ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ رات کا بہت سا حصہ گزر گیا، اور مسجد کے لوگ سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور نماز پڑھائی، اور فرمایا: ”یہی (اس نماز کا پسندیدہ) وقت ہے، اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا“(تو اسے اس کا حکم دیتا)۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 537]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 537
537 ۔ اردو حاشیہ: ”بہت رات“ اس سے مراد اکثر رات نہیں کیونکہ نصف رات کے بعد تو وقت جواز نہیں رہتا۔ صحیحین (بخاری و مسلم) کی احادیث میں صراحت ہے کہ نصف رات ختم نہ ہوئی تھی۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 600، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 640] لہٰذا اس سے مراد رات کا کافی حصہ ہے۔ اصل وقت سے مراد یہ ہے کہ اگر نیند کا لحاظ نہ رکھا جائے تو نماز آدھی رات کو ہونی چاہیے تھی، جس طرح ظہر کی نماز دوپہر کو ہوتی ہے، مگر نیند کا لحاظ رکھتے ہوئے اب اس کا افضل وقت تہائی رات تک ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 537