بشیر بن سلام کہتے ہیں کہ میں اور محمد بن علی دونوں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور ان سے ہم نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بتائیے (یہ حجاج بن یوسف کا عہد تھا) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ نے ظہر پڑھائی جس وقت سورج ڈھل گیا، اور «فىء»(زوال کے بعد کا سایہ) تسمے کے برابر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی جس وقت «فىء» تسمے کے اور آدمی کے سایہ کے برابر ہو گیا، پھر آپ نے مغرب پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی جس وقت فجر طلوع ہو گئی، پھر دوسرے دن آپ نے ظہر پڑھائی جب سایہ آدمی کی لمبائی کے برابر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی جب آدمی کا سایہ اس کے دوگنا ہو گیا، اور اس قدر دن تھا جس میں سوار متوسط رفتار میں ذوالحلیفہ تک جا سکتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھائی جس وقت سورج ڈوب گیا، پھر تہائی رات یا آدھی رات کو عشاء پڑھائی (یہ شک زید کو ہوا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی تو آپ نے خوب اجالا کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 525]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 2217) (صحیح) بما تقدم برقم: 505 وما یأتی بأرقام 527، 528 (اس کے راوی ’’حسین‘‘ لین الحدیث ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الحسين بن بشير بن سلام الأنصاري مجهول الحال،ذكره ابن حبان وحده فى الثقات (6/ 206) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 324
يصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس نقية المغرب إذا وجبت العشاء أحيانا يؤخرها وأحيانا يعجل كان إذا رآهم قد اجتمعوا عجل وإذا رآهم قد أبطئوا أخر الصبح وكان يصليها بغلس
صلى الظهر حين زالت الشمس كان الفيء قدر الشراك صلى العصر حين كان الفيء قدر الشراك وظل الرجل صلى المغرب حين غابت الشمس صلى العشاء حين غاب الشفق صلى الفجر حين طلع الفجر
صل معي فصلى الظهر حين زاغت الشمس العصر حين كان فيء كل شيء مثله المغرب حين غابت الشمس العشاء حين غاب الشفق قال ثم صلى الظهر حين كان فيء الإنسان مثله العصر حين كان فيء الإنسان مثليه المغرب حين كان قبيل غيبوبة الشفق