۔ اس لیے حدیث میں صاف وارد ہوا ہے کہ (لا صَلاةَ لمن لم يقرَأْ بفاتِحةِ الكِتابِ) یعنی جس نے نماز میں سورۃہ فاتحہ نہ پڑھی ہو اس کی نماز کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے اکثر صحابہ کرام وتابعین وائمہ مجتہدین ہر نماز میں سورۃ فاتحہ کی فرضیت کے قائل ہیں اور اسی کو راجح اور قوی مذہب قرار دیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اور آپ کے اکثر اصحاب ؒ بھی سری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کے استحباب کے قائل ہیں۔ بہر حال سورۃ فاتحہ بڑی شان وعظمت والی سورہ ہے۔ اس کی ہر ہر آیت معرفت وتوحید الٰہی کا ایک عظیم دفتر ہے۔ عقائد واعمال کا خزانہ ہے۔ ہر انصاف پسند نمازی کا فرض ہے وہ امام ہو یا مقتدی مگر اس سورۃ شریفہ کو ضرور پڑھے تاکہ نماز میں کوئی نقص باقی نہ رہے۔ ہر نماز میں سورۃ فاتحہ کی فرضیت کے دلائل بہت ہیں جو پیچھے کتاب الصلوٰۃ میں مفصل بیان ہو چکے ہیں وہاں ان کا مطالعہ ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4647
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4474
4474. حضرت ابو سعید بن معلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی لیکن میں اس وقت حاضر نہ ہو سکا۔ (نماز پڑھ کر آپ کے پاس آیا) تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد گرامی نہیں: ”اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب وہ تمہیں بلائیں۔“ پھر فرمایا: ”میں تیرے مسجد سے باہر جانے سے قبل تجھے ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑھ کر ہے۔“ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ جب آپ نے مسجد سے باہر آنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا: ”میں تجھے ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑھ کر ہے۔“ آپ نے فرمایا: ”وہ سورت (الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ یعنی فاتحہ ہے۔ یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4474]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں یہی واقعہ حضرت ابی بن کعب ؓ کےمتعلق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: "کیا میں تجھے ایسی صورت سے آگاہ نہ کروں جوتورات، انجیل، زبوراورفرقان میں نازل نہیں ہوئی۔ " (جامع الترمذي، فضائل القرآن، حدیث: 2875) اس حدیث سے سورۃ الفاتحہ کی عظمت ورفعت کا پتہ چلتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان خواہ کتنے ہی ضروری کام میں مصروف ہو، اسے رسول اللہ ﷺ کے بلانے پر نماز چھوڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ اس کے علاوہ حدیث جریج (صحیح بخاري، حدیث: 1206) سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کے بلانے پر انسان کو نفلی نماز توڑکر اسی وقت حاضر ہوجانا چاہیے، عدم تعمیل کی صورت میں والدین کی آہ سے سنگین نتائج سے دوچار ہونے کا اندیشہ ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق اپنی صحیح میں ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب: 7) 3۔ واضح رہے کہ سورت فاتحہ کو سبع مثانی درج ذیل وجوہات کی بنا پر کہا گیا ہے: *۔ اس کی سات آیات کو نماز میں بار بار پڑھا جاتا ہے یا اس کا نزول دومرتبہ ہوا: ایک مرتبہ مکہ میں اور دوسری بار مدینہ طیبہ میں۔ *۔ اس میں بڑے جامع انداز میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ثنا بیان کی گئی ہے۔ *۔ یہ سورت اُمت محمدیہ کو استثنائی اورخصوصی طور پر عطا کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مثانی خواہ تثنیہ سے ماخوذ ہو یا ثنا سے یا استثناء سے اسے بنا یا گیا ہو، ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ ان سب وجوہ کی بنا پر اس سورت کو سبع مثانی کہا گیاہے۔ واللہ اعلم۔ اور اسے القرآن العظیم اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کے بنیادی مضامین اس سورت میں اجمالاً آگئے ہیں، گویا کوزے میں سمندر کو بند کردیا گیا ہے۔ وہ یوں کہ سب سے پہلے اللہ کی معرفت اور اس کی حمدوثنا، پھر یوم آخرت میں جزاوسزا کا جامع تذکرہ، اس کے بعد شرک کی تمام اقسام سے مکمل طور پر بچنے کا اقرار اورصراط مستقیم پر گامزن رہنے کی التجا، نیز صراط مستقیم کی مختصر توضیح، یہی وہ مضامین ہیں جو مختلف انداز میں آگے بیان کیے گئے ہیں۔ 4۔ صحیح بخاری کی بعض روایات (حدیث: 4647) میں القرآن العظیم کا اضافہ نہیں ہے۔ جن روایات میں یہ الفاظ موجود ہیں محدثین نے اس کی توجیہ ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآنی آیت (الحجر: 87) کے نظم کی رعایت کرتے ہوئے تذکرہ فرمایا ہے کہ مجھے سورت فاتحہ کے علاوہ قرآن عظیم بھی دیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 199/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4474
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4647
4647. حضرت ابوسعید بن معلٰی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے اور آپ نے مجھے آواز دی۔ میں آپ کی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ فراغت نماز کے بعد حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے میرے پاس آنے میں کیا رکاوٹ تھی؟“ کیا اللہ تعالٰی نے نہیں فرمایا: "ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں بلائیں۔" پھر آپ نے فرمایا: ”مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے میں تمہیں قرآن کی ایک عظیم ترین سورت کی تعلیم دوں گا۔“ تھوڑی دیر بعد جب رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔ معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبیب بن عبدالرحمٰن سے بیان کیا، انہوں نے حفص سے سنا، انہوں نے ابو سعید بن معلٰی ؓ سے سنا جو نبی ﷺ کے صحابی تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ”وہ سورت ﴿ٱلْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿٢﴾ ہے جس میں سات آیات ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4647]
حدیث حاشیہ: 1۔ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ "السبع المثاني" سے مراد سورۃ الفاتحہ ہے جسے دوسری حدیث میں ام الکتاب کہا گیا ہے۔ یہی وہ سورت ہے جسے ہر نمازی اپنی نماز میں پڑھتا ہے۔ تمام قرآنی میں کوئی دوسری سورت اس کا بدل نہیں۔ اس کے بہت سے نام ہیں اور اسے صلاۃ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ اس سورت کا ہر نماز، خواہ نفل ہو یا سنت یا فرض، اکیلاہو یا مقتدی ہو یا امام، اس کا پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ 2۔ بہرحال سورۃ الفاتحہ بڑی شان وعظمت والی ہے اس کی ہرہر آیت معرفت اور توحید اور الٰہی کا عظیم دفتر اورعقائد و اعمال کا خزینہ ہے۔ واضح رہے کہ دوران نماز میں مطلق طور پر کلام حرام ہے لیکن رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں اگرآپ بلاتے تو جواب دینا لازمی تھا۔ علمائے حدیث نے حدیث جریج سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کے بلانے پر نفلی نماز کو توڑ کر فوراً حاضر خدمت ہوجانا چاہیے۔ (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب: 7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4647