عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک رات ہم نماز عشاء کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے، جب تہائی یا اس سے کچھ زیادہ رات گزر گئی تو آپ نکل کر ہمارے پاس آئے، اور جس وقت نکل کر آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ایک ایسی نماز کا انتظار کر رہے ہو کہ تمہارے سوا کسی اور دین کا ماننے والا اس کا انتظار نہیں کر رہا ہے، اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو انہیں اسی وقت نماز پڑھاتا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا، تو اس نے اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 538]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 199
´نیند (سونے) سے وضو ہے یا نہیں؟` «. . . حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شُغِلَ عَنْهَا لَيْلَةً فَأَخَّرَهَا حَتَّى رَقَدْنَا فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا ثُمَّ رَقَدْنَا ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا ثُمَّ رَقَدْنَا ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: لَيْسَ أَحَدٌ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ غَيْرُكُمْ . . .» ”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی تیاری میں مصروفیت کی بناء پر عشاء کی نماز میں دیر کر دی، یہاں تک کہ ہم مسجد میں سو گئے، پھر جاگے پھر سو گئے، پھر جاگے پھر سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: ”(اس وقت) تمہارے علاوہ کوئی اور نماز کا انتظار نہیں کر رہا ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 199]
فوائد و مسائل: ➊ صحابہ کرام کا یہ سونا بیٹھے بیٹھے تھا نہ کہ لیٹ کر۔ جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ ➋ نماز عشاء امت مسلمہ کا خاصہ ہے، نیز اس کو دوسری نمازوں کی بہ نسبت اول وقت کی بجائے دیر سے پڑھنا مستحب ہے۔ جیسا کہ آنے والی حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ ➌ محض نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا، الا یہ کہ لیٹ کر ہو یا کسی ایسے سہارے سے ہو کہ اعضاء ڈھیلے ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ نیند میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو قائم رہتا تھا۔ درج ذیل احادیث اس کی واضح دلیل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 199
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 420
´عشاء کے وقت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار کرتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے جب تہائی رات یا اس سے زیادہ گزر گئی، ہم نہیں جانتے کہ کسی چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشغول کر رکھا تھا یا کوئی اور بات تھی، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر آئے تو فرمایا: ”کیا تم لوگ اس نماز کا انتظار کر رہے ہو؟ اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو میں انہیں یہ نماز اسی وقت پڑھاتا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے نماز کے لیے تکبیر کہی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 420]
420۔ اردو حاشیہ: انتظار کرانے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ عبادت کے ”انتظار کا ثواب“ حاصل کر لیں اور ان کو تاخیر کی فضیلت بھی بتا دی جائے۔ بہرحال اس سے عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 420