وضاحت: ۱؎: یعنی اس قدر تاخیر کرو کہ طلوع فجر میں شبہ باقی نہ رہے، یا یہ حکم ان چاندنی راتوں میں ہے جن میں طلوع فجر واضح نہیں ہوتا، شاہ ولی اللہ صاحب نے ”حجۃ اللہ البالغہ“ میں لکھا ہے کہ یہ خطاب ان لوگوں کو ہے جنہیں جماعت میں کم لوگوں کی حاضری کا خدشہ ہو، یا ایسی بڑی مساجد کے لوگوں کو ہے جس میں کمزور اور بچے سبھی جمع ہوتے ہوں، یا اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ فجر خوب لمبی پڑھو تاکہ ختم ہوتے ہوتے خوب اجالا ہو جائے جیسا کہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھ کر لوٹتے تو آدمی اپنے ہم نشیں کو پہچان لیتا، اس طرح اس میں اور غلس والی روایت میں کوئی منافات نہیں ہے۔