انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ سوار ہو کر خیبر کی طرف جا رہے تھے، اور قبلہ آپ کے پیچھے تھا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے کہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن یحییٰ کی ان کے قول «يصلي على حمار» میں متابعت کی ہو ۱؎ اور یحییٰ بن سعید کی حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ موقوف ہے ۲؎ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 742]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1665)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیرالصلاة 10 (1100)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 7 (26) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مؤلف کا یہ قول ابن عمر رضی اللہ عنہم کی پچھلی حدیث سے متعلق ہے، اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عمرو بن یحییٰ کے سوا دیگر رواۃ نے «حمار» کی جگہ مطلق سواری ( «راحلتہ») کا ذکر کیا ہے، اور بعض روایات میں ”اونٹ“ کی صراحت ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اونٹ پر سوار تھے نہ کہ گدھے پر، لیکن نووی نے دونوں روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے کہ کبھی آپ اونٹ پر سوار ہوئے اور کبھی گدھے پر، اور اس سے اصل مسئلے میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سواری کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر یا نفل پڑھی ہے۔ ۲؎: صحیح مسلم میں تو اس کی صراحت موجود ہے کہ لوگوں نے انس رضی اللہ عنہ کو گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھتے دیکھا تو سوال کیا، اس پر انہوں نے صراحتاً کہا: ”اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا تو ایسا نہیں کرتا“ اس لیے ان کی روایت کو محض ان کا فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 742
742 ۔ اردو حاشیہ: ➊ بات یہ ہے کہ دوسرے راوی گدھے کی بجائے اونٹ کا ذکر کرتے ہیں، صرف عمرو بن یحیی گدھے کا ذکر کرتے ہیں۔ (یہ بحث حدیث: 741 سے متعلق ہے) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عمرو ثقہ راوی ہے۔ ہو سکتا ہے کبھی آپ گدھے پر سوار ہوں، کبھی اونٹ پر، جب کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ عمرو کی روایت شاذ ہے، گدھے کا ذکر صحیح نہیں۔ حدیث: 742 میں بھی اگرچہ گدھے کا ذکر ہے مگر اس کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دراصل حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اپنا فعل ہے، یعنی وہ خود گدھے پر سوار نفل نماز پڑھ رہے تھے۔ راوی نے غلطی سے اسے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو «يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ» کے اضافے کے ساتھ ناقابل حجت سمجھنا یقیناًً محل نظر ہے کیونکہ اس میں دیگر ثقات راویوں کی کون سی مخالفت ہے بلکہ اس میں تو ایک زائد امر ہے۔ پھر عمرو نامی راوی بھی ثقہ ہے۔ اور ثقہ کی زیادتی، جبکہ دیگر روایات کے منافی نہ ہو، قابل قبول ہوتی ہے، نیز یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک بھی صحیح ہے۔ [صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الصلاۃ في الرحال في المطر، حدیث: (35) 770] مزید برآں یہ کہ اس حدیث کی تائید حضرت انس بن مالک کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، جسے اصطلاح میں شاہد کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں تعارض اس لیے بھی نہیں رہتاکہ ممکن ہے کبھی گدھے پر سوار ہوں اور کبھی اونٹ پر، گویا یہ دو مختلف اوقات کی بات ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، اس لیے روایت کو ناقابل حجت قرار دینے کی بجائے، جبکہ راوی بھی ثقہ ہو، تطبیق دینا ہی بہتر ہے۔ پھر یہ اعتراض کہ حدیث انس کا مرفوع ہونا درست نہیں اور وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید کے سوا دیگر رواۃ اسے حضرت انس سے موقوفاً ذکر کرتے ہیں جیسا کہ انس بن سیرین کی روایت میں ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 702] یہ بھی محل نظر ہے کیونکہ اگر ایک نے موقوفاً بیان کیا ہو اور دوسرے نے مرفوعاً اور بیان کرنے والا ثقہ ہو تو یہ کوئی قابل جرح بات نہیں بلکہ ایک مزید فائدہ ہے۔ گویا یہ روایت موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح ثابت ہے اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ یوں سمجھئے، اگر ایک روایت مرسلا منقول ہو اور دوسری موصولاً، یا ایک منقطع ہو دوسری متصل، کیا آپس میں ان کا کوئی تضاد ہے؟ قطعاً نہیں بلکہ متصل اور موصول ہی کو قبول کیا جائے گا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے بلکہ اس موقوف روایت کا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع شاہد بھی ملتا ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ بہرحال حق یہی ہے کہ دونوں احادیث صحیح ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی دونوں کو صحیح قرار دیا ہے بلکہ انہوں نے ان روایات کو ایک دوسری کا شاہد بنایا ہے۔ دیکھیے: [فتح الباري: 576/2، حدیث: 1100] شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ان دونوں روایات کو صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: [صحیح سنن النسائي] ➋ یہ نفل نماز کی بات ہے۔ چونکہ نفل ہر وقت پڑھے جا سکتے ہیں، لہٰذا نفل کے لیے سہولتیں رکھی گئی ہیں کہ کھڑا ہو کر نہ پڑھنا چاہے تو بیٹھ کر پڑھ لے، اتر کر نہیں پڑھ سکتا تو سواری ہی پر پڑھ لے اور رکوع اور سجدہ کی بجائے اشارہ ہی کر لے۔ ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خیبر کی طرف تشریف لے جا رہے تھے اور خیبر شمال کی جانب ہے جب کہ مدینہ منورہ سے قبلہ جنوب کی جانب ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 742
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 166
´سفر کی حالت میں نفل نماز سواری پر ادا کرنا` «. . . وعن عامر بن ربيعة رضي الله عنه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي على راحلته حيث توجهت به . . .» ”. . . سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اونٹنی جس طرف بھی رخ کرتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 166]
� لغوی تشریح: «يُومِئُ بِرَأْسِهِ» اپنے سر سے رکوع و سجود کے لیے اشارہ کرتے اور سجدے کے لیے رکوع کی بہ نسبت ذرا زیادہ جھکتے۔ «الْمَكْتُوبَة» لکھی ہوئی، یعنی فرض نماز۔ «اَلرِّكَابِ»”را“ کے کسرہ اور ”کاف“ مخففہ کے ساتھ ہے۔ سواری کو کہتے ہیں، یعنی اونٹنی یا ہر وہ چیز جس سے سواری کا کام لیا جائے۔ یہاں اونٹنی مراد ہے۔
فائدہ: حدیث ہذا سے معلوم ہوا کہ سفر کی حالت میں نفل نماز سواری پر ادا کی جا سکتی ہے، فرض نہیں، نیز ایک دفعہ سواری کا رخ یا اپنا رخ قبلہ کی طرف کر کے شروع کر لے، پھر اگر سواری کا رخ کسی دوسری جانب ہو جائے تب بھی نماز درست ہے۔ مگر یہ اس وقت ہے جب سواری مسافر کے اپنے تصرف میں ہو۔ ہمارے دور کی سواریاں، مثلاً: ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ چونکہ مسافروں کے اپنے تصرف میں نہیں ہوتے، اس لیے ایسے سفروں میں جمع تقدیم (ظہر اور عصر کو اکٹھا ظہر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو اکٹھا مغرب کے وقت میں پڑھنا) یا جمع تاخیر (ظہر اور عصر کو اکٹھا عصر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو اکٹھا عشاء کے وقت میں پڑھنا) کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اگر سفر اتنا لمبا ہو کہ دو نمازوں (ظہر و عصر یا مغرب و عشاء) کا وقت دوران سفر ہی میں گزر جائے گا تو پھر سواری پر فرض بھی ادا کر سکتے ہیں، جیسے کشتی یا بحری جہاز میں اگر ساحل قریب نہ ہو تو بالاتفاق ان میں فرض نماز جائز ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 166
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1225
´سواری پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے اور نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی قبلہ رخ کر لیتے اور تکبیر کہتے پھر نماز پڑھتے رہتے خواہ آپ کی سواری کا رخ کسی بھی طرف ہو جائے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1225]
1225۔ اردو حاشیہ: ➊ دوران سفر میں نفل پڑھنا اپنے وقت کا بہترین مصرف اور اللہ ذوالجلال کے ہاں تقرب کا بہترین عمل ہے۔ ➋ سواری پر نفل ہی پڑھے جا سکتے ہیں، فرائض نہیں۔ مگر یہ اس وقت جب سواری مسافر کے اپنے تصرف میں ہو۔ ہمارے دور کی سواریاں اور نظام سفر ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ۔ چونکہ مسافروں کے اپنے تصرف میں نہیں ہوتے، اس لئے ان پر فرض بھی ادا کر سکتے ہیں۔ بہرحال جہاں تک ممکن ہو، فرائض قریب ترین پڑاؤ پر ادا کئے جائیں، جیسے کشتی یا بحری جہاز میں اگر ساحل قریب نہ ہو تو بالاتفاق ان میں فرض نماز جائز ہے۔ ایسے ہی بس اور ہوائی جہاز وغیرہ کا معاملہ ہے۔ گویا جس طرح بھی ممکن ہو، فرض نماز کی ادائیگی کر لی جائے یا پھر جمع تقدیم یا جمع تاخیر پر عمل کر لیا جائے۔ ➌ اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوا کہ وتر فرض نہیں ہیں بلکہ تاکیدی نفل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1225
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1100
1100. حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت انس ؓ شام سے واپس لوٹے تو ہم نے ان کا استقبال کیا، ہم انہیں عین التمر کے مقام پر ملے تو میں نے دیکھا کہ وہ گدھے پر نماز پڑھ رہے تھے اور ان کا منہ اس طرف، یعنی قبلہ کی بائیں جانب تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا: میں نے آپ کو غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔ ابراہیم بن طہمان نے حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1100]
حدیث حاشیہ: حضرت انس بن مالک ؒ بصرہ سے شام میں خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کے ہاں حجاج بن یوسف ظالم ثقفی کی شکایت لے کر گئے تھے۔ جب لوٹ کر بصرہ آئے تو انس بن سیرین آپ کے استقبال کو گئے اور آپ کو دیکھا کہ گدھے پر نفل نماز اشاروں سے ادا کر رہے ہیں اور منہ بھی غیر قبلہ کی طرف ہے۔ آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بھی سواری پر نفل نماز ایسے ہی پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ روایت مسلم میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے یوں ہے: رأيتُ رَسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يُصَلِّي على حِمارٍ أو حِمارةٍ، وهو متوَجِّهٌ إلى خَيبَرَ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ (نفل نماز) گدھے پر ادا فرما رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک خیبر کی طرف تھا۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اس روایت کو ابراہیم بن طہمان کی سند سے نقل فرمایا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے موصولا نہیں ملی، البتہ سراج نے عمرو بن عامر سے، انہوں نے حجاج سے، اس لفظ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے چاہے جدھر وہ منہ کرتی تو حضر ت انس ؓ نے گدھے پر نماز پڑھنے کو اونٹنی کے اوپر پڑھنے پر قیاس کیا اور سراج نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا، انہوں نے حضرت انس ؓ سے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا اور آپ خیبر کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا بالاجماع فرض ہے۔ مگر جب آدمی عاجز ہو یا خوف ہو یا نفل نماز ہو تو ان حالات میں یہ فرض اٹھ جاتا ہے۔ نفل نماز کے لیے بھی ضروری ہے کہ شروع کرتے وقت نیت باندھنے پر منہ قبلہ رخ ہو بعد میں وہ سواری جدھر بھی رخ کرے نماز نفل ادا کرنا جائز ہے۔ عین التمر ایک گاؤں ملک شام میں عراق کی طرف واقع ہے۔ اس روایت سے ثابت ہو اکہ کسی ظالم حاکم کی شکایت بڑے حاکم کو پہنچانا معیوب نہیں ہے اور یہ کہ کسی بزرگ کے استقبال کے لیے چل کر جانا عین ثواب ہے اور یہ بھی کہ بڑے لوگوںسے چھوٹے آدمی مسائل کی تحقیق کر سکتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دلیل پیش کرنے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ مومن کے لیے اس سے آگے گنجائش نہیں۔ اس لیے بالکل سچ کہا گیا ہے: اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن یعنی دین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ قرآن مجید کو حد درجہ قابل تعظیم کہا جائے اور پس احادیث نبوی کو دل وجان سے تسلیم کیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1100
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1100
1100. حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت انس ؓ شام سے واپس لوٹے تو ہم نے ان کا استقبال کیا، ہم انہیں عین التمر کے مقام پر ملے تو میں نے دیکھا کہ وہ گدھے پر نماز پڑھ رہے تھے اور ان کا منہ اس طرف، یعنی قبلہ کی بائیں جانب تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا: میں نے آپ کو غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔ ابراہیم بن طہمان نے حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1100]
حدیث حاشیہ: (1) سواری پر نفل ادا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ جانور مأکول اللحم ہو اور اس کے فضلات وغیرہ پاک ہوں، البتہ یہ ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت نمازی کے جسم یا کپڑوں کا کوئی حصہ نجاست آلود نہ ہو۔ (2) رسول اللہ ﷺ کا بھی گدھے پر نفل ادا کرنا ثابت ہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نفل پڑھتے دیکھا جبکہ آپ خیبر کی طرف جا رہے تھے۔ (سنن النسائي، المساجد، حدیث: 742) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا جبکہ آپ کا چہرہ خیبر کی طرف تھا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1614(700) ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام بخارى ؒ نے بیان نہیں کیا اور نہ متصل سند ہی سے ہمیں دستیاب ہو سکی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ نے اہتمام کے ساتھ یہ باب قائم کیا ہے تاکہ اس وہم کا رد کیا جائے کہ گدھے پر نماز جائز نہیں، کیونکہ یہ نجس ہونے کی بنا پر اللہ کی رحمت سے دور اور شیطان کے قریب ہوتا ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ گدھے پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ اس قسم کے وہم ہی میں پڑنے کی ضرورت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1100