صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5426 کا باب: «بَابُ الأَكْلِ فِي إِنَاءٍ مُفَضَّضٍ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب
«أكل» کے متعلق قائم فرمایا ہے جبکہ حدیث تحت الباب
«شرب» کے متعلق پیش فرمائی ہے، لہٰذا ان میں مطابقت کس طرح سے ہو گی؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«وحديث حذيفة الذى ساقه فى الباب، فيه النهي عن الشرب فى آنية الذهب والفضة، ويؤخر منه فى الأكل بطريق الإلحاق وهذا بالنسبة لحديث حذيفة.» [فتح الباري لابن حجر: 473/10] ”یعنی حدیث حذیفہ میں سونے اور چاندی سے بنے برتنوں میں پینے سے نہی وارد ہے،
«اكل» کا منع ہونا بھی بطریق الحاق اسی سے ماخوذ ہے، حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی نسبت سے۔
“ (کیونکہ جب پینا منع ہے بطریق اولٰی کھانا بھی منع ہو گا۔) عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے تحت سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ذکر فرمایا جو کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں پینے کی نہی پر مبنی ہے اور اسی حکم سے
«أكل» کی ممانعت بھی اخذ کی جائے گی واسطے اس کی علت جامعہ کے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
“ [لب اللباب: 279/4] لہٰذا ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ باب میں
«اكل» کے الفاظ ہیں، بطریق اولیٰ جس میں
«شرب» کا مفہوم بھی موجود ہے اور سونے اور چاندی کے برتنوں میں بالاتفاق
«اكل» اور
«شرب» دونوں ہی ممنوع ہیں۔
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذا الحديث يدل على تحريم استعمال الحرير والديباج وعلى حرمة الشرب والأكل من إناء الذهب والفضة.» [عمدة القاري للعيني: 93/21] ”یہ حدیث سونے اور چاندی کے برتنوں کو استعمال کرنے پر ممانعت سے اور یہ حرام ہے کہ ان برتنوں سے پیا جائے یا کھایا جائے۔
“ پس یہی مقصود ہے باب اور حدیث میں۔
ایک اشکال اور اس کا جواب: «قال مغلطائي: لا يطابق الحديث الترجمة الا ان كان الإناء الذى سقي فيه حذيفة كان مضبياً فان الضبة موضع الشقة عند الشرب.» [فتح الباري لابن حجر: 473/10]
”حدیث باب ترجمۃ کے مطابق نہیں ہے، الا یہ کہ برتن جو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا گیا مضب ہو کہ ضبہ وہ حصہ ہوتا ہے جہاں ہونٹ لگا کر پیتے ہیں۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وأجاب الكرماني بأن لفظ مفضض وإن كان ظاهراً فيما فيه فضة لكنه يشمل ما اذا كان متخذاً كله من قضة والنهي عن الشرب فى اٰنية الفضة يلحق به الأكل للعلة الجامعة فيطابق الحديث، الترجمة.» ”لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت اس جہت کے ساتھ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں صحیح مسلم کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں واضح رومال کے استعال کا جواز موجود ہے۔
انگلیوں کو چاٹنا، جدید تحقیقات کی روشنی میں: مختلف شروحات میں انگلیاں چاٹنے کی مختلف حکمتیں بیان کی گئی ہیں، مثلاً:
◈ انگلیاں چاٹنے کے بعد رومال وغیرہ سے ہاتھ پونچھنے میں زیادہ آلودگی اور تلویث نہیں ہو گی۔
[فتح الباري لابن حجر: 492/90] ◈ دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہے انگلیوں پر لگا ہوا جو حصہ ہو اس میں برکت ہو۔
[صحيح مسلم، كتاب الاشربة والاطعمة: رقم: 2033] ◈ انگلیوں پر لگی غذا کو اس لیے چاٹا جائے کہ اسے قلیل اور حقیر نہ سمجھا جائے۔
[فتح الباري لابن حجر: 492/10] بعض حضرات نے اس عمل کو پسند بھی نہیں کیا اور وہ مختلف اشکالات کا شکار ہوئے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
«عاب قوم أفسد عقلهم الترفة، فزعموا أن لعق الأصابع مستقبح كأنهم لم يعلموا ان الطعام الذى علق بالاصابع أو الصحفة جزء من أجزاء ما أكلوه، وإذا لم يكن سائر أجزائه مستقزرا، لم يكن الجزء اليسير منه مستفزراء، وليس فى ذالك اكبر من مصه أصابعه بباطن شفتيه.» [فتح الباري لابن حجر: 493/10] ”کچھ لوگوں کا ترخہ نے دماغ خراب کر دیا ہے، چنانچہ وہ اسے مستقزر خیال کرتے ہیں، گویا نہیں جانتے کہ انگلیوں پر لگا ہوا کھانا وہی ہے جو کھایا ہے تو اگر یہ سارا طعام مستفزر نہیں تو تھوڑی سی مقدار جو انگلیوں پر لگی ہے کیوں کر مستفزر ہو سکتی ہے؟ اس میں تو بس اتنا ہی کرنا پڑے گا کہ ہونٹوں کے اندرون کے ساتھ انگلیاں چاٹنا ہوں گی اور کوئی عقلمند اس میں حرج محسوس نہ کرے گا، کئی دفعہ کلی کرتے ہوئے بھی تو انسان انگلی منہ میں ڈال کر دانت ملتا ہے اور منہ کا اندرونی حصہ صاف کرتا ہے۔
“ یہ گزارشات مختلف شروحات میں موجود ہیں، لہٰذا جدید طبی اعتبار سے انگلیوں کا کھانے کے بعد اسے چاٹنا انتہائی مفید ہے، چنانچہ جرمنی کے ماہرین طب نے یہ تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کی پوروں پر موجود خاص قسم کی پروٹین اسے دست، قے اور ہیضے جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے، ماہرین کے مطابق وہ بیکٹیریا جنہیں
”ای کو لائی
“ کہا جاتا ہے، جب انگلیوں کی پوروں پر آتے ہیں تو پوروں پر موجود پروٹین ان مضر صحت بیکٹیریا کو ختم کر دیتی ہے، اس طرح یہ جراثیم انسانی جسم پر رہ کر مضر اثرات پیدا نہیں کرتے خاص طور پر انسان کو جب پسینہ آتا ہے تو جراثیم کش پروٹین متحرک ہو جاتی ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ پروٹین نہ ہوتی تو بچوں میں ہیضے، دست اور قے کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتیں۔
ریسرچ اسکالر محسن فاران صاحب انگلیوں میں موجود پروٹین پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اہل مغرب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کو غیر صحت مند قرار دے کر اس پر حرف گیری کرتے رہے ہیں، لیکن اب سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ عمل تو نہایت صحت مند ہے، کیوں کہ انگلیاں منہ کے اندر نہیں جاتیں اور یوں منہ کے لعاب سے آلودہ نہیں ہوتیں، نیز انگلیوں کی پوروں پر موجود پروٹین سے مضر بیکٹیریا بھی ہلاک ہو جاتے ہیں، اس کے برعکس چمچے یا کانٹے سے کھانا کھائیں تو وہ بار بار منہ کے لعاب سے آلودہ ہوتا رہتا ہے اور یہ بےحد غیر صحت مند عمل ہے۔
“ مزید تفصیل کے لیے راقم کا عنوان
”حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنس) جو کہ مجلہ دفاع اسلام میں لگاتار پیش کیا جا رہا ہے شائقین حدیث نئی طبی تحقیقات کے لیے مطالعہ کر سکتے ہیں۔