فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5369
اردو حاشہ: جوتے کے تسمے پاؤں کو جوتے کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ایک ہو یا دو یا زائد، کوئی حرج نہیں۔ نہ یہ شرعی مسئلہ ہے اور نہ شریعت نے اس بارے میں کوئی ہدایت کی ہے، لہٰذا وقتی رواج کے کسی بھی قسم کے جوتے استعمال کیے جا سکتے ہیں جو وقتی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5369
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 367
´عورتوں کے کپڑوں میں نماز نہ پڑھنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شعار یا لحافوں میں نماز نہیں پڑھتے تھے ۱؎۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ شک میرے والد (معاذ) کو ہوا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 367]
367۔ اردو حاشیہ: «شعا» وہ کپڑا ہوتا ہے جو بالخصوص جسم سے متصل ہو اور صحت نماز کے لیے کپڑے اور جگہ کا پاک ہونا شرط ہے۔ اگر چادر، کمبل، لحاف یا دری وغیرہ ناپاک ہو تو نماز صحیح نہیں ہو گی۔ ہاں اگر اعتماد ہو کہ کپڑا پاک ہے تو کوئی حرج نہیں۔ امام صاحب نے ”عورت کے کپڑوں“ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ محض جسم سے «مُلامَسَت»(لگنے) کی وجہ سے کپڑا نجس نہیں ہوتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 367
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 645
´مردوں کا عورتوں کے کپڑوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شعار یا لحاف ۱؎ میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: میرے والد (معاذ) کو شک ہوا ہے (کہ ام المؤمنین عائشہ نے لفظ: «شعرنا» کہا، یا: «لحفنا»)۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 645]
645۔ اردو حاشیہ: وہ کپڑے جو جسم کے ساتھ متصل ہوتے ہیں انہیں «شعار» اور جو ان کے اوپر ہوں انہیں «دثار» کہتے ہیں اور جیسے یہ مسئلہ پہلے (احادیث: 367 تا 370) میں گزر چکا ہے کہ ا کثر اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چادروں وغیرہ میں نماز نہ پڑھا کرتے تھے جو آپ کی عورتوں کے استعمال میں بھی ہوتی تھیں، مگر بعض اوقات ان میں نماز پڑھی بھی ہے، تو اس مسئلے میں وسعت ہے تاہم کپڑے کی طہارت کا یقین ہونا شرط ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 645