عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ جس شخص کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ کل قیامت کے دن اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے کہ وہ مسلمان ہو، تو وہ ان پانچوں نمازوں کی محافظت کرے ۱؎، جب ان کی اذان دی جائے، کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے راستے مقرر کر دئیے ہیں، اور یہ نمازیں ہدایت کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ تم میں کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جس کی ایک مسجد اس کے گھر میں نہ ہو جس میں وہ نماز پڑھتا ہو، اگر تم اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھو گے اور اپنی مسجدوں کو چھوڑ دو گے تو تم اپنے نبی کا طریقہ چھوڑ دو گے، اور اگر تم اپنے نبی کا طریقہ چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے، اور جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر نماز کے لیے (اپنے گھر سے) چلتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہر قدم کے عوض جسے وہ اٹھاتا ہے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، یا اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے، یا اس کے عوض اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے، میں نے اپنے لوگوں (صحابہ کرام) کو دیکھا ہے جب ہم نماز کو جاتے تو قریب قریب قدم رکھتے، (تاکہ نیکیاں زیادہ ملیں) اور میں نے دیکھا کہ نماز سے وہی پیچھے رہتا جو منافق ہوتا، اور جس کا منافق ہونا لوگوں کو معلوم ہوتا، اور میں نے (عہدرسالت میں) دیکھا کہ آدمی کو دو آدمیوں کے درمیان سہارا دے کر (مسجد) لایا جاتا یہاں تک کہ لا کر صف میں کھڑا کر دیا جاتا۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 850]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 850
850 ۔ اردو حاشیہ: ➊ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ معنیٰ مراد نہیں جو بعد میں فقہاء کی اصطلاح بنا، یعنی جس کا کرنا ضروری نہیں، بلکہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے جسے چھوڑنا گمراہی کا موجب ہے اور وہ فرض و واجب کے معنیٰ میں ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تقریر کے دیگر الفاظ اسی معنیٰ کی تائید کرتے ہیں۔ ➋ ”تم گمراہ ہو جاؤگے۔“ ابوداود کی روایت میں ہے اور تم کافر بن جاؤگے۔ دیکھیے: [سنن ابي داود، الصلاة، حدیث: 550] ➌ ”ہم قریب قریب قدم رکھتے تھے۔“ اس سے مقصود زیادہ ثواب حاصل کرنا تھا، گویا اس طرح کرنا جائز ہے، البتہ گھوم کر مسجد میں آنا درست نہیں کیونکہ اصل مقصد تو مسجد کی حاضر ہے۔ مسجد کی حاضری اور نفل نماز کی ادائیگی زیادہ ثواب والی چیز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 850