مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 53
´مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان سے ہے`
«. . . فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 53]
� تشریح:
یہاں بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومذهب السلف فى الايمان من كون الاعمال داخلة فى حقيقته فانه قد فسرالاسلام فى حديث جبرئيل بما فسربه الايمان فى قصة وفدعبدالقيس فدل هذا على ان الاشياءالمذكورة وفيها اداءالخمس من اجزاءالايمان وانه لا بدفي الايمان من الاعمال خلافا للمرجئة۔» [مرعاة، جلد اول، ص: 45]
یعنی سلف کا مذہب یہی ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل علیہ السلام (مذکورہ سابقہ) میں اسلام کی جو تفسیر بیان فرمائی وہی تفسیر آپ نے وفد عبدالقیس کے سامنے ایمان کی فرمائی۔ پس یہ دلیل ہے کہ اشیاء مذکورہ جن میں مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی ہے یہ سب اجزاء ایمان سے ہیں اور یہ کہ ایمان کے لیے اعمال کا ہونا لابدی ہے۔ مرجیہ اس کے خلاف ہیں۔ (جو ان کی ضلالت و جہالت کی دلیل ہے)۔
جن برتنوں کے استعمال سے آپ نے منع فرمایا ان میں عرب کے لوگ شراب رکھا کرتے تھے۔ جب پینا حرام قرار پایا تو چند روز تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرما دی۔
یادرکھنے کے قابل:
یہاں حضرت مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ایک یاد رکھنے کے قابل بات فرمائی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
«قال الحافظ وفيه دليل على تقدم اسلام عبدالقيس على قبائل الذين كانوا بينهم وبين المدينة ويدل على سبقهم الي الاسلام ايضا مارواه البخاري فى الجمعة عن ابن عباس قال ان اول جمعة جمعت بعدجمعة فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم فى مسجد عبدالقيس بجواثي من البحرين وانما جمعوا بعدرجوع وفدهم اليهم فدل على انهم سبقوا جميع القريٰ الي الاسلام انتهي واحفظه فانه ينفعك فى مسئلة الجمعة فى القريٰ۔» [مرعاة، جلد: اول، ص: 44]
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عبدالقیس کا قبیلہ مضر سے پہلے اسلام قبول کر چکا تھا جو ان کے اور مدینہ کے بیچ میں سکونت پذیر تھے۔ اسلام میں ان کی سبقت پر بخاری کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جو نماز جمعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں جو بحرین میں واقع تھا، عبدالقیس کی مسجد میں قائم کیا گیا۔ یہ جمعہ انہوں نے مدینہ سے واپسی کے بعد قائم کیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ دیہات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسے یاد رکھو یہ گاؤں میں جمعہ ادا ہونے کے ثبوت میں تم کو نفع دے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 53
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 87
´علم کی باتیں یاد کرنا اور دوسروں کو بتانا`
«. . . قَالَ: احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 87]
� تشریح:
نوٹ: یہ حدیث کتاب الایمان کے اخیر میں گزر چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو تحصیل علم کے لیے ترغیب و تحریص سے کام لے سکتا ہے۔ مزید تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 87
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3095
3095. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب وفد عبدالقیس آیا توانھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!ہم اس ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر حائل ہیں۔ ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کے پاس حاضر نہیں ہوسکتے۔ ہمیں کوئی ایسا(جامع) حکم بتادیں جس پر ہم بھی عمل کریں اور اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میں تمھیں چارچیزوں کاحکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی گواہی دی جائے۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک گرہ لگائی(کہ ایک تو یہ ہے اور باقی یہ ہیں:)۔۔۔ نماز پڑھنا، زکاۃ ادا کرنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جو تم مال غنیمت حاصل کرو اس سے خمس اداکرنا اورتمھیں کدو، فقیر، حنتم اورمزفت میں نبیذ بنانے سے منع کرتا ہوں۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:3095]
حدیث حاشیہ:
دبا کدو کی تونبی اور نقیر کریدی لکڑی کے برتن‘ حنتم سبز لاکھی برتن‘ اور مزفت روغنی برتن‘ یہ سب شراب رکھنے کیلئے استعمال کئے جاتے تھے۔
اس لئے ان سب کو دور پھینک دینے کا آپ ﷺ نے حکم فرمایا۔
خمس کی ادائیگی کاخاص حکم دیا۔
یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3095
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3510
3510. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ قبیلہ عبد قیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر حائل ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں ہی میں آسکتے ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ آپ ہمیں فیصلہ کن باتیں بتائیں جن پر ہم خود بھی مضبوطی سے قائم رہیں اور جو لوگ ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں انھیں بھی بتا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں چار چیزوں کاحکم دیتا ہوں اور چار کاموں سے منع کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور جو کچھ بھی تمھیں مال غنیمت ملے اس میں سے اللہ کے لیے پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمھیں کدو کے برتن، سبز مٹکے، لکڑی کرید کر بنائے ہوئے برتنوں اور تارکول شدہ برتنوں (میں نبیذ بنانے) سے منع کرتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3510]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الایمان میں گزر چکی ہے، اور اسی کتاب المناقب کے شروع میں اس حدیث کا کچھ حصہ اور اس کے الفاظ کے معانی و مطالب بھی آچکے ہیں، باب کی مناسبت یہ ہے کہ آخر عرب کے لوگ یا تو ربیعہ کی شاخ ہیں یا مضر کی اور یہ دونوں حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں، بعد میں یہ جملہ قبائل مسلمان ہوگئے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3510
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4368
4368. حضرت ابو جمرہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا: میرا ایک مٹکا ہے جس میں میرے لیے نبیذ، یعنی کھجور کا شربت تیار کیا جاتا ہے۔ میں اسے میٹھا کر کے پیتا رہتا ہوں۔ اگر میں س سے زیادہ پی لوں اور قوم میں دیر تک بیٹھا رہوں تو مجھے خطرہ رہتا ہے کہ مبادا رسوا ہو جاؤں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”قوم کا آنا مبارک ہو، رسوا اور شرمندہ ہو کر نہیں آئے۔“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے مشرک رہتے ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس حرمت والے مہینوں کے سوا نہیں آ سکتے۔ آپ ہمیں دین کے معاملے میں مختصر مگر جامع احکام بتائیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم جنت میں داخل ہو سکیں اور اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی ان کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4368]
حدیث حاشیہ:
یہ ایلچی دوبار آئے تھے۔
پہلی باربارہ تیرہ آدمی تھے اور دوسری بار میں چالیس تھے۔
آنحضرت ﷺ نے ان کے پہنچنے سے پہلے صحابہ ؓ کو ان کے آنے کی خوشخبری بذریعہ وحی سنا دی تھی۔
ان بر تنوں سے اس لیے منع فرمایا کہ ان میں نبیذ کو ڈالاجاتا اور وہ جلد سڑکر شراب بن جایا کرتی تھی۔
اس سے شراب کی انتہائی برائی ثابت ہوئی کہ اس کے برتن بھی گھروں میں نہ رکھے جائیں۔
افسوس ان مسلمانوں پر جو شراب پیتے بلکہ اس کا دھند ا کر تے ہیں۔
اللہ ان کو توبہ کرنے کی توفیق عطاکرے۔
(آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4368
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7556
7556. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور انہوں نے کہا: ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے مشرکین حائل ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں میں آسکتے ہیں۔ آپ ہمیں کچھ جامع احکام بتا دیں، ہم جن پر عمل پیرا ہوکر جنت میں چلے جائیں، نیز ان احکام کی طرف ان لوگوں کو دعوت دین جو ہمارے پیچھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں: میں تمہیں ایمان باللہ کا حکم دیتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے کہ ایمان باللہ کیا ہے؟ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود برحق نہیں، نیز نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور غنیمت میں سے پانچواں حصہ دینے کا حکم دیتا ہوں۔ اور تمہیں چار کاموں سے روکتا ہوں: ”کدو کے برتن، لکڑی کے برتن، تارکول کیے ہوئے برتن اور سبز مٹکوں میں نبیذ بنا کر اسے مست نوش کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7556]
حدیث حاشیہ:
یہاں حضرت اما م بخاری اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں ایمان کوعمل فرمایا توایمان بھی اور اعمال کی طرح مخلوق الہی ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7556
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6176
6176. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کے پا آیا تو آپ نے انہیں فرمایا: ”مرحبا! تمہیں یہاں کسی قسم کی رسوائی یا ندامت نہیں ہوگی۔“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم قبیلہ ربیعہ کے لوگ ہیں ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کفار ہیں لہذا ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینے میں آ سکتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایسی فیصلہ کن بات بتائیں جس پر عمل کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور جو لوگ نہیں آسکے ہم انہیں بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”چار (امور کا تمہیں حکم دیتا ہوں) اور چار (سے روکتا ہوں): نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور کدو، سفید مٹکوں لکڑی کرید کر بنائے ہوئے برتنوں اور روغنی مرتبانوں میں کچھ نہ کھاؤ پیو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6176]
حدیث حاشیہ:
ہر دو احادیث میں لفظ مرحبا بزبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مذکور ہے، دباء، کدو کی تو نبی، حنتم سبز لاکھی مرتبان، نقیر لکڑی کے کریدے ہوئے برتن، مزفت رال لگے ہوئے برتنوں کو کہا گیا ہے۔
یہ برتن عموماً شراب رکھنے کے لئے مستعمل تھے جن میں نشہ اور بڑھ جاتا تھا، اس لئے شراب کی حرمت کے ساتھ ان کو ان برتنوں سے بھی بند کر دیا گیا۔
ایسے حالات آج بھی ہوں تو یہ برتن کام میںلانا منع ہیں ورنہ نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6176
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7266
7266. سیدنا ابو حمزہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدناابن عباس ؓ مجھے خاص اپنے تخت پر بٹھا لیتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے فرمایا: ”یہ کس قوم کا وفد ہے؟“ انہوں نے کہا: قبیلہ ربیعہ (کی ایک شاخ) کا۔ آپ نے فرمایا: ”کسی قسم کی رسوائی یا شرمندگی اٹھائے بغیر اس وفد کو مبارک ہو۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضرہیں۔ لہذا آپ ہمیں ایسی باتیں بتائیں جن پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔ پھر انہوں نے مشروبات کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں چار چیزوں سے منع فرمایا اور چار چیزوں کو بجا لانے کا حکم دیا۔پہلے آپ نے اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا۔پھر پوچھا: ”تمہیں علم ہے کہ ایمان باللہ کیا چیز ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نےفرمایا ”:یہ گواہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7266]
حدیث حاشیہ:
مقیر یعنی قار لگا ہوا قارورہ روغن ہے جو کشتیوں پر ملا جاتا ہے۔
ترجمہ باب اسی فقرے سے نکلتا ہے کہ اپنے ملک والوں کو پہنچا دو کیونکہ یہ عام ہے۔
ایک شخص بھی ان میں کا یہ باتیں دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔
اسی سے خبر واحد کا حجت ہونا ثابت ہوا۔
دباء کدو کا توبنا‘ حنتم سبز لاکھی اور اور رال کا برتن‘ نقیر کریدی ہوئی لکڑی کا برتن۔
اس وقت ان برتنوں میں شراب بنائی جاتی تھی اس لیے آپ نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی روک دیا‘ اب یہ خطرات ختم ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7266
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 87
87. حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا: ”کون سا وفد ہے یا یہ کون لوگ ہیں؟“ انہوں نے کہا: ربیعہ خاندان سے۔ آپ نے قوم یا وفد کو کہا: ”خوش آمدید، نہ رسوا ہوئے اور نہ ندامت ہی کی کوئی بات ہے۔“ انہوں نے عرض کیا: ہم بہت دور دراز کی مسافت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ حائل ہے، اس لیے ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے، لہذا آپ ہمیں کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس سے مطلع کر دیں اور اس کے سبب ہم جنت میں داخل ہو جائیں۔ آپ نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:87]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الإیمان کے اخیر میں گزر چکی ہے۔
حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو تحصیل علم کے لیے ترغیب وتحریص سے کام لے سکتا ہے۔
مزید تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 87
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3692
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عبدالقیس کا وفد آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ بنو ربیعہ کا ایک قبیلہ ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کفار حائل ہیں، ہم آپ تک حرمت والے مہینوں ۱؎ ہی میں پہنچ سکتے ہیں، اس لیے آپ ہمیں کچھ ایسی چیزوں کا حکم دے دیجئیے کہ جن پر ہم خود عمل کرتے رہیں اور ان لوگوں کو بھی ان پر عمل کے لیے کہیں جو اس وفد کے ساتھ نہیں آئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں، اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن کا حکم دیتا ہوں وہ یہ ہیں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3692]
فوائد ومسائل:
1۔
حق کی معرفت لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔
کہ انسان اس پر کاربند ہو اور دوسروں کو اس کی دعوت دے اور یہی فطرت سلیمہ ہے۔
جیسے کہ ان لوگوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں از خود اس کا اظہار کیا۔
2۔
دین واحکام کچھ احکام اور کچھ نواہی پر مشتمل ہے جس کی پاسداری کے بغیر اسلام اور دین مکمل نہیں ہوسکتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3692
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4677
´ارجاء کی تردید کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے انہیں ایمان باللہ کا حکم دیا اور پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو: ایمان باللہ کیا ہے؟“ وہ بولے: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی شہادت دینی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے رکھنا، اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو۔“ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4677]
فوائد ومسائل:
ایمان صرف زبانی اقرارنہیں اورنہ محض دل کی تصدیق کا نام ہے، بلکہ زبان کے اقرار، دل کی تصدیق اور اعضاء سے عمل کے مجموعے کوایمان کہا گیا ہے۔
اس قصے میں حج کا ذکر اس لئے نہیں کہ اس وقت تک حج فرض نہیں ہوا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4677
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 115
حضرت ابنِ عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عبد القیس کا وفد حاضر ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسولؐ! ہم ربیعہ قبیلے کے افراد ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلہ جو کافر ہے، حائل ہے اور ہم حرمت والے مہینے کے سوا آپ تک پہنچ نہیں سکتے۔ لہذٰا آپ ہمیں کسی ایسے امر(حکم، بات) کا حکم دیجیے جس پرہم عمل پیرا ہوں اور اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”میں تمھیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:115]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وفد:
وافد کی جمع ہے،
کسی قوم یا قبیلہ کے ان منتخب لوگوں کو کہتے ہیں جو کسی ضروری کام کے لیے کسی صاحب اختیار و اقتدار کی ملاقات کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
عبدالقیس:
یہ ایک آدمی کا نام ہے،
اس کی اولاد،
اس کی طرف منسوب ہوئی اور یہ ربیعہ کی ایک شاخ ہے،
ربیعہ بن فزار بن سعد،
اور مضر بن نزار بن معد دونوں بھائی تھے۔
عبدالقیس کے لوگ بحرین کے علاقہ میں رہتے تھے،
ان کا ایک وفد 112 افراد پر مشتمل 6 ہجری میں آیا اور دوسرا 140 افراد پر مشتمل 8 ہجری میں آیا،
پہلے وفد کا قائد منذر بن عائذ تھا آپ نے اس کو اشج کے نام سے پکارا۔
(2)
غنيمت:
وہ مال جو دشمن پر غالب آنے کی صورت میں اس سے حاصل ہو۔
(3)
الُّدبَّاء:
کدو کے خشک ہونے کے بعد،
اس کے گودے کو نکال کر جو تونبہ بنایا جاتا ہے۔
(4)
النَّقِير:
کھجور کے نچلے حصہ کو کرید کر برتن بنایا جاتا ہے گویا کریدی ہوئی لکڑی کا برتن۔
(5)
الحَنْتْم:
سبز روغن کا گھڑا،
بعض نے مطلقاً روغن گھڑا کہا ہے،
تو بعض مصری روغنی گھڑا،
یا لال رنگ گھڑا۔
(6)
مُقَيَّرُ:
قار سے ماخوذ ہے،
رال یا تارکول چڑھا ہوا برتن،
اسی کو دوسری روایت میں مزفت کا نام دیا گیا ہے جو زفت سے ماخوذ ہے اور مُقَيَّرُ کا ہم معنی ہے۔
فوائد ومسائل:
1- شھر الحرام:
اہل عرب کے ہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چار ماہ محترم اور معزز خیال کیے جاتے تھے،
ان چار مہینوں میں جنگ وجدال اور قتل وغارت کو ممنوع سمجھا جاتا تھا اور لوگ امن وامان سے سفر کر سکتے تھے،
ذوالقعدہ،
ذوالحجہ اور محرم،
حج کےلیے مخصوص تھے اور رجب،
عمرہ کےلیے الشھر میں الف لام اگر عہد خارجی کےلیے ہوتو اس سے مراد،
رجب مراد ہوگا،
اور مضری لوگ رجب کی باقی مہینوں سے زیادہ تعظیم کرتے تھے،
اس لیے بعض حدیثوں میں رجب کی اضافت مضر کی طرف کرکے رجب مضر کے الفاظ آئے ہیں،
اگر مراد جنس ہوتو اس سے چاروں مہینے مراد ہوں گے۔
آگے آنے والے اشھر الحرم کے الفاظ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
2۔
آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ:
میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں،
لیکن جب آپ نے حکم دیا تو صرف ایمان باللہ کا حکم دیا اور اس کی تفسیر میں امور اربعہ (چار باتیں)
بیان فرمائیں،
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک چیز جب متعدد اجزا سے مرکب ہوتی ہے اور اوہ اجزا،
الگ الگ،
ایک مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں تو اس کے اجزا کے تعدد کا لظاظ رکھتے ہوئے،
اس کو متعدد بھی شمار کر سکتے ہیں اور مجہوعہ کی حیثیت سے ایک بھی جیسا کہ بعض اہل علم کے مختلف رسائل کو یکجا کر دیا جاتا ہے تو ہو ایک کتاب بن جاتے ہیں،
اور اپنی الگ الگ،
مستقل حیثیت کے اعتبار سے متعدد اسلام کے پانچ ارکان،
الگ الگ پانچ ہی شمار ہوتے ہیں اور ان کا مجموعی نام،
اسلام ایک ہی ہے،
یہی حال ایمان کے چھ ارکان کا ہے۔
اسی طرح اس حدیث میں،
ایمان باللہ کی تفسیر میں جو اشیاء بیان ہوئی ہیں،
وہ مجموعی اعتبار سے ایک ہیں اور اپنی الگ الگ حیثیت سے چار۔
اس لیے خلف بن ہشام نے شہادۃ ان لا الہ الا اللہ کا تذکرہ کرنے کے بعد عقد واحدہ ایک انگلی ہاتھ سے ملا کر ایک شمار کیا۔
ربیعہ،
مضر،
انماز اور زید چار بھائی تھے ان میں ربیعہ اور مضر کو بہت شہرت ملی قریش آپ کا قبیلہ مضر کی اولاد سے ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 115
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 116
ابو جمرہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما اور دوسرے لوگوں کے درمیان ترجمان تھا۔ ان کے پاس ایک عورت ان سے گھڑے کے نبیذ کے بارے میں سوال کرنے کے لیے آئی۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما نے جواب دیا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا تو آپؐ نے پوچھا یہ وفد کون ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: ربیعہ فرمایا قوم یا وفد کو خوش آمدید! جسے رسوائی ذلت اور شرمندگی و ندامت نہیں اٹھانی پڑی۔ ان لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ!... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:116]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أُتَرْجِمُ:
میں ترجمانی کرتا تھا،
ایک کی بات دوسرے کو سمجھانا،
ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا۔
(2)
نَبِيْذ:
انگور یا کھجوروں کو پانی میں بھگونا،
تاکہ جب ان کا اثر پانی میں منتقل ہو جائے تو اس کو پی لیا جائے۔
اگر اس میں سکر (نشہ)
پیدا ہو جائے،
تو پھر اس کا پینا جائز نہیں ہو گا۔
(3)
جَرٌّ:
جَرَّةٌ کی جمع ہے،
مٹکا،
گھڑا۔
(4)
مَرْحَبا:
رَحْب دوست،
کشادگی سے ماخوذ ہے،
کسی کی آمد پر مسرت و خوشی کا اظہار کرنا،
اس کو خوش آمدید کہنا۔
(5)
خَزَايَا:
خَزْيَان کی جمع ہے،
رسوا ذلیل۔
(6)
نَدَامَي:
نَدمان کی جمع ہے جو نادم شرمندہ،
پشیمان کے معنی میں ہے۔
(7)
شُقَّة:
شین کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ،
ضمہ (پیش)
کے ساتھ بہتر ہے،
دور کی یا طویل مسافت۔
فوائد ومسائل:
1۔
ایمان باللہ کی تفسیر وتفصیل میں آپ نے پانچ چیزوں کا تذکرہ فرمایا ہے حالانکہ آپ نے چار چیزوں کا حکم دینے کا کہا تھا اس کا جواب یہ ہے:
(1)
آپ (ﷺ) نے چار چیزوں کے لیے کہا تھا،
لیکن ربیعہ کا مضری کا فروں سے مقابلہ تھا،
اس لیے ان سے جہاد کا امکان تھا اور جہاد میں دشمن پر غلبہ وفتح کی صورت میں ما ل غنیمت حاصل ہو سکتا ہے،
اس لیے اسلوب کلام بدلتے ہوئے موقعہ محل کی مناسبت سے انہیں غنیمت کا حکم بھی بتا دیا،
اور اس کا انہیں خصوصی مخاطب بنایا (أن تودوا،
تم ادا کرو)
- (ب)
ادائے خمس،
زکاۃ ہی کا ایک شعبہ یا حصہ ہے،
الگ یا مستقل نہیں،
اس لیے زکاۃ ہی میں داخل ہوگا۔
(ج)
ادائے خمس کا عطف ایمان باللہ یا لفظ صلاۃ،
صوم اور زکاۃ پر نہیں ہے بلکہ امرکم باربع پر ہے کہ چار چیزوں کے حکم کے ساتھ جو عام ہیں سب کےلیے ہیں)
تمہیں خصوصی طور پر ادائے خمس کا حکم دیتا ہوں۔
چار برتنوں میں خصوصی طور پر نبیذ تیار کرنے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ لوگ ان برتنوں میں شراب تیار کرتے تھے اور ان میں نشہ جلد پیدا ہو جاتا تھا،
اس لیے شراب کی حرمت کے بعد ان میں نبیذ تیار کرنے سے منع کر دیا گیا،
تاکہ ان برتنوں کو دیکھ کر شراب کا خیال نہ آئے اور بے خبری یاغفلت وسستی سے غیر شعوری طور پر نبیذ میں نشہ پیدا ہو جانے کے بعد اس کو پی نہ لیا جائے لیکن جب شراب کی حرمت پر ایک عرصہ گزر گیا اور اس سے نفرت دلوں میں راسخ ہوگئی تو پھر ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت دے دی گئی اور بتا دیا گیا کہ اس کو نشہ آور ہونے کے بعدنہ پینا جیسا کہ آگے حضرت بریدہ کی حدیث ارہی ہے،
ابن عمر،
ابن عباس رضی اللہ عنہم اور امام مالک ؒ،
امام احمد ؒ،
اسحاق ؒ کے نزدیک ان میں نبیذ بنانے کی حرمت اب بھی موجود ہے۔
(شرح مسلم: 1/34)
لیکن ان کی یہ بات درست نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 116
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:53
53. حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ وہ مجھے خاص اپنے تخت پر بٹھاتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے: تم میرے پاس کچھ روز اقامت کرو، میں تمہارے لیے اپنے مال میں سے کچھ حصہ مقرر کر دوں گا۔ تو میں ان کے ہاں دو ماہ تک اقامت پذیر رہا۔ پھر انہوں نے فرمایا: جب وفد عبدالقیس نبیﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ کون لوگ ہیں یا کون سے نمائندے ہیں؟“ انہوں نے کہا: ہم خاندان ربیعہ کے لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم آرام کی جگہ آئے ہو، نہ ذلیل ہو گے اور نہ شرمندہ!“ پھر ان لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم ماہ حرام کے علاوہ دوسرے دنوں میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ رہتا ہے، لہٰذا آپ خلاصے کے طور پر ہمیں کوئی ایسی بات بتا دیں کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس کی اطلاع کر دیں اور ہم سب اس (پر عمل کرنے) سے جنت میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:53]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ہےکہ جو اشیاء اجزا ئے ایمان ہیں، ان کے لیے ضروری نہیں کہ ان کا تعلق ایمان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو کیونکہ ادائے خمس ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق مستقل نہیں بلکہ جب مال غنیمت ہو گا تو اس سے خمس ادا کرنے کی ضرورت پڑے گی، نیز حدیث وفد عبدالقیس میں ایمان کے متعلق جو اجزاء بیان ہوئے ہیں ان پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جستہ جستہ عنوان قائم کر چکے ہیں، صرف ادائے خمس باقی تھا جس پر اب عنوان قائم کیا ہے۔
2۔
اس حدیث میں کچھ مامورات ہیں اور کچھ منہیات ہیں۔
مامورات کے متعلق اجمالاً چار چیزوں کا حکم ہے لیکن شمار کرنے میں پانچ ہیں یعنی شہادت،نماز، زکاۃ، روزہ اور ادائے خمس، دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار چیزوں کا حکم دیا اور چار ہی سے منع فرمایا اور ان دونوں کے دو دو درجے قائم کیے، ایک اجمال کا دوسرا تفصیل کا، امر کے سلسلے میں اجمال کا درجہ شہادت ہے جس کی تفصیل میں چار امر ذکر کیے گئے اور (نَهی)
کے سلسلے میں اجمال یہ ہے کہ آپ نے مسکرات سے منع فرمایا ہے۔
اس کی تفصیل میں ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا:
جن میں شراب کشید کی جاتی تھی یا ان میں اسے محفوظ کیا جاتا تھا۔
3۔
حدیث جبرائیل میں جو چیزیں اسلام کے متعلق بیان فرمائیں وہی چیزیں حدیث عبد القیس میں ایمان کے متعلق ذکر کیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں اسلام اور ایمان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور یہ سب چیزیں داخل ایمان ہیں ان کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔
مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی جزو ایمان ہے۔
اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو ایمان و تصدیق کے بعد اعمال کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔
4۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابو جمرہ کو اپنے ہاں قیام کرنے کی پیش کش فرمائی، پھرانھیں وظیفہ دینے کا وعدہ فرمایا، اس اعزاز واکرام کی چند ایک وجوہات تھیں:
(1)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بصرے کے گورنر تھے اور ان کے پاس ہر قسم کے مقدمات آتے تھے۔
انھیں اس سلسلے میں فارسی زبان میں سماعت کی بھی ضرورت رہتی تھی۔
حضرت ابو جمرہ فارسی جانتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان سے ترجمان کا کام لینا چاہتے تھے۔
(2)
خود ابو جمرہ بیان کرتے ہیں کہ اس شفقت و مہربانی کی وجہ ایک خواب تھا، فرماتے ہیں کہ میں نے حج تمتع کا احرام باندھا، لوگوں نے اعتراض کیا تو میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فتوی دریافت کیا۔
آپ نے فرمایا کہ درست ہے، پھر میں نے خواب میں یہ آواز سنی کہ حج مبرور اور عمرہ مقبول۔
میں نے اس کا تذکرہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تو آپ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
اس بنا پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے ہاں اقامت اور وظیفےکی پیش کش فرمائی۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1587)
5۔
قبیلہ عبدالقیس بحرین میں آباد تھا۔
وہاں منقذ بن حبان کے ذریعے سے اسلام پہنچا جو بحرین سے مدینہ منورہ بغرض تجارت کپڑا لائے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے۔
بحرین اور اہل بحرین کے حالات دریافت کیے۔
آپ نے اسلام پیش کیا، وہ مسلمان ہوگئے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورۃ فاتحہ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ سیکھیں اور آپ نے قبیلہ عبد القیس کے نام ایک خط بھی دیا گھر واپس پہنچے چند دن ایمان کو چھپائے رکھا نماز کا وقت ہوتا تو گھر میں پڑھ لیتے، ان کی بیوی نے اپنے باپ منذر بن عائذ الاشج سے ان کا ذکر کیا، جب سسر نے اپنے داماد سے حقیقت حال دریافت کی تو پوری داستان سنا دی۔
یہ بھی مسلمان ہوگئے۔
پھر ان کی تبلیغ سے ایک جماعت نے اسلام قبول کر لیا اور 6 ہجری میں بارہ حضرات کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔
پھر 8 ہجری میں چالیس افراد پر مشتمل دوسرا وفد حاضر ہوا جن کا واقعہ متعلقہ حدیث میں مذکورہے۔
(فتح الباري: 173/1)
مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں شروع کیا گیا جو بحرین میں واقع تھا اور یہ مسجد عبدالقیس ہی میں شروع ہوا تھا۔
(صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 892)
6۔
حرمت والے مہینوں سے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں۔
کفار ان کی بے حد تعظیم کرتے تھے اور ان مہینوں میں کسی دوسرے پر دست درازی کرنے سے باز رہتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہنا اور خندہ پیشانی سے ملنا اسلامی ادب ہے نیز ایک مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایمان و علم کی باتوں کو اپنے سینے میں محفوظ کرکے اسے دوسروں تک پہنچائے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 87)
7۔
جن برتنوں میں شراب سازی منع تھی وہ یہ ہیں:
حنتم:
”سبز مٹکا“ دُبا:
”کدو کو اندر سے صاف کر کے پیالہ سا بنا لیا جاتا تھا۔
“نقیر:
”لکڑی کے کھودے ہوئے لگن“ مزفت:
”تار کول سے روغن کیے ہوئے برتن۔
“ یہ امتناعی حکم پہلے پہلے تھا، بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا۔
فرمان نبوی ہے:
”میں نے تمھیں مخصوص برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا۔
اب تم ہر برتن میں نبیذ بنا سکتے ہو، لیکن نشہ آور سے اجتناب کرنا ہے۔
“ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207 (977بعد 1999)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 53
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:87
87. حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا: ”کون سا وفد ہے یا یہ کون لوگ ہیں؟“ انہوں نے کہا: ربیعہ خاندان سے۔ آپ نے قوم یا وفد کو کہا: ”خوش آمدید، نہ رسوا ہوئے اور نہ ندامت ہی کی کوئی بات ہے۔“ انہوں نے عرض کیا: ہم بہت دور دراز کی مسافت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ حائل ہے، اس لیے ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے، لہذا آپ ہمیں کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس سے مطلع کر دیں اور اس کے سبب ہم جنت میں داخل ہو جائیں۔ آپ نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:87]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ تعلیم کو اپنی ذات کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے دو حدیثیں بیان فرمائی ہیں:
ایک حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تقریباً بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا جب ہم نے کہا ہم گھر جاناچاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا:
”جاؤ،اپنے گھر والوں کونماز کی تعلیم دو، نیزاس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
“ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 631)
دوسری حدیث وفد عبدالقیس والی ہے جس کی تفصیلات پہلے بھی حدیث: 53 کے تحت گزر چکی ہیں۔
آپ نے مامورات اور منہیات کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا کہ ایمان کی باتوں کو اچھی طرح یاد رکھیں اور انھیں اپنے پس ماندگان تک پہنچا دیں۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سازی کے چار برتنوں کے استعمال سے انھیں منع فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے:
دباء:
کدو سے تیارکردہ پیالے۔
حنتم:
بڑے بڑے مٹکے۔
مزفت:
تارکول سے رنگے ہوئے روغنی برتن۔
نقیر:
لکڑی سے تراشے ہوئے لگن۔
حدیث میں تین برتنوں کا ذکر ہوا ہے، اس لیے شعبہ کا بیان ہے کہ ابو جمرہ کبھی کبھی ان کے ساتھ نقیر کا بھی ذکر کرتے تھے۔
مزید وضاحت فرمائی کہ ابوجمرہ کبھی لفظ مزفت استعمال کرتے اور کبھی اس کے بجائے مقیر کہتے۔
دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دونوں الفاظ ترک کردیے ہوں۔
ایسا صرف نقیر میں ہوا کہ کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔
3۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغ کے لیے پورا عالم دین ہونا ضروری نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو تبلیغ کا حکم دیا تھا وہ تمام دینی باتوں سے واقف نہ تھے بلکہ انھیں صرف چار باتوں کا حکم دیا تھا اور چار ہی باتوں سےمنع کیا تھا۔
ایک حدیث میں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔
خواہ وہ ایک قرآنی آیت ہی ہو۔
اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید آیات قرآنی ہی کی تبلیغ مقصود ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی تردید کی اور فرمایا کہ ہر چیز کی تبلیغ کرو، خواہ قرآنی آیت ہو یا حدیث نبوی۔
4۔
واضح رہے کہ جن برتنوں کے استعمال کےمتعلق یہاں پابندی کا ذکر ہے، اسے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا تھا۔
(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207(977)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 87
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:523
523. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے عرض کیا: ہمارا تعلق ربیعہ قبیلے سے ہے اور ہم آپ ﷺ کے ہاں صرف حرمت والے مہینوں میں حاضری دے سکتے ہیں، اس لیے آپ ہمیں ایسی باتوں کی تلقین کریں جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے باقی ماندہ لوگوں کو بھی دعوت دیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا۔۔۔ پھر اس کی وضاحت فرمائی۔۔ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، نیز نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ مجھے ادا کرنا۔ اور میں دباء، حنتم، مقيراورنقير کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:523]
حدیث حاشیہ:
(1)
باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آیت مبارکہ میں نفئ شرک کو اقامتِ صلاۃ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور مذکورہ حدیث میں توحید اور اقامت صلاۃ کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے، ایمان اور ترک شرک ایک ہی چیز ہے۔
(عمدة القاري: 9/4) (2)
عرب کے دو خاندان ربیعہ اور مضر دور جاہلیت ہی سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آرہے تھے۔
ظہور اسلام کے بعد ربیعہ قبیلہ مسلمان ہوگیا۔
انھیں مدینہ طیبہ آنے کے لیے مضر قبیلے کے پاس سے ہو کرگزرنا پڑتا تھا۔
خونریزی اور باہمی جنگ وقتال سے بچنے کے لیےوہ صرف حرمت والے مہینوں میں ہی سفر کرسکتے تھے، کیونکہ ان کااحترام تمام اہل عرب کرتے تھے۔
حدیث میں وفد عبدالقیس نے اپنی اسی مجبوری کا ذکر کیا ہے۔
(3)
عرب لوگ شراب کے رسیا تھے اور شراب کے لیے مندرجہ ذیل برتنوں کو استعمال کرتے تھے:
٭دباء:
خشک کدو، جسے صاف کرکے بطور برتن استعمال کیا جاتا تھا۔
٭حنتم:
سرخی مائل سبز رنگ کا روغنی مرتبان۔
٭ مقير:
تار کول سے روغن کیا ہوا برتن۔
٭نقير:
کھجور کے تنے کوکرید کر تیار کردہ ایک برتن۔
ان برتنوں میں شراب رکھنے سےاس کا نشہ دوآتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتا۔
جب شراب کو حرام کردیا گیا تو سد ذرائع کے طور پران برتنوں کا استعمال بھی ممنوع کردیا۔
جسےبعد میں منسوخ کردیا کہ ان برتنوں کے استعمال میں اب کوئی حرج نہیں۔
(4)
حدیث میں ہے کہ جس نے دانستہ نماز ترک کردی وہ کافر ہوگیا۔
(صحیح الترغیب والترھیب، الصلاة، حدیث: 575)
امام بخاری ؒ آیت کریمہ اور حدیث مذکور سے اس کے معنی متعین کرنا چاہتے ہیں کہ ترک صلاۃ سے انسان حقیقی کافر نہیں بن جاتا بلکہ اس شخص نے کافروں جیسا طرز عمل اختیار کرلیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اس رویے پر غور کرے۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 523
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3095
3095. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب وفد عبدالقیس آیا توانھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!ہم اس ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر حائل ہیں۔ ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کے پاس حاضر نہیں ہوسکتے۔ ہمیں کوئی ایسا(جامع) حکم بتادیں جس پر ہم بھی عمل کریں اور اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میں تمھیں چارچیزوں کاحکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی گواہی دی جائے۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک گرہ لگائی(کہ ایک تو یہ ہے اور باقی یہ ہیں:)۔۔۔ نماز پڑھنا، زکاۃ ادا کرنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جو تم مال غنیمت حاصل کرو اس سے خمس اداکرنا اورتمھیں کدو، فقیر، حنتم اورمزفت میں نبیذ بنانے سے منع کرتا ہوں۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:3095]
حدیث حاشیہ:
1۔
(الدباء)
کدو کو کرید کر برتن بنانا (نقير)
کھجور کی لکڑی کو کرید کر برتن بنانا(حنتم)
سبز مٹکا اور (مزفت)
اس برتن کو کہتے ہیں جسے تارکول سے پالش کیا گیا ہو۔
ان برتنوں میں بہت جلد نشہ پیدا ہو جاتا تھا اور یہ عرب میں خصوصی طور پر شراب کے لیے ہی استعمال ہوتے تھے اس لیے شروع شروع میں نبی ﷺ نے ان برتنوں سے بھی منع کردیا تاکہ شراب کا خیال بھی نہ آئے اور نبیذ کے استعمال میں اگر تھوڑی بہت دیر ہوجائے تو نشہ پیدا نہ ہو۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ترک شراب کی عادت پختہ ہو گئی تو آپ نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی۔
2۔
امام بخاری ؒ نے کتاب الایمان (باب نمبر: 40)
میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے۔
(باب أداء الخمس من الإيمان)
”خمس کا ادا کرنا ایمان کا حصہ ہے۔
“ دراصل امام بخاری ؒ ایمان میں کمی بیشی کے قائل ہیں اور دلیل کے طور پر وہاں یہ عنوان قائم تھا اس مقام پر خمس کی اہمیت بتانا مقصود ہے کہ خمس کا ادا کرنا دین اسلام کا حصہ ہے اگر اسے ادا نہ کیا جائے تو دین اسلام ناقص رہتا ہے۔
3۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک ایمان دین اسلام باہم مترادف ہیں اور انھیں ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3095
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3510
3510. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ قبیلہ عبد قیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر حائل ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں ہی میں آسکتے ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ آپ ہمیں فیصلہ کن باتیں بتائیں جن پر ہم خود بھی مضبوطی سے قائم رہیں اور جو لوگ ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں انھیں بھی بتا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں چار چیزوں کاحکم دیتا ہوں اور چار کاموں سے منع کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور جو کچھ بھی تمھیں مال غنیمت ملے اس میں سے اللہ کے لیے پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمھیں کدو کے برتن، سبز مٹکے، لکڑی کرید کر بنائے ہوئے برتنوں اور تارکول شدہ برتنوں (میں نبیذ بنانے) سے منع کرتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3510]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے کئی مرتبہ بیان ہوچکی ہے۔
اس مقام پر لانے کا مقصد یہ ہے کہ عرب کے لوگ قبیلہ ربیعہ کی شاخ ہیں یا قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ دونوں قبیلے حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد سے ہیں۔
وفد عبد قیس کی آمد کے وقت مضر قبیلہ مسلمان نہیں ہواتھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت دی اور مسلمان ہوگئے۔
الغرض آپ کی زندگی میں یہ دونوں مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3510
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4368
4368. حضرت ابو جمرہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا: میرا ایک مٹکا ہے جس میں میرے لیے نبیذ، یعنی کھجور کا شربت تیار کیا جاتا ہے۔ میں اسے میٹھا کر کے پیتا رہتا ہوں۔ اگر میں س سے زیادہ پی لوں اور قوم میں دیر تک بیٹھا رہوں تو مجھے خطرہ رہتا ہے کہ مبادا رسوا ہو جاؤں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”قوم کا آنا مبارک ہو، رسوا اور شرمندہ ہو کر نہیں آئے۔“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے مشرک رہتے ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس حرمت والے مہینوں کے سوا نہیں آ سکتے۔ آپ ہمیں دین کے معاملے میں مختصر مگر جامع احکام بتائیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم جنت میں داخل ہو سکیں اور اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی ان کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4368]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابو جمرہ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک مٹکے میں کھجور کا نبیذ بناتا ہوں اور اسے پیتا ہوں اور پیتے وقت اس سے نشہ نہیں آتا البتہ زیادہ پینا دیر تک بیٹھنا نشے کا باعث بن سکتا ہے جس سے مجھے یہ خطرہ رہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے رسوانہ ہو جاؤں۔
2۔
حضرت ابن عباس ؓ کی غرض اس استدلال سے یہ ہے کہ ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی ممانعت اس وجہ سے تھیں کہ ان برتنوں میں نشہ جلدی آجانے کا گمان تھا اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے، اس بنا پر ایسے برتنوں میں نبیذ بنایا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان میں جلدی نشہ پیدا ہو جائے۔
3۔
امام بخاری ؒ کا مقصد وفد عبدالقیس کی آمد کو ثابت کرنا ہے لیکن وہ دو مرتبہ حاضر ہوئے ہیں پہلی حاضری کے موقع پر کفار مضر حائل ہوئے تھے یا انھوں نے حائل ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا وفود کے سال جب اس قبیلے کی حاضری ہوئی تو انھیں کوئی رکاوٹ نہ تھی کیونکہ اس وقت مکہ فتح ہونے کی وجہ سے کفر کا زور ٹوٹ چکا تھا۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ حدیث کے تحت بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4368
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4369
4369. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر رہتے ہیں۔ ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کے پاس نہیں سکتے، لہذا آپ ہمیں چند ایسے امور کا حکم دیں جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے پیچھے جو لوگ ہیں ان کو دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے تمہیں منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس کے بعد آپ نے ایک گرہ لگائی۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، نیز تم مالِ غنیمت سے اللہ کے لیے خمس ادا کرو۔ اور میں تمہیں کدو کے برتن، لکڑی کو کرید کر بنائے گئے برتن، سنز مٹکوں اور تارکول کے برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کرتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4369]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں وفد عبدالقیس کی پہلی حاضری کا ذکر ہے۔
اس آمد کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حیان سامان تجارت لے کت مدینہ طیبہ آیا جایا کرتا تھا۔
وہ جب رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ ہجرت کے بعد پہلی بار ادھر آیا تو اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہو گیا۔
آخر کار رسول اللہ ﷺ کا ایک خط لے کر اپنی قوم کے پاس گیا تو انھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
پھر ان کے تیرہ یا چودہ افراد پر مشتمل ایک وفد حرمت والے مہینے میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا۔
اس دفعہ انھوں نے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا اس وفد کا سربراہ اشج تھا جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:
”تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔
ان میں سے ایک دور اندیشی اور دوسری بردباری ہے۔
“ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 117(17)
2۔
دوسری بار اس قبیلے کا وفد وفود والے سال آیا تھا۔
اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جار دو عبدی تھا جو عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں دیکھ کر فرمایا:
”مجھے تمھارے چہروں کی رنگت تبدیل شدہ معلوم ہوتی ہے۔
“ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان: 178/16)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ انھیں پہلے دیکھ چکے تھے۔
(فتح الباري: 107/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4369
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6176
6176. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کے پا آیا تو آپ نے انہیں فرمایا: ”مرحبا! تمہیں یہاں کسی قسم کی رسوائی یا ندامت نہیں ہوگی۔“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم قبیلہ ربیعہ کے لوگ ہیں ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کفار ہیں لہذا ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینے میں آ سکتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایسی فیصلہ کن بات بتائیں جس پر عمل کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور جو لوگ نہیں آسکے ہم انہیں بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”چار (امور کا تمہیں حکم دیتا ہوں) اور چار (سے روکتا ہوں): نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور کدو، سفید مٹکوں لکڑی کرید کر بنائے ہوئے برتنوں اور روغنی مرتبانوں میں کچھ نہ کھاؤ پیو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6176]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کی آمد کے موقع پر انہیں خوش آمدید کہا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی مہمان یا معزز وفد آئے تو استقبال کے طور پر انہیں مرحبا کہنا چاہیے تاکہ انہیں اجنبیت کے بجائے اپنائیت کا احساس ہو اور وہ بے تکلفی کے انداز میں اپنا ما فی الضمیر ظاہر کر سکیں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
اسلام ایک زندہ مذہب ہے، لہذا جو لوگ اسے اختیار کرتے ہیں، انہیں دوسروں سے خندہ پیشانی کا برتاؤ کرنا چاہیے۔
اپنے قول و کردار سے ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے جس سے دوسروں کو نفرت ہو اور وہ اسلام اور اہل اسلام کے قریب آنے سے ہچکچاہٹ محسوس کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6176
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7266
7266. سیدنا ابو حمزہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدناابن عباس ؓ مجھے خاص اپنے تخت پر بٹھا لیتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے فرمایا: ”یہ کس قوم کا وفد ہے؟“ انہوں نے کہا: قبیلہ ربیعہ (کی ایک شاخ) کا۔ آپ نے فرمایا: ”کسی قسم کی رسوائی یا شرمندگی اٹھائے بغیر اس وفد کو مبارک ہو۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضرہیں۔ لہذا آپ ہمیں ایسی باتیں بتائیں جن پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔ پھر انہوں نے مشروبات کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں چار چیزوں سے منع فرمایا اور چار چیزوں کو بجا لانے کا حکم دیا۔پہلے آپ نے اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا۔پھر پوچھا: ”تمہیں علم ہے کہ ایمان باللہ کیا چیز ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نےفرمایا ”:یہ گواہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7266]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جن برتنوں سے منع فرمایا اس وقت ان میں شراب بنائی جاتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا تاکہ انھیں دیکھ کر شراب نوشی کا جذبہ تازہ نہ ہو جائے اور ان میں شراب کے اثرات بھی ختم ہو جائیں پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی کیونکہ ان کے خطرات ختم ہو چکے تھے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے خیر واحد کی حجیت کو ثابت فرمایا ہے۔
ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پابند فرمایا کہ یہ احکام تم نے اپنی پیچھے رہنے والی قوم کو پہنچانے ہیں۔
یہ حکم عام ہے ایک آدمی بھی یہ باتیں دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7266
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7556
7556. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور انہوں نے کہا: ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے مشرکین حائل ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں میں آسکتے ہیں۔ آپ ہمیں کچھ جامع احکام بتا دیں، ہم جن پر عمل پیرا ہوکر جنت میں چلے جائیں، نیز ان احکام کی طرف ان لوگوں کو دعوت دین جو ہمارے پیچھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں: میں تمہیں ایمان باللہ کا حکم دیتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے کہ ایمان باللہ کیا ہے؟ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود برحق نہیں، نیز نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور غنیمت میں سے پانچواں حصہ دینے کا حکم دیتا ہوں۔ اور تمہیں چار کاموں سے روکتا ہوں: ”کدو کے برتن، لکڑی کے برتن، تارکول کیے ہوئے برتن اور سبز مٹکوں میں نبیذ بنا کر اسے مست نوش کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7556]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ہے کہ وفد عبدالقیس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ ہمیں ایسے جامع احکام سے آگاہ کریں جن پر ہم ایمان لا کر جنت کے حق دار بن جائیں یہ اعمال جن کی وجہ سے وہ جنت میں جائیں گے۔
وہ ان کے افعال ہیں ان کی طرف ہی درحقیقت ان کی نسبت ہوگی کیونکہ وہ انھیں اپنے ارادے اور اختیار کرنے والے ہیں حالانکہ ان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے وہی انھیں اور ان کے اعمال کو پیدا کرنے والا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ:
"خلق أفعال العباد" میں ایک حدیث لائے ہیں۔
”اللہ تعالیٰ ہی ہر کار یگر اور اس کی کاری گری کو پیدا کرنے والا ہے۔
“ (خلق أفعال العباد، ص: 41)
بندوں کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اس کی مشیت کے تحت رونما ہوتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7556