الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
10. بَابُ : إِمَامَةِ الأَعْمَى
10. باب: نابینا (اندھے) کی امامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 789
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قال: حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح، قال: وَحَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ يَؤُمُّ قَوْمَهُ وَهُوَ أَعْمَى وَأَنَّهُ قال لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهَا تَكُونُ الظُّلْمَةُ وَالْمَطَرُ وَالسَّيْلُ وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَصَلِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ لَكَ" فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ مِنَ الْبَيْتِ فَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
محمود بن ربیع سے روایت ہے کہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اور وہ نابینا تھے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: رات میں تاریکی ہوتی ہے اور کبھی بارش ہوتی ہے اور راستے پانی میں بھر جاتا ہے، اور میں آنکھوں کا اندھا آدمی ہوں، تو اللہ کے رسول! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں اسے مصلیٰ بنا لوں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اور آپ نے پوچھا: تم کہاں نماز پڑھوانی چاہتے ہو؟ انہوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ میں نماز پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 789]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة 45 (424)، 46 (425) مطولاً، الأذان 40 (667)، 50 (686)، 154 (840)، التھجد 36 (1186) مطولاً، الأطعمة 15 (5401) مطولاً، صحیح مسلم/الإیمان 10 (33)، المساجد 47 (33)، سنن ابن ماجہ/المساجد 8 (754)، (تحفة الأشراف: 9750)، موطا امام مالک/السفر 24 (86)، مسند احمد 4/43، 44، 5/449، 450، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 845، 1328 مطولاً (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نابینا کی امامت بغیر کراہت جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريأين تحب أن أصلي فأشار إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله
   صحيح البخاريأين تحب أن أصلي من بيتك فأشرت له إلى المكان الذي أحب فقام وصففنا خلفه ثم سلم وسلمنا
   صحيح البخاريأين تحب أن أصلي من بيتك فأشار إليه من المكان الذي أحب أن يصلي فيه فقام فصففنا خلفه ثم سلم وسلمنا حين سلم
   صحيح البخاريأين تحب أن أصلي لك من بيتك فأشرت له إلى مكان فكبر النبي وصففنا خلفه فصلى ركعتين
   سنن النسائى الصغرىأين تريد فأشرت إلى ناحية من البيت فقام رسول الله فصففنا خلفه فصلى بنا ركعتين
   سنن النسائى الصغرىأين تحب أن أصلي لك فأشار إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله
   سنن النسائى الصغرىأين تحب أن أصلي من بيتك فأشرت له إلى المكان الذي أحب أن يصلي فيه فقام رسول الله وصففنا خلفه ثم سلم وسلمنا حين سلم
   سنن ابن ماجهأين تحب أن أصلي لك من بيتك فأشرت له إلى المكان الذي أحب أن أصلي فيه فقام رسول الله وصففنا خلفه فصلى بنا ركعتين
   موطا امام مالك رواية ابن القاسماين تحب ان اصلي؟ فاشار إليه إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 789 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 789  
789 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نابینے کی امامت میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکروہ ہے کیونکہ وہ نجاست سے بچ نہیں سکتا۔ بعض نے اس کے برعکس کہا ہے کہ اس کی امامت افضل ہے کیونکہ نظر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں خشوع و خضوع زیادہ ہو گا۔ یہ دونوں قول محض رائے کی بنیاد پر ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ نابینے کی امامت صرف جائز ہے لیکن قاریٔ قرآن اور پرہیز گار صاحب علم کو مقدم کرنا افضل ہے۔ نجاست تو آنکھوں والے کو بھی لگ سکتی ہے بلکہ لگ جاتی ہے اور نابینے کا والی بھی اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اسے بصیرت عطا فرماتا ہے۔ بڑے بڑے اجل صحابہ نابینا تھے تو کیا وہ پلید ہی رہتے تھے؟ نعوذ باللہ من ذالك۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں نماز کی گزارش بطور تبرک تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: حدیث نمبر: 702 کا فائدہ نمبر: 4 اور اس کتاب کا ابتدائیہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 789   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 840  
´نماز میں مقتدی کا امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں`
«. . . فَأَشَارَ إِلَيْهِ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي أَحَبَّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی پھیرا . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 840]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے باب قائم فرمایا کہ مقتدی امام کو سلام کا جواب علیحدہ نہ دے یعنی وہی سلام کا جواب کافی ہو گا جو نماز میں سلام کہا گیا اور حدیث میں بھی یہی وارد ہے کہ «ثم سلّم وسلّمنا حين سلّم» پھر آپ نے نماز سے سلام پھیری اور آپ کے سلام کے وقت ہم نے بھی سلام کہی۔
لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ الله رقمطراز ہیں:
«واعتماده فيه على قوله: ثم سلم وسلمنا حين سلّم، فان ظاهره انهم سلموا نظير سلامه، وسلامه اما واحدة وهى التى يتحلل بها من الصلاة واما هي أخري معها، فيحتاج من استحب تسليمه ثالثة على الامام بين التسليمتين، كما تقوله المالكية . إلى دليل خاص، وإلي رد ذالك اشار البخاري . . . .» [فتح الباري ج2 ص411]
یعنی ظاہر اس حدیث سے (آپ نے سے سلام پھیرا اور آپ کے سلام کے وقت ہم نے بھی سلام پھیرا) یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقتدیوں نے امام کے جواب میں علیحدہ کوئی سلام نہیں کہا اس لئے کہ سلام کا جواب اصل سلام کے بعد ہوتا ہے اور مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مقتدیوں کی سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سلام کی طرح تھی آپ کی سلام ایک بار تھی جس کے ساتھ آدمی نماز سے حلال ہو جاتا ہے یا وہ دو بار تھیں جس مقتدیوں کی سلام بھی دوبارہ ہو گی نہ کہ تین مرتبہ جیسا کہ مالکیہ کہتے ہیں۔ پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ مالکیہ کا مسلک صحیح معلوم نہیں ہوتا جو تین بار سلام کے قائل ہیں۔
◈ صاحب توفیق الباری ڈاکٹر عبدالکبیر رقمطراز ہیں:
اس کے الفاظ «وسلمنا حين سلّم» سے یہ استدلال مقصود ہے کہ مقتدی امام کے سلام کے الفاظ «السلام عليكم ورحمة الله» ہی استعمال کریں گے۔ یہ نہیں کہ امام کے سلام کے جواب میں «و عليكم السلام» کہہ دیں۔ مالکیہ کا مسلک ہے کہ ان دونوں سلام کے درمیان مقتدی امام کے سلام کا جواب دیں مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ [توفيق الباري شرح صحيح البخاري ج1 ص746]
◈ صدیق حسن خان القنوجی فرماتے ہیں:
«. . . . . . فيحتاج من استحب تسليمة ثالثة على الامام بين التسليمتين كما يقوله المالكية الي دليل خاص وإلي رد ذالك أشار البخاري فى الترجمة بقوله بابب من لم يرد السلام على الامام . .» [عون الباري ج 2 ص 59]
یعنی مالکیہ دو سلام کے درمیان تیسرے سلام کے قائل ہیں۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعہ ان کے اس تیسرے سلام کا رد فرمایا ہے کہ امام کو (تیسرا) سلام کرنے کی ضرورت نہیں، صرف نماز کے دو سلام ہی کافی ہوں گے۔‏‏‏‏
◈ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أظنه كان قصد الرد على من يوجب التسليمة الثانية»
یعنی میرے خیال سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے رد کا قصد کیا جو دوسرے سلام کے بھی قائل ہیں (یعنی سلام کے جواب دینے کے)۔‏‏‏‏ [شرح ابن بطال: 2؍456]

فائدہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث کو کم و بیش بیس جگہ سے زیادہ مقامات پر روایت کیا ہے اور اس حدیث سے کئی اہم ترین مسائل کی تخریج فرمائی ہے۔ اسی حدیث کو ایک اور مقام پر بیان فرمایا جس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے کہ۔ «باب المساجد فى البيوت» یعنی اس بیان میں (کہ بوقت ضرورت) گھروں میں جائے نماز مقرر کرنا۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے کئی اہم مسائل کی نشاندہی فرمائی ہے۔ مثلاً:
① اندھے کی امامت کا جائز ہونا۔
② اپنی بیماری کا بیان کرنا شکایت میں داخل نہیں۔
③ مذکورہ حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجدوں میں نماز کا اہتمام تھا۔
④ عتبان رضی اللہ عنہ جیسے معذوروں کے لیے اندھیرے اور بارشوں میں جماعت کا معاف ہونا۔
⑤ بوقت ضرورت (شرعی عذر کے) نماز گھر میں پڑھنے کے لئے ایک جگہ کا مقرر کرنا۔
⑥ صفوں کا برابر کرنا۔
⑦ ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرط یہ کہ صاحب خانہ اجازت دیں۔
⑧ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نماز ادا فرمائی وہاں کا متبرک ہونا۔
⑨ اگر کسی صالح نیک انسان کو گھر میں برکت کے لئے بلایا جائے تو اس کا جائز ہونا۔
⑩ بڑے لوگوں کا چھوٹے بھائیوں کی دعوت کو قبول کرنا۔
⑪ وعدہ پورا کرنا اور اس کے لئے ان شاء اللہ کہنا۔
⑫ اگر میزبان پر بھروسہ ہے تو بغیر بلائے ہوئے اپنے ساتھ دوسرے احباب کو لے جانا۔
⑬ گھر میں داخل ہونے سے قبل صاحب خانہ سے اجازت طلب کرنا۔
⑭ اہل محلہ کا عالم یا امام کے پاس جمع ہونا برکت حاصل کرنے کے لئے۔
⑮ جس سے دین میں نقصان کا ڈر ہو اس کا حال امام کے سامنے بیان کر دینا۔
⑯ ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہ ہو گا جب تک دل میں یقین اور ظاہر میں عمل نہ ہو۔
⑰ توحید پر مرنے والے کا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہنا۔
⑱ برسات میں گھر میں نماز پڑھ لینا۔
⑲ نوافل جماعت سے ادا کرلینا۔
نوٹ: محترم قاری نکتہ 15، 16، 17 یہ تینوں نکا ت کے لئے اسی حدیث کا وہ طرق جہاں اس حدیث کو مزید تفصیل سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اسکی طرف مراجعت فرمائیں۔ «باب المساجد فى البيوت»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 200   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 90  
´مسجد، مدرسے، مکان وغیرہ کا کسی نیک شخصیت سے افتتاح کرانا`
«. . . ان عتبان بن مالك كان يؤم قومه وهو اعمى، وانه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنها تكون الظلمة والمطر والسيل وانا رجل ضرير البصر، فصل يا رسول الله فى بيتي مكانا اتخذه مصلى. قال: فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: اين تحب ان اصلي؟ فاشار إليه إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم»
بےشک سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے اور وہ نابینا تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں نابینا ہوں اور (بعض اوقات) اندھیرا، بارش اور سیلاب ہوتا ہے۔ یا رسول اللہ! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں، میں اسے جائے نماز بنا لوں گا۔ انہوں نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ انہوں (عتبان رضی اللہ عنہ) نے گھر کی ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھائی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 90]
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 172/1 ح 416، ك 9، ب 24، ح 82، التمهيد 226،227/6، الاستذكار: 382 ● أخرجه البخاري 667، عن مالك به ورواه مسلم 33 بعد ح 657، من حديث ابن شهاب الزهري به نحو المعني]
تفقه:
➊ شرعی عذر کے بناء پر گھر میں نماز پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے۔
➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا صحیح ہے۔
➌ ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان رضی اللہ عنہ کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ دیکھئے: [مسند الامام أحمد 43/4 وطبقات ابن سعد 550/3 التمهيد 229/6] لیکن یہ روایت سفان بن عینیہ و زہری کی تدلیس اور سند میں شک کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
➍ نماز باجماعت ضروری ہے إلا یہ کہ شرعی عذر ہو۔
➎ کسی مسجد، مدرسے اور مکان وغیرہ کا کسی نیک شخصیت کے ذریعے سے افتتاح کرانا جائز ہے۔
گھر میں نماز کے لئے کسی حصے کو مختص کرنا جائز ہے۔
➐ نماز باجماعت کے لئے جگہ کا مسجد کے لئے وقف ہونا ضروری نہیں ہے۔
➑ نابینا امام کی امامت بالکل صحیح اور شرعاً جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 8   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 845  
´نفل نماز کی جماعت کا بیان۔`
عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے اور میرے قبیلہ کی مسجد کے درمیان (برسات میں) سیلاب حائل ہو جاتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لاتے، اور میرے گھر میں ایک جگہ نماز پڑھ دیتے جسے میں مصلیٰ بنا لیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہم آئیں گے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے پوچھا: تم کہاں چاہتے ہو؟ تو میں نے گھر کے ایک گوشہ کی جانب اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 845]
845 ۔ اردو حاشیہ: نفل نماز کی جماعت اتفاقاً ہو جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن لوگوں کو دعوت دے کر نہ بلایا جائے، البتہ مخصوص نمازیں اس سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً: نماز کسوف، نماز استسقاء، نماز عیدین اور نماز تراویح وغیرہ۔ ان کے لیے لوگوں کو بلانا جائز ہے کیونکہ ان کا سنت سے ثبوت ملتا ہے مگر ان کے لیے اذان و اقامت درست نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 845   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1328  
´امام کے سلام پھیرنے کے وقت مقتدی کے سلام پھیرنے کا بیان۔`
محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے عرض کیا کہ میری آنکھیں کمزور ہو گئی ہیں، اور برسات میں میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان سیلاب حائل ہو جاتا ہے، لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لاتے، اور کسی جگہ میں نماز پڑھ دیتے تو میں اس جگہ کو اپنے لیے مسجد بنا لیتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ان شاءاللہ عنقریب آؤں گا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوب دن چڑھ آنے کے بعد میرے پاس تشریف لائے، آپ کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے آپ کو اندر تشریف لانے کے لیے کہا، آپ بیٹھے بھی نہیں کہ آپ نے پوچھا: تم اپنے گھر کے کس حصہ میں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ تو میں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں میں چاہتا تھا کہ آپ اس میں نماز پڑھیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی، پھر آپ نے سلام پھیرا، اور ہم نے بھی سلام پھیرا جس وقت آپ نے سلام پھیرا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1328]
1328۔ اردو حاشیہ:
➊ جب امام سلام کہے تو اگر مقتدی کی نماز مکمل ہو گئی ہے تو وہ بھی سلام کہہ دے۔ اگر اس کی نماز مکمل نہیں ہوئی تو وہ نماز مکمل کرنے کے بعد سلام پھیرے۔
➋ آدمی کو اگر کوئی تکلیف ہو تو وہ اس کے متعلق بتلا سکتا ہے، یہ شکوہ نہیں سمجھا جائے گا۔
➌ مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے علاوہ بھی مسجدیں تھیں۔
➍ اگر بارش وغیرہ جیسے شرعی عذر کی بنا پر جماعت رہ جائے تو گناہ نہیں۔
➎ شرعی عذر کی وجہ سے گھر میں نماز کے لیے جگہ متعین کر لینا جائز ہے۔
➏ نماز کے لیے صف درست کرنا لازم ہے۔
➐ اس حدیث مبارکہ سے وعدہ وفا کرنے کی حیثیت نمایاں ہوتی ہے۔
➑ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا ضروری ہے، بغیر اجازت کوئی بھی کسی کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا جیسا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے گھر میں بھی بغیر اجازت داخل نہیں ہوئے تھے۔ اگر صاحب خانہ اندر داخل ہونے کی اجازت نہ دیں تو برا محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
➒ نفل نماز میں جماعت کرانا مشروع ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1328   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث754  
´گھروں میں مساجد بنانے کا بیان۔`
محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور ان کو وہ کلی یاد تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈول سے لے کر ان کے کنویں میں کر دی تھی، انہوں نے عتبان بن مالک سالمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی (جو اپنی قوم بنی سالم کے امام تھے اور غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے) وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو گئی ہے، جب سیلاب آتا ہے تو وہ میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، اسے پار کرنا میرے لیے دشوار ہوتا ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 754]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ صغار صحابہ میں سے ہیں، یعنی جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی تھی تو ان کا بچپن کا دور تھا۔
جب کلی کرنے کا یہ واقعہ پیش آیا اس وقت حضرت محمود کی عمر پانچ سال تھی۔
اس سے محدثین نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ جو بچہ پانچ سال کی عمرمیں کسی محدث سے حدیث سنے اس کا سماع معتبر ہے۔
یہ بچہ بڑا ہو کر یہ حدیث روایت کرسکتا ہے اور وہ روایت قبول کی جائے گی۔
بشرطیکہ کوئی اور ایسا سبب نہ پایا جائے جس سے حدیث ضعیف ہوجائے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا کنوئیں میں کلی فرمانا برکت کے لیے تھا۔
آپ کے لعاب دہن سے متعدد مواقع پر برکت کا ظہور ہوا ہے جو حدیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔
دیکھے:
(صحیح البخاری، العلم، باب متی یصح سماع الصغیر، حدیث: 77)
اس سے مقصد محض دل لگی اور بچے کو خوش کرنا تھا لہٰذا بچوں سے ایسی دل لگی جس سے انھیں پریشانی نہ ہو جائز ہےاور یہ بزرگانہ شفقت کا ایک لطیف انداز ہے۔

(4)
حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے گھر ایک نشیبی جگہ تھی۔
بارش کے موقع پر وہاں سے پانی گزرتا تھا جس سے راستہ بند ہوجاتا تھا اور پانی میں سے گزر کر مسجد میں پہنچنا دشوار ہوجاتا تھا۔
اس قسم کے عذر کے موقع پر گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
مسجد میں حاضری واجب نہیں۔
لیکن معمولی بارش کونماز باجماعت سے پیچھے رہ جانے کا بہانہ بنا لینا درست نہیں۔

(5)
جس کو دعوت دی جائے وہ اپنے ساتھ کسی اور کو بھی لاسکتا ہے۔
بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ میزبان کو اس سے زحمت نہیں ہوگی بلکہ خوشی ہوگی۔
ورنہ بلائے ہوئے مہمان کے ساتھ بن بلائے چلے جانا درست نہیں میزبان کو حق ہے کہ اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، الاطعمة، باب الرجل يدعي الي طعام فيقول:
وهذا معي، حديث: 5461)


(6)
جس کو بلایا گیا ہو اسے بھی گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لیکر داخل ہونا چاہیے۔

(7)
گھر میں نماز کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا جائز ہے۔

(8)
کسی اچھے کام کی ابتداء کے موقع پر کسی نیک اور بزرگ شخصیت سے ابتدا کروانا درست ہے۔

(9)
نفل نماز باجماعت ادا کرنا جائز ہے نماز تہجد باجماعت کے متعدد واقعات کتب احادیث میں مروی ہیں۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، التهجد، باب تحريض النبي ﷺ علي قيام اليل۔
۔
۔
۔
، حدیث: 1129)

اور زيرمطالعہ حدیث کے مطابق چاشت کی نماز جماعت سے ادا کی گئی۔

(10)
قرآن مجید میں حکم ہے کہ کھانے کے لیے جس وقت بلایا گیا ہو اسی وقت جانا چاہیے بہت پہلے جا کر کھانا تیار ہونے کا انتطار کرنا اچھا نہیں۔ (سورہ احزاب آیت: 53)
زیر مطالعہ حدیث میں جو واقعہ مذکور ہے اس میں پہلے سے کھانے کا پروگرام نہیں تھا۔
جب نبی ﷺ تشریف لے آئے تو کھانا تیار کیا جانے لگا اور نبی ﷺ سے گزارش کی گئی کہ تھوڑا انتظار فرمالیں۔
یہ صورت قرآن مجید میں مذکورہ صورت سے مختلف ہے۔
حدیث میں جس کھانے کے لیے (خزيرة)
کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ ایک خاص قسم کا کھانا ہے جو اس دور میں عرب میں رائج تھا۔
گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے کرکے بہت سے پانی میں پکاتے تھے جب خوب گل جاتا تو اس میں آٹا ڈال دیتے تھے اور تیار ہونے پر پیش کرتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 754   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 667  
667. حضرت محمود بن ربیع انصاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نابینا تھے اور اپنی قوم کے امام تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اندھیری اور سیاہ راتیں ہوتی ہیں اور میں نابینا شخص ہوں (مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتا)، لہذا آپ میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ اپنا "مصلیٰ" بنا لوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: "تم میری نماز کے لیے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہو؟" انہوں نے اپنے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:667]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ جہاں نماز باجماعت کی شدید تاکید ہے وہاں شریعت نے معقول عذروں کی بنا پر ترک جماعت کی اجازت بھی دی ہے۔
جیسا کہ احادیث بالا سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 667   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 686  
686. حضرت عتبان بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے میرے گھر آنے کی اجازت طلب فرمائی۔ میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ نے دریافت فرمایا: تم اپنے گھر کے کون سے حصے میں میرا نماز پڑھانا پسند کرتے ہو؟ میں نے مکان کے اس کونے کی طرف اشارہ کر دیا جسے میں پسند کرتا تھا، چنانچہ آپ کھڑے ہو گئے۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے صف باندھی۔ آخر میں آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:686]
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیث میں مروی ہے کہ کسی شخص کو اجاز ت نہیں کہ دوسری جگہ جاکر ان کے امام کی جگہ خود امام بن جائے۔
مگر وہ لوگ خود چاہیں اور ان کے امام بھی اجازت دیں تو پھر مہمان بھی امامت کرا سکتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ بڑا امام جسے خلیفہ وقت یا سلطان کہہ جائے چونکہ وہ خود آمر ہے، اس لیے وہاں امامت کراسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 686   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 840  
840. حضرت محمود بن ربیع ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے حضرت عتبان بن مالک ؓ سے سنا جو بنو سالم قبیلے کے ایک فرد تھے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم بنو سالم کو نماز پڑھاتا تھا، ایک دفعہ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں اپنی بینائی میں کمزوری محسوس کرتا ہوں اور یہ سیلابوں کا پانی میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر میں کسی جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اسے مسجد بناؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: میں إن شاءاللہ ایسا کروں گا۔ چنانچہ ایک دن دھوپ چڑھے رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی معیت میں تشریف لائے، آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ نے بیٹھنے سے پہلے ہی فرمایا: تم گھر کے کس حصے میں میرا نماز پڑھنا پسند کرتے ہو؟ انہوں نے ایک مقام کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ اپنے لیے نماز پڑھنا پسند کرتے تھے۔ اس کے بعد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:840]
حدیث حاشیہ:
جمہور فقہاءکے نزدیک نماز میں دو سلام ہیں۔
لیکن امام مالک ؒ کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے صرف ایک سلام کافی ہے اورنماز با جماعت ہو رہی ہو تو دو سلام ہونے چاہئیں۔
امام کے لیے بھی اور مقتدی کے لیے بھی۔
لیکن اگر مقتدی امام کے بالکل پیچھے ہے یعنی نہ دائیں جانب نہ بائیں جانب تو اسے تین سلام پھیرنے پڑیںگے۔
ایک دائیں طرف کے مصلیوں کے لیے دوسرا بائیں طرف والوں کے لیے اور تیسرا امام کے لیے۔
گویااس سلام میں بھی انہوں نے ملاقات کے سلام کے آداب کا لحاظ رکھا ہے امام بخاری ؒ جمہور کے مسلک کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
(تفہیم البخاری)
حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
یہاں اس حدیث سے باب کا مطلب یوںنکلا کہ ظاہر یہ ہے کہ مقتدیوں کا سلام بھی انحضرت ﷺ کے سلام کی طرح تھا اور اگر مقتدیوں نے کوئی تیسرا سلام کہا ہوتا تو اس کا ضرور بیان کرتے یہ بھی حدیث سے نکلا کہ معذورین کے لیے اور نوافل کے لیے گھر کے کسی حصہ میں نماز کی جگہ متعین کر دیجائے تو اس کی اجازت ہے۔
یہ بھی ثابت ہے کہ کسی واقعی اہل اللہ بزرگ سے اس قسم کی درخواست جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 840   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:424  
424. حضرت عتبان بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا:تم کس جگہ کا انتخاب کرتے ہو کہ وہاں میں تمہارے گھر میں تمہارے لیے نماز پڑھوں؟ کہتے ہیں کہ میں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا، پھر نبی ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کر دی اور ہم آپ ﷺ کے پیچھے صف میں کھڑےہو گئے اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:424]
حدیث حاشیہ:

اس عنوان کے دو جز ہیں۔
مہمان اپنے اختیار سے جہاں چاہے نماز پڑھ لے۔
جس جگہ اہل خانہ کہیں وہیں نماز ادا کرے۔
ان دونوں اجزاء کے درمیان کلمہ (اَؤ)
ہےجو دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
تخبیر مہمان کو ان دونوں میں سے کسی بھی ایک صورت کا اختیار ہے، چاہے تو گھر میں داخل ہونے کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاں چاہے نماز پڑھ لے اور چاہے تو اہل خانہ کی نشان دہی کے مطابق عمل کرے۔
یعنی اسے ان دونوں باتوں میں سے کسی بھی صورت پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔
تعیین احد الامرین کلمہ اَو دونوں صورتوں میں سے ایک کی تعیین کے لیے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مہمان کو ان دونوں صورتوں میں سے کس صورت کو اختیار کرنا ہے۔
یہ معنی لینے میں اس پہلے (هَل)
مقدور ہوگا۔

اس مختصر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ میزبان کی خواہش کا احترام کیا جائے، خود اپنی مرضی سے کوئی اقدام نہ کیا جائے، کیونکہ اس روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہو تاکہ میں وہاں نماز پڑھوں، لیکن تفصیلی روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ میزبان کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کا حق ہے، کیونکہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ آپ میرے گھر تشریف لا کر کسی بھی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اس متبرک مقام کو خانگی مسجد بنا لوں۔
لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں جو:
(لَايَتَجَسَّسُ)
کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ وہ تجسس نہ کرے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل خانہ کی مرضی کا پابند ہے، کیونکہ جہاں چاہے نماز پڑھنے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی جگہ پڑھنا چاہے جہاں گھر والوں کو پسند نہ ہو یا اہل خانہ کے ستر و حجاب کے منافی ہو یا ایسی جگہ پڑھنا چاہے جہاں ان کا ایسا گھریلوسامان پڑا ہو جسے وہ کسی پر ظاہر نہ کرنا چاہتے ہوں وغیرہ۔
ہاں!اگر گھر والا ہی عام اجازت دے دے کہ جہاں چاہے نماز پڑھ لے تو پھر اپنے اختیارات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
یہ تو عام بات کے متعلق تفصیل ہے، لیکن اگر کوئی کسی بزرگ کو اسی مقصد کے لیے بلاتا ہے تو بزرگ کو چاہیے کہ وہ اہل خانہ سے جگہ دریافت کرے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عتبان ؓ سے دریافت فرمایا تھا۔
الغرض امام بخاری ؒ کا مقصد ان دونوں صورتوں میں سے ایک کی تعیین معلوم ہوتا ہے۔
اگرچہ دونوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت پر عمل کرنے کی آزادی بھی ہو سکتا ہے، تاہم اس کے لیے روایت کے دیگر طرق میں ذکر کردہ تفصیلات کا سہارا لینا پڑے گا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر ؒ کے حوالے سے اس دوسری صورت کو ترجیح دی ہے۔
(فتح الباري: 671/1)
لیکن دل اس پر مطمئن نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 424   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:667  
667. حضرت محمود بن ربیع انصاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نابینا تھے اور اپنی قوم کے امام تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اندھیری اور سیاہ راتیں ہوتی ہیں اور میں نابینا شخص ہوں (مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتا)، لہذا آپ میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ اپنا "مصلیٰ" بنا لوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: "تم میری نماز کے لیے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہو؟" انہوں نے اپنے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:667]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیلاب،اندھیرا اور نابینا ہونا ہر ایک ترک جماعت کےلیے مستقل عذر ہے کیونکہ ان میں علت مشقت موجود ہے۔
عذر خواہ کوئی بھی ہو اگر اس میں مشقت موجود ہے تو وہ عذر قابل التفات ہے بصورت دیگر نہیں۔
اور اس بات کا فیصلہ خود انسان کا ضمیر کرسکتا ہے کہ موجودہ صورت حال عذر کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے یا محض ایک بہانہ سازی ہے کیونکہ انسانی ضمیر ہی اپنے حالات کا صحیح ادراک رکھنے کی وجہ سے درست فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے (بشرطیکہ وہ مردہ نہ ہوچکا ہو)
۔
(شرح الکرمانی: 2/54) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کو ترک جماعت کی اجازت دے دی لیکن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اجازت نہ دی جبکہ وہ بھی نابینا تھے،اس کی چند ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلا:
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے لیے رخصت کو پسند فرمایا اور حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے لیے عزیمت کا انتخاب فرمایا۔
٭حضرت عتبان رضی اللہ عنہ اذان نہ سنتے ہوں گے جبکہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کی آواز سنتے تھے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
٭ممکن ہے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا عذر حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کم درجے کا ہو،اس لیے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔ w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 667   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:686  
686. حضرت عتبان بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے میرے گھر آنے کی اجازت طلب فرمائی۔ میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ نے دریافت فرمایا: تم اپنے گھر کے کون سے حصے میں میرا نماز پڑھانا پسند کرتے ہو؟ میں نے مکان کے اس کونے کی طرف اشارہ کر دیا جسے میں پسند کرتا تھا، چنانچہ آپ کھڑے ہو گئے۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے صف باندھی۔ آخر میں آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:686]
حدیث حاشیہ:
اصل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کہ ہاں ملاقات کے لیے جائے تو نہ امامت کے مصلے پر کھڑا ہو اور نہ ان کی مسند عزت پر ہی فروکش ہو۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، البتہ دو صورتوں میں مہمان کو میزبان کے گھر میں امام بنایا جاسکتا ہے:
٭میزبان خود مہمان سے امامت کی درخواست کرے یاا سے اجازت دےدے٭ مہمان بڑا امام، یعنی خلیفۂ وقت ہو۔
میزبان کو چاہیے کہ اگر مہمان خلیفۂ وقت ہے تو خود ہی اسے امامت کی پیش کش کردے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ جن روایات میں دوسرے کے گھر جاکر امامت نہ کرانے کا ذکر ہے امام بخاری ؒ اس حکم امتناعی سےخلیفۂ وقت کو مستثنیٰ قراردینا چاہتے ہیں کہ اسے اجازت ہے جہاں جائے وہاں نماز پڑھائے، کیونکہ اسے ولایت عظمیٰ حاصل ہے۔
اس بنا پر عنوان میں امام کی قید احترازی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 686   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:840  
840. حضرت محمود بن ربیع ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے حضرت عتبان بن مالک ؓ سے سنا جو بنو سالم قبیلے کے ایک فرد تھے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم بنو سالم کو نماز پڑھاتا تھا، ایک دفعہ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں اپنی بینائی میں کمزوری محسوس کرتا ہوں اور یہ سیلابوں کا پانی میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر میں کسی جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اسے مسجد بناؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: میں إن شاءاللہ ایسا کروں گا۔ چنانچہ ایک دن دھوپ چڑھے رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی معیت میں تشریف لائے، آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ نے بیٹھنے سے پہلے ہی فرمایا: تم گھر کے کس حصے میں میرا نماز پڑھنا پسند کرتے ہو؟ انہوں نے ایک مقام کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ اپنے لیے نماز پڑھنا پسند کرتے تھے۔ اس کے بعد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:840]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض فقہاء کا موقف ہے کہ نماز کے آخر میں صرف ایک مرتبہ سلام کہا جائے جیسا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے آخر میں صرف ایک مرتبہ السلام علیکم کہتے تھے۔
(شرح معاني الآثار: 266/1، والاستذکار: 291/4)
لیکن اکثر فقہاء و محدثین نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ نماز کے آخر میں دو دفعہ سلام کہا جائے ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب، اسے سلام نماز بھی کہتے ہیں۔
تقریبا بیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دو دفعہ سلام کہنا مروی ہے اور ایک دفعہ سلام کہنے کی روایت وہم پر مبنی ہے کیونکہ حضرت ابن مبارک نے اس روایت کو دو سلام سے بیان کیا ہے۔
(عمدة القاري: 601/4)
ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ایک سلام پر اکتفا بھی جائز ہے، اگرچہ اکثر و بیشتر آپ کی عادت مبارکہ دو سلام کی تھی، اس لیے اسے وہم قرار دینا محل نظر ہے، نیز یہ سلام سامنے منہ کر کے ہی پھیرنا ہے۔
دیکھیے:
(أصل صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم: 1030/3)
بعض روایات میں ہے کہ امام کو بھی سلام کہنا چاہیے جیسا کہ حضرت سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں امام کو سلام کہنے کا حکم دیا تھا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1001)
اس کی توجیہ بعض شارحین نے بایں طور فرمائی ہے کہ ایک سلام دائیں جانب، دوسرا بائیں جانب والوں کو، اور تیرے سامنے امام کو کیا جائے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے کیونکہ امام کو سلام کہنے کا مطلب ہے کہ جو شخص دائیں جانب ہے وہ بائیں سلام میں اور جو بائیں جانب ہے وہ دائیں سلام میں امام کے لیے سلام کی نیت کرے اور جو امام کے پیچھے ہے وہ پہلے سلام میں امام کی نیت کرے۔
(2)
حدیث کی عنوان سے مطابقت اسی طرح ہے کہ روایت کے مطابق پہلے رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا، پھر قوم نے بھی سلام پھیر دیا۔
اس میں تیسرے سلام کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
(عمدة القاري: 602/4)
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی لکھا ہے کہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی متابعت میں آپ کے سلام جیسا سلام کیا اور آپ کا سلام ایک تھا جس سے نماز ختم کی گئی یا اس کے ساتھ دوسرا سلام بھی تھا، تیسرے سلام کے لیے دلیل درکار ہے جیسا کہ بعض مالکی حضرات کا موقف ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مؤخر الذکر موقف کی تردید کے لیے عنوان بندی کی ہے اور حدیث پیش کی ہے۔
(فتح الباري: 418/2)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 840