فوائد و مسائل: اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔
مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 1: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
«صليت أنا ويتيم فى بيتنا خلف النبى صلى الله عليه وسلم، وأمي أم سليم حلفنا .»
” میں اور ایک لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنے گھر میں نماز ادا کی۔ میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے (کھڑی نماز ادا کر رہی) تھیں۔“ [صحيح البخاري: ۰727 صحيح مسلم: 658]
تجزیہ: اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ اجازت عورت کے ساتھ خاص ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں:
«باب: المرأة وحدها تكون صفا.» ” اس بات کا بیان کہ عورت اکیلی بھی ہو تو صف شمار ہوتی ہے۔
“ اگر مرد بھی اکیلا صف شمار ہو سکتا ہے تو اس تبویب کا کیا مطلب ہوا؟ نیز مرد و عورت دونوں پر نماز باجماعت کے لیے امام کے پیچھے صف بنانا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«سؤوا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة» ”صفوں کو درست کرو کیونکہ صفوں کی درستی نماز کے قیام کا حصہ ہے۔
“ [صحيح البخاري:723، صحيح مسلم: 433] اب اکیلی عورت کا صف ہونا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرمان کی وجہ سے جائز ہو گیا جبکہ اکیلے مرد کی صف نہ ہونے پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واضح ہیں۔ لہٰذا اکیلے مرد کی صف کے جواز پر کوئی دلیل نہیں۔ یوں اس حدیث سے مرد کے لیے اجازت ثابت نہیں ہوتی۔
◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
«أن تقوم خلف الصف وحدها، جاز صلاة المصلي خلف الصف وحده، وهذا الاحتجاج عندي غلط، لأن سنة المرأة أن تقوم خلف الصف وحدها إذا لم تكن معها امرأة أخرى، وغير جائز لها أن تقوم بحذاء الإمام ولا فى الصف مع الرجال، والمأموم من الرجال إن كان واحدا، فسنته أن يقوم عن يمين إمامه، وإن كانوا جماعة قاموا فى صف خلف الإمام حتى يكمل الصفك الأول، ولم يجز للرجل أن يقوم خلف الإمام والمأموم واحد، ولا خلاف بين أهل العلم أن هذا الفعل لو فعله فاعل، فقام خلف إمام، ومأموم قد قام عن يمينه، خلاف سنة النبى صلى الله عليه وسلم.» ” سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا والی روایت کو اپنی دلیل بنانے والوں کو کہنا ہے کہ جب عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا جائز ہے تو مرد کے لیے بھی ایسا جائز ہے۔ لیکن یہ بات میرے نزدیک غلط ہے کیونکہ عورت کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ جب وہ اکیلی ہو تو صف کے پیچھے کھڑی ہو، اس کا امام کے برابر کھڑا ہونا ممنوع ہے، اسی طرح وہ مردوں کی صف میں بھی کھڑی نہیں ہو سکتی، جبکہ مرد مقتدی جب اکیلا ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو گا اور اگر مقتدی ایک سے زیادہ ہوں تو امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے، حتی کہ پہلی صف مکمل ہو جائے۔ اکیلا مقتدی ہو تو اس کے لیے امام کے پیچھے کھڑا ہونا جائز نہیں۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے دائیں جانب مقتدی کھڑا ہو تو بعد میں آنے والے کا پچھلی صف میں اکیلے کھڑا ہونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔
“ [صحیح ابن خزیمة:3 / 30] ◈ امام ابن حزم رحمہ اللہ
(384-456 ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں:
«وهذا لا حجة لهم فيه، لأن هذا حكم النساء خلف الرجال، وإلا فعليهن من إقامة الصفوف إذا كثرن ما على الرجال لعموم الأمر بذلك، ولا يجوز أن يترك حديث مصلى المرأة المذكورة لحديث وابصة، ولا حديث وابصة لحديث مصلي المرأة.» ” اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس میں تو مردوں کے پیچھے
(اکیلی) عورتوں کا خاص حکم بیان ہوا ہے، ورنہ جب وہ زیادہ ہوں تو عام حکم کی بنا پر ان کے لیے بھی صفوں کا قیام فرض ہو گا۔ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ عورت کی نماز کے بارے میں مذکورہ حدیث کی وجہ سے سیدنا وابصہ کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے یا حدیث وابصہ کی بنا پر عورت کی نماز والی حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔
“ [المحلي لابن حزم: 57/4] معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔