ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: عشاء کی امامت کرنے یا تنہا پڑھنے کے لیے کون سا وقت آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم کو کہتے سنا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء مؤخر کی یہاں تک کہ لوگ سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے (پھر) سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے، تو عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہنے لگے: صلاۃ! صلاۃ! تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے۔ گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور آپ اپنا ہاتھ سر کے ایک حصہ پر رکھے ہوئے تھے۔ راوی (ابن جریج) کہتے ہیں: میں نے عطاء سے جاننا چاہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر کیسے رکھا؟ تو انہوں نے مجھے اشارہ کے ذریعہ بتایا جیسا کہ ابن عباس نے انہیں اشارہ سے بتایا تھا، عطاء نے اپنی انگلیوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کیا، پھر اسے رکھا یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے سرے سر کے اگلے حصہ تک پہنچ گئے، پھر انہیں ملا کر سر پر اس طرح گزارتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے کان کے کناروں کو جو چہرہ سے ملا ہوتا ہے چھو لیتے، پھر کنپٹی اور پیشانی کے کناروں پر پھیرتے، نہ دیر کرتے نہ جلدی سوائے اتنی تاخیر کے - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت کے لیے دشوار نہیں سمجھتا تو انہیں حکم دیتا کہ وہ اسی قدر تاخیر سے عشاء پڑھیں“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 532]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 532
532 ۔ اردو حاشیہ: ➊”لوگ سوگئے۔“ اس سونے سے مراد وہ نیند ہے جس سے شعور اور ادراک ختم نہیں ہوتا جسے ہماری زبان میں اونگھ کہتے ہیں، یعنی سخت اونگھ آگئی، بیٹھے، کھڑے اور لیٹے تمام حالتوں میں یہ حالت طاری ہو سکتی ہے کیونکہ یہاں حقیقی نیند، جس سے ادراک اور انسانی شعور ختم ہو جاتا ہے، مراد لینا درست نہیں لگتا کیونکہ اس میں وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ وہ جس حالت میں بھی آئی ہو۔ ➋رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہا کر تشریف لائے تھے اور اپنے سر کے بالوں سے پانی نچوڑ رہے تھے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عطاء رحمہ اللہ نے اشارے سے سمجھایا اور تفصیل سے ہاتھ گزار کر واضح کیا۔ سر کے لمبے بالوں سے اسی طرح پانی نچوڑا جاتا ہے۔ ➌”اگر خطرہ نہ ہوتا“ معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتدی حضرات کو تاخیر میں مشقت ہو تو نماز جلدی پڑھنا مستحب ہے ورنہ دیر سے پڑھنا اچھا ہو گا۔ نمازوں کے اوقات کی وسعت دراصل لوگوں کی مجبوریوں کے پیش نظر ہے۔ واللہ اعلم۔ ➍سلف صالحین نمازوں کو ان کے اولیٰ اور افضل اوقات میں پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ ➎مفتی پر لازم ہے کہ اپنے فتوے کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرے اور سائل کے لیے ضروری ہے وہ جواب کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنے تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ کر کماحقہ آگے بیان کر سکے۔ (6)امت محمدیہ کی فضیلت ہے کہ نماز عشاء کو صرف اس امت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جیسا کہ سنن ابوداود کی روایت میں ہے: «فإنکم قد فضلتم بھا علی سائر الامم ولم تصلھا امة قبلکم»”یقیناًً تمہیں اس نماز (عشاء) کے ذریعے سے تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے، تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔“[سنن أبی داود، الصلاة، حدیث: 421]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 532
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1452
حضرت ابن جریج رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا: آپ کے نزدیک عشاء کی نماز جس کو لوگ عتمہ کہتے ہیں، میرے لیے امامت یا انفرادی طور پر کس وقت پڑھنا محبوب ہے؟ اس نے جواب دیا، میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ ایک رات نبی اکرم ﷺ عشاء کی نماز میں دیر کردی، حتیٰ کہ لوگ سو گئے اور بیدار ہوئے، پھر سو گئے اور بیدار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1452]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) خِلْوًا: یعنی منفردا، اکیلے، انفرادی طور پر۔ (2) اِسْتَثَبْتُ: میں نےچھان بین سےکام لیا، تحقیق کی۔ (3) صَبَّهَا: اسےجھکایا، نیچے کیا۔ (4) لَايَقْصرُوَلَا يَبْطِشُ: نہ دیر کی اور نہ جلدی سے کام لیا، لفظی معنی نہ کوتاہی کی اور نہ گرفت کی، مقصد یہ ہے انگلیوں کو میانہ روی کے ساتھ سر پر پھیرا اور پانی نچوڑا۔ فوائد ومسائل: (1) احادیث سے امت کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور پیار کا اظہار ہو رہا ہے اور اس خواہش و آرزو کا پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ کو اپنی امت کی سہولت اور آسانی عزیز تھی مشقت و دشواری سے محفوظ رکھنے کی کوشش فرماتے تھے اس کے باوجود امت اسلامی احکام و ہدایات کو دشوار محسوس کرے یا ان پر عمل کرنے سے پہلو تہی کرے تو اس پر افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ (2) تأخیر عشاء والی روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر انسان بیٹھے بیٹھے سو جائے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اِلَّا یہ کہ اسے یہ محسوس ہو کہ اس کی ہوا خارج ہو گئی ہے۔ (3) عشاء کی نماز آئمہ اربعہ کے نزدیک بالا تفاق تأخیر سے پڑھنا بہتر ہے لیکن اس میں نمازیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے اگر تأخیر نمازیوں کے لیے وقت اور دشواری کا باعث ہو تو اعتدال اور توسط کی راہ کو اختیار کیا جائے گا۔ (4) ان احادیث سے یہ استدلال کرنا کہ اللہ تعالیٰ نبی کو احکام کی حلت و حرمت اور ایجاب و تحریم کا اختیار دے کر بھیجتا ہے اور نبی کا یہ منصب ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے فرض کر دے اور جس چیز کو چاہے حرام کر دے درست نہیں ہے رسول جو کچھ فرماتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے فرماتا ہے اس کا ہر حکم اللہ کی رضا کے تابع ہوتا ہےجس کا اصول خود قرآن مجید میں: (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ)(النجم) کی صورت میں بیان کر دیا گیا ہے اگر وہ خود مختارہوتا۔ تو پھر ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى﴾(الانفال) ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ﴾(سورة توبة) ﴿عَفَااللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ﴾(سورۃ توبہ) ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ﴾(تحریم) ان تنبیہات کی ضرورت پیش نہ آتی پھر ان: ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ﴾ کا کیا مفہوم ہو گا؟ اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام رساں ہوتا ہے اور اس پیغام کی تشریح و توضیح اپنے قول و عمل سے اللہ تعالیٰ کی وحی جلی اور وحی خفی کی روشنی میں فرماتا ہے اگر کہیں اجتہادی طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی کام ہو جائے تو فوراً اس کو آگاہ کر دیا جاتا ہے اس لیے مآل اور انجام کے اعتبار سے اس کا ہر قول و فعل امت کے لیے بلا حیل و حجت اور بلا چون وچرا واجب الاتباع ہوتا ہے اور اس کے بارے میں دل میں کسی قسم کا انقباض روا نہیں ہو سکتا۔ شارع اصل میں اللہ تعالیٰ ہے بندوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رسول واسطہ ہے رسول کے بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کو جاننا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے رسول کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے رسول اطاعت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ممکن نہیں ہے۔