انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اور انصار سے نفرت نفاق کی نشانی ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5022]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5022
اردو حاشہ: ”نشانی ہے“ لیکن یہ تب ہے جب انصار سے محبت یا بغض ان کے انصار (مدد گار نبی) ہونے کی وجہ سے ہو۔ اگر کسی تعلق کی وجہ سے محبت ہو یا کسی جھگڑے کی بنا پر ان سے ناراضی ہوتو وہ اس حدیث کے تحت داخل نہیں کیونکہ ان کا نام انصار، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نصرت کی بنا پر رکھا گیا ورنہ تو وہ اوس اور خزرج تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5022
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 17
´انصار کی محبت ایمان کی نشانی` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]
� تشریح: امام عالی مقام نے یہاں بھی مرجیہ کی تردید کے لیے اس روایت کونقل فرمایا ہے۔ انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کی امداد و اعانت کے صلہ میں دیا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مدینہ آ گئی تو اس وقت مدینہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگر اہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجا انصار و مہاجرین کا ذکر خیر ہوا ہے اور «رضي الله عنهم ورضوا عنه» سے ان کو یاد کیا گیا ہے۔
انصار کے مناقب و فضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہو گا۔ ان کے باہمی جنگ و جدال کے متعلق علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وانماكان حالهم فى ذلك حال المجتهدين فى الاحكام للمصيب اجران وللمخطي اجرواحد والله اعلم» یعنی اس بارے میں ان کو ان مجتہدین کے حال پر قیاس کیا جائے گا جن کا اجتہاد درست ہو تو ان کو دو گنا ثواب ملتا ہے اور اگر ان سے خطا ہو جائے تو بھی وہ ایک ثواب سے محروم نہیں رہتے۔ «المجتهد قديخطي ويصيب» ہمارے لیے یہی بہتر ہو گا کہ اس بارے میں زبان بند رکھتے ہوئے ان سب کو عزت سے یاد کریں۔
انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے بارے میں فرمایا: «لولا الهجرة لكنت امرا من الانصار»[بخاری شریف] اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شہر مدینہ میں ان کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار ہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اس سے بھی انصار کی شان و مرتبت کا اظہار مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 17
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3784
3784. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ایمان کی نشانی انصار سے محبت کرنا اور منافقت کی نشانی ان سے بغض رکھنا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3784]
حدیث حاشیہ: انصار اسلام کے اولین مددگار ہیں اس لحاظ سے ان کا بڑا درجہ ہے پس جو انصار سے محبت رکھے گا اس نے اسلام کی محبت سے نور ایمان حاصل کرلیا اور جس نے ایسے بندگان الٰہی سے بغض رکھا اس نے اسلام سے بغض رکھا اس لیے کہ ایسی بری خصلت نفاق کی علامت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3784
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 235
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”منافق کی نشانی انصار سے بغض ہے اور مومن کی علامت انصار کی محبت ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:235]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جو انسان انصار کی اس حیثیت اور مقام ومرتبہ کو پہچان لیتا ہے کہ انہوں نے دین اسلام کی نصرت وحمایت کی، اس کے غلبہ واشاعت کی سعی وکوشش کی، مسلمانوں کو جگہ اور پناہ دی، دین اسلام کی مہمات کی سر انجام دہی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ نبی اکرم ﷺ سے محبت کی اور آپ کو ان سے محبت وپیار تھا، اپنے جان ومال کو بے دریغ خرچ کیا، اسلام کی خاطر تمام لوگوں سے دشمنی مول لی اور ان سے جنگیں لڑیں، پھر ان باتوں کی بنا پر ان سے بغض ونفرت کا اظہار کرتا ہے تو یہ چیز یقینا کفر ونفاق ہے، اور اگر کسی ذاتی وجہ سے جو ایک جگہ رہنے والوں میں پیدا ہو سکتی ہے، یا کسی اجتہاد اور سیاسی مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے رنجش ونفرت پیدا ہوئی ہے، جیسا کہ بعض صحابہ کرامؓ کےآپ میں اختلاف تھے یا آپ کی وفات کے بعد مہاجرین وانصار میں خلیفہ کے انتخاب کے مسئلہ پر ناراضگی پیدا ہوئی، تو اس قسم کا اختلاف نفاق کی علامت نہیں ہے۔ گویا انصار سے بطوردین کے معاون ومدگار ہونے کےسبب نفرت وبغض ہی نفاق کی علامت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 235
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:17
17. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”ایمان کی نشانی انصار سے محبت رکھنا اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:17]
حدیث حاشیہ: 1۔ انصار، مدینہ منورہ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں پناہ دی اور ایسے وقت میں آپ کا ساتھ دیا جب اورکوئی قوم آپ کی مدد کے لیے تیار نہ تھی۔ اس نازک وقت میں اگر اہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے کھڑے نہ ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا۔ پہلے یہ لوگ بنو قیلہ کے نام سے مشہور تھے۔ دین اسلام اور اہل اسلام کی مدد کرنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لقب انصاررکھا۔ اس حدیث میں انصار سے آپ کے مددگار اور معاون کی حیثیت سے محبت کرنا مراد ہے، شخصی طور پر کسی سے اختلاف اورجھگڑا اس محبت کے منافی نہیں ہے۔ 2۔ مہاجرین نے اسلام کے لیے اپنے مالوف وطن کو قربان کیا، اموال واملاک کی پروانہ کی اور تمام آرائش وآسائش سے روگردانی کی۔ خود ہجرت کی اتنی فضیلت ہے کہ دوسری کوئی فضیلت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ہجرت(کی فضیلت) نہ ہوتی تو میں اپنا شمار انصار میں کراتا۔ (صحیح البخاري، أخبار الآحاد، حدیث: 7244) اس لیے اتنی قربانیاں دینے والوں کے متعلق تو کوئی بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ان کی محبت میں کوئی ابہام نہیں، البتہ انصار کے متعلق غیریت کاخیال کیا جا سکتا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے، یعنی انصار سے اس اعتبارسے محبت کرنا کہ انھوں نے دین اسلام کی نصرت وتائید کی ہے۔ ایسے حالات میں ان سے وہی محبت رکھ سکتا ہے جسے دین اور صاحب دین سے محبت ہوگی اور اسی طرح ان سے بغض وہی رکھے گا جسے دین اور صاحب دین سے بغض ہوگا۔ واضح رہے کہ انصار سے محبت وبغض کے متعلق ان کی سرفروشانہ خدمات اور شان نصرت کو ضرور ملحوظ رکھا جائے۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ تصدیق قلبی کے ساتھ اس کے اثرات اور دیگر اعمال بھی ضروری ہیں، اخروی نجات کے لیے ان کا ہونا ضروری ہے، ان میں ایک حب انصار بھی ہے۔ اس حدیث سے: (الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ) والی حدیث کی بھی تائید ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انصار کی محبت کو ایمان کا حصہ قراردیا ہے، چنانچہ مناقب انصار میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (آيَةُ الإيمَانِ حُبُّ الأنْصَارِ) ”انصار کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ “ حدیث میں ہے کہ جو انصار سے محبت کرے گا،اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3783)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 17
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3784
3784. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ایمان کی نشانی انصار سے محبت کرنا اور منافقت کی نشانی ان سے بغض رکھنا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3784]
حدیث حاشیہ: انصار نے رسول اللہ ﷺ اور مہاجرین کو رہنے کے لیے جگہ دی اور جان و مال سے ان کی مدد کی اس وجہ سے عرب کے دوسرے قبائل ان کے دشمن ہو گئے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان سے بغض رکھنے سے ڈرایا اور ان سے محبت رکھنے کی رغبت دلائی۔ انصار کو جو خصوصیت اور عظمت حاصل ہوئی اس سے دوسروں کے دلوں میں بغض و حسد پیدا ہونا لازمی امر تھا اس لیے آپ نے ان سے محبت کرنے کو جزوایمان ٹھہرایا اور ان سے بغض رکھنے کو نفاق کی علامت قراردیا۔ ویسے تمام صحابہ کرام ؓ اس اعزاز واکرام میں برابر کے شریک ہیں لیکن انصار سے محبت کرنا ان کی ایک نمایاں خصوصیت ہے کیونکہ یہ حضرات اسلام کے اولین مددگار ہیں اس لحاظ سے ان کا بڑا درجہ اور عظم مرتبہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3784