مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 18
´بیعت اسلام`
«. . . أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: " بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ "، فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِك . . .»
”. . . عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (اللہ کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے۔ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]
� تشریح:
اس حدیث کے راوی عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت خزرجی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مکہ آ کر مقام عقبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اہل مدینہ کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بارہ آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیا تھا، یہ ان میں سے ایک ہیں جنگ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں۔ 34 ہجری میں 72 سال کی عمر پا کر انتقال کیا اور رملہ میں دفن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے نو احادیث مروی ہیں۔
انصار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے جب اسلام کی اعانت کے لیے مکہ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو اسی بنا پر ان کا نام انصار ہوا۔ انصار، ناصر کی جمع ہے اور ناصر مددگار کو کہتے ہیں۔ انصار عہد جاہلیت میں بنو قیلہ کے نام سے موسوم تھے۔ «قيله» اس ماں کو کہتے ہیں جو دو قبائل کی جامعہ ہو۔ جن سے اوس اور خزرج ہر دو قبائل مراد ہیں۔ ان ہی کے مجموعہ کو انصار کہا گیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے تحت جب ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل جائے تو آخرت میں اس کے لیے یہ سزا کفارہ بن جاتی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ ہر گناہ کی سزا دے۔ اسی طرح اللہ پر کسی نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں۔ اگر وہ گنہگار کو سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف ہے اور گناہ معاف کر دے تو یہ اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شان بے نیازی ہے اور ثواب عطا فرما دے تو یہ اس کا عین کرم ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب بغیر توبہ کئے مر جائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تو اس کے ایمان کی برکت سے بغیر سزا دئیے جنت میں داخل کرے اور چاہے سزا دے کر پھر جنت میں داخل کرے۔ مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے بارے میں قانون الٰہی یہ ہے «ان الله لايغفران يشرك به الاية» جو شخص شرک پر انتقال کر جائے تو اللہ پاک اسے ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کسی مومن کا خون ناحق بھی نص قرآن سے یہی حکم رکھتا ہے۔ اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جب تک وہ بندے ہی نہ معاف کر دیں، معافی نہیں ملے گی۔
چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یا قطعی دوزخی کہنا جائز نہیں۔
پانچویں بات معلوم ہوئی کہ اگر ایمان دل میں ہے تو محض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگر ایمان قلبی کے لیے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوت ایمان دینا بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں ایمان، اخلاق، حقوق العباد کے وہ بیشتر مسائل آ گئے ہیں۔ جن کو دین و ایمان کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ اس سے صاف واضح ہو گیا کہ نیکی و بدی یقیناً ایمان کی کمی و بیشی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جملہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان احادیث کی روایت سے حضرت امیرالمحدثین کا یہی مقصد ہے۔ پس جو لوگ ایمان میں کمی و بیشی کے قائل نہیں وہ یقینا خطا پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یا ہمیشہ کے لیے دوزخی بتلاتے ہیں۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہماری روایت کے مطابق یہاں لفظ باب بغیر ترجمہ کے ہے اور یہ ترجمہ سابق ہی سے متعلق ہے۔ «ووجه التعلق انه لما ذكرالانصار فى الحديث الاول اشارفي هذا الي ابتداءالسبب فى تلقيهم بالانصار لان اول ذلك كان ليلة العقبة لما توافقوا مع النبى صلى الله عليه وسلم عندعقبة مني فى الموسم كماسياتي شرح ذلك ان شاءالله تعالىٰ فى السيرة النبوية من هذا الكتاب» یعنی اس تعلق کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اول میں انصار کا ذکر کیا گیا تھا یہاں یہ بتلایا گیا کہ یہ لقب ان کو کیونکر ملا۔ اس کی ابتداء اس وقت سے ہوئی جب کہ ان لوگوں نے عقبہ میں منیٰ کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت وامداد کے لیے پورے طور پر وعدہ کیا۔
لفظ «عصابه» کا اطلاق زیادہ سے زیادہ چالیس پر ہو سکتا ہے۔ یہ بیعت اسلام تھی جس میں آپ نے شرک باللہ سے توبہ کرنے کا عہد لیا۔ پھر دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کا اور اولاد کو قتل نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب کہ عرب میں یہ برائیاں عام تھیں۔ بہتان سے بچنے کا بھی وعدہ لیا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو۔ الفاظ «بين ايديكم وارجلكم» میں دل سے کنایہ ہے۔ یعنی دل نے ایک بے حقیقت بات گھڑ لی۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی بات پر عہد لیا کہ ہر نیک کام میں ہمیشہ اطاعت کرنی ہو گی۔ معروف ہر وہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں جانی ہوئی ہو۔ اس کی ضد منکر ہے۔ جو شریعت میں نگاہ نفرت سے دیکھی جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 18
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3892
3892. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ غزوہ بدر میں شرکت کی تھی اور عقبہ کی رات آپ سے عہد وپیمان کیا تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا جب آپ کے پاس صحابہ کی ایک جماعت تھی: ”آؤ مجھ سے اس بات کا عہد کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے نہ زنا کرو گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ کسی پر ایسا بہتان لگاؤ گے جسے تم نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے تراشا ہو، نیز اچھی باتوں میں میری نافرمانی بھی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جس نے اس عہد کو پورا کیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے۔ اور جو کوئی ان میں سے کسی کام کا مرتکب ہوا پھر اسے دنیا میں سزا مل گئی تو وہ سزا اس کے لیے کفارہ ہو گی۔ اور جس نے ان میں سے کوئی کام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3892]
حدیث حاشیہ:
بیعت سے مراد عہد واقرار ہے جو آنحضرت ﷺ اسلام قبول کرنے والوں سے لیا کرتے تھے۔
کبھی آپ اپنے صحابہ سے بھی بطور تجدید عہد بیعت لیتے جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3892
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3999
3999. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، جو غزوہ بدر میں شریک تھے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری بیعت کر لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3999]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ایک بدری صحابی حضرت عبادہ ؓ کا ذکر ہے۔
حدیث اور باب میں یہی مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3999
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4894
4894. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا: ”کیا تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو گے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، نہ زنا کرو گے، نہ چوری کرو گے؟“ پھر آپ نے عورتوں سے (بیعت کے) متعلق آیت پڑھی۔۔ سفیان اکثر طور پر اس حدیث میں یوں کہا کرتے تھے۔۔ پھر آپ نے آیت پڑھی: ”پھر تم میں سے جو شخص اس شرط کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی اور اللہ نے اسے چھپا لیا تو یہ معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور اگر چاہے تو اسے معاف کر دے۔“ (سفیان کے ساتھ) اس حدیث کو عبدالرزاق نے بھی معمر سے روایت کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4894]
حدیث حاشیہ:
یہ نہیں کہا عورتوں کی آیت۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4894
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6801
6801. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے چند لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتا ہوں کہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کرو گے نہ چوری کے مرتکب ہوگے اور نہ اپنی اولاد کو قتل ہی کرو گے اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کسی کے خلاف بہتان نہیں اٹھاؤ گے، نیز بھلے کاموں میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جس نے اپنے اس عہد کو پورا کیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے جو کوئی ان میں کوئی غلطی کر گزرے گا اور دنیا میں اسے سزا دے دی گئی تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ اور اس کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور جس پر اللہ تعالٰی نے پردہ ڈالا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف کردے۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: جب چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے پھر وہ توبہ کرلے تو اس کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6801]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبادہ بن صامت انصاری سالمی نقیب انصار ہیں۔
عقبہ کی دونوں بیعتوں میں شریک ہوئے اور جنگ بدر اور تمام لڑائیوں میں شامل ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام میں قاضی اور معلم بنا کر بھیجا۔
پھر فلسطین میں جا رہے اور بیت المقدس میں 72 سال عمر پا کر34ھ میں انتقال فرمایا۔
رضي اللہ و أرضاہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6801
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6873
6873. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں ان نقیبوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے (عقبہ کی رات) بیعت کی تھی۔ ہم نے آپ ﷺ سے اس امر پر بیعت کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ہم زنا نہیں کریں گے ہم چوری نہیں کریں گے، قتل ناحق نہیں کریں گے جسے اللہ تعالٰی نے حرام قرار دیا ہے۔ ہم لوٹ کھسوٹ نہیں کریں گے اور اگر ہم نے ان کاموں کی پابندی کی تو ہمارے جنت جانے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی اور اگر ہم نے ان امور میں کوتاہی کی تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6873]
حدیث حاشیہ:
جو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6873
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7213
7213. سیدنا عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا جبکہ ہم ایک مجلس میں موجود تھے: تم میری اس شرط پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے۔ چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے، کسی پر ایسا کوئی بہتان نہیں لگاؤ گے جو تم نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے گھڑا ہوگا اور اچھے کاموں میں نافرمانی نہیں کروگے۔ تم میں سے جس کسی نہ اس عہد کو پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جس کسی نے اس عہد کو پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جس نے ان کاموں میں سے کسی کا ارتکاب کیا اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو یہ کسی کا ارتکاب کیا اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ اور جس نے ان میں سے کوئی برا کام کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈالا تو اس کا معاملہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7213]
حدیث حاشیہ:
بیعت اقرار کو کہتے ہیں جو خلیفہ اسلام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کیا جائے یا پھر کسی نیک صالح انسان کے ہاتھ پر ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7213
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7468
7468. سیدنا عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: میں نے ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی۔ آپ نے بیعت لیتے وقت فرمایا: میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے۔ چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ کس پر بہتان ہی باندھو گے جو تم نے خود تیار کیا ہو، اور نہ ہو کسی ہر بہتان ہی باندھو گے جو تم نے خود تیار کیا ہو، نیکی کے کاموں میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ جس نے یہ عہد پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جس نے یہ عہد پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جس نے لغزش کی اور اسے دنیا ہی میں پکڑ لیا گیا تو یہ (حد) اس کے لیے گناہوں کا کفارہ اور پاکیزگی کا ذریعہ ہوگی اور جس پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالا تو وہ اللہ کے حوالے ہے، وہ اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7468]
حدیث حاشیہ:
مشیت ایزدی پر معاملہ ہے حدیث کا یہی اشارہ ہے اور باب سے یہی تعلق ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7468
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4166
´جہاد پر بیعت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اور اس وقت آپ کے اردگرد صحابہ کی ایک جماعت تھی): ”تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کرو گے، اور اپنی طرف سے گھڑ کر کسی پر بہتان نہیں لگاؤ گے، کسی معروف (بھلی بات) میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ (بیعت کے بعد) جو ان باتوں کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، تم میں سے کسی نے کوئی غلطی کی ۱۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4166]
اردو حاشہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ جس بیعت پر دلالت کرتی ہے وہ بیعت اسلام ہے جو رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ خاص تھی‘ اب کسی سے یہ بیعت لینا جائز نہیں کیونکہ رسول اﷲ ﷺ کے بعد کسی سے یہ بیعت لینا منقول نہیں ہے۔ اس سے بیعت تصوف کا فلسفہ کشید کرنا قطعی طور پر غلط اور ناجائز ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص پر دنیا میں اس کے جرم کی حد قائم ہوجائے (اسے اپنے جرم کی شرعی سزامل جائے) تو یہ سزا اس مجرم کے لیے کفارہ بن جاتی ہے۔ جمہور اہل علم کا بھی یہی قول ہے‘ البتہ بعض اہل علم اقامت حد کے ساتھ ساتھ، کفارے کے لیے توبہ بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔ لیکن جمہور کا قول ہی قابل حجت اور دلائل کے اعتبار سے مضبوط ہے۔
(3) یہ روایت امام نسائیؒ نے دوستادوں‘ یعنی عبید اﷲ سعد اور احمد بن سعید سے بیان کی ہے۔استاد احمد بن سعید نے اپنی روایت میں امام نسائی ؒکے دوسرے استاد عبید بن سعد کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ جب عبید اﷲ بن سعد یہ روایت بیان کرتے ہیں تو وہ ابن شہاب (امام زہری)اور حضرت عبادہ بن صامتؓ کے درمیان ابوادریس خولانی کا واسطہ ذکر کرتے ہیں اور جب احمد بن سعید یہ روایت بیان کرتے ہیں تو وہ ابو ادریس خولانی کا واسطہ ذکر نہیں کرتے بلکہ ابن شہابؒ حضرت عبادہ بن صامتؓ کاشاگرد بناتے ہیں‘حالانکہ امام زہری(ابن شہاب)نے حضرت عبادہؓ کو نہیں پایا۔اس طرح یہ روایت منقطع بھی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4166
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4167
´جہاد پر بیعت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم مجھ سے ان باتوں پر بیعت نہیں کرو گے جن پر عورتوں نے بیعت کی ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، نہ اپنے بچوں کو قتل کرو گے اور نہ خود سے گھڑ کر بہتان لگاؤ گے، اور نہ کسی معروف (اچھے کام) میں میری نافرمانی کرو گے؟“، ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! چنانچہ ہم نے ان باتوں پر آپ سے بیعت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4167]
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت اور سابقہ روایت متعلقہ باب سے تعلق نہیں رکھتیں کیو نکہ ان میں جہاد کا کوئی ذکر نہیں‘ البتہ اصل باب‘ یعنی بیعت سے مسائل سے تعلق ہے۔ الا یہ کہ کہا جائے کہ”اچھے اور نیکی کے کام“ میں جہاد بھی داخل ہے۔
(2) ”عورتوں نے بیعت کی“جب کوئی عورت مکہ سے ہجرت کرکے آپ کے پاس پہنچتی اور مسلمان ہوتی تو آپ اس سے مندرجہ بالا الفاظ کے ساتھ بیعت لیتے تھے، سورہ ممتحنہ ‘ آیت نمبر:12 میں آپ کو ان الفاظ کے ساتھ عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا تھا مگر یاد رہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے کسی عورت سے معروف بیعت (دست مبارک سے) نہیں لی بلکہ آپ عورتوں سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے۔ ساری زندگی آپ کا دست مبارک کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔
(3) ”کسی اچھے کام میں“ یہ لفظ عرفاََ آگئے ہیں ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کسی برے کام کا حکم دیں۔
(4) ”مٹا دے گی“ معلوم ہوا کہ دنیا میں ملنے والی شرعی سزا گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کی پوچھ گچھ نہیں فرمائے گا۔ احناف کے نزدیک گناہ کی معافی کے لیے توبہ بھی ضروری ہے۔ سزا تو صرف آئندہ روکنے اور عبرت کے لیے ہے لیکن حدیث کے ظاہر الفاظ اس کے خلاف ہیں۔
(5) ”اﷲ تعالیٰ کے سپرد ہے“ پردہ پوشی کے بعد اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے امید یہی ہے کہ معاف فرما دے گا بشرطیکہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا پردہ پوشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سچی توبہ کرے۔ اللهم اجعلنا منهم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4167
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4183
´کافر و مشرک سے ترک تعلق پر بیعت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، آپ نے فرمایا: ”میں تم لوگوں سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، اور نہ اپنے بال بچوں کو قتل کرو گے، نہ ہی من گھڑت کسی طرح کا بہتان لگاؤ گے، کسی بھی نیک کام میں میری خلاف ورزی نہیں کرو گے، تم میں سے جس نے یہ باتیں پوری کیں تو اس کا اجر و ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جس نے اس میں س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4183]
اردو حاشہ:
اس روایت کا متعلقہ باب سے تو کوئی تعلق نہیں، البتہ اصل باب (بیعت) سے تعلق ہے۔ یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے‘ حدیث: 4167)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4183
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4215
´بیعت کی پابندی کرنے والے کے ثواب کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگ مجھ سے بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، پھر آپ نے لوگوں کو (سورۃ الممتحنہ کی) آیت پڑھ کر سنائی“ ۱؎، پھر فرمایا: ”تم میں سے جس نے بیعت کو پورا کیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے، اور جس نے اس میں سے کسی غلط کام کو انجام دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے چھپائے رکھا تو اللہ تعالیٰ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4215]
اردو حاشہ:
(1) ”پوری آیت“ اس سے مراد سورۂ ممتحنہ کی آیت ہے جس میں عورتوں سے مذکورہ بالا دیگر امور پر بیعت لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ آیت عورتوں کے بارے میں ہے اور الفاظ بھی عورتوں والے ہیں۔ ظاہر تو یہی ہے کہ آپ نے مردوں والے الفاظ کے ساتھ پڑھی ہو گی۔ لیکن اگر اصل الفاظ کے ساتھ پڑھی ہو، تب بھی کوئی بعد نہیں کیونکہ مقصد تو امور بیعت کی نشان دہی ہے۔
(2) ”پردہ ڈال دیا“ اس کے گناہ کا کسی کو پتا نہ چلنے دیا۔ گواہ ایسا مہیا نہ ہو سکے جن سے سزا نافذ ہو سکتی ہے۔ یا سزا نہ ملی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4215
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4463
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بھی اس طرح عہد لیا، جس طرح عورتوں سے لیا تھا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو ساجھی قرار نہ دیں، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں، ایک دوسرے پر بہتان اور الزام تراشی نہ کریں، تم میں سے جو اس عہد کا ایفا کرے گا اس کو اللہ کی طرف سے اجر ملے گا اور جس کسی نے قابل حد گناہ کا ارتکاب کیا اور اس پر حد جاری کر دی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4463]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
وَلَا يَعْضَهَ بَعْضُنَا بَعْضًا،
عضه کا معنی ہے،
الزام تراشی،
بہتان باندھنا،
یعنی ہم ایک دوسرے پر افترا نہ باندھیں یا تہمت تراشی نہ کریں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4463
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4464
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں ان فقہاء میں ہوں، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اور انہوں نے بتایا، ہم نے (بعد میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر بیعت کی تھی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، زنا نہیں کریں گے، چوری نہیں کریں گے اور جس شخص کو اللہ نے قتل کرنا حرام ٹھہرایا ہے، ہم اس کو ناحق قتل نہیں کریں گے، ہم ڈاکہ نہیں ڈالیں گے اور ہم نافرمانی کا کام نہیں کریں گے، ہم نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4464]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
نقباء:
نقيب کی جمع ہے،
نگران،
محافظ اور دیکھ بھال کرنے والا۔
یعنی جن بارہ افراد نے عقبہ کی رات بیعت کی تھی،
میں ان میں سے ایک ہوں اور پھر فتح مکہ کے بعد ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان چیزوں پر بھی بیعت کی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4464
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:18
18. حضرت عبادہ بن صامت ؓ کا بیان ہے، اور یہ بدری صحابی اور عقبہ والی رات کے نقباء میں سے ایک نقیب ہیں، رسول اللہ ﷺ نے، جب کہ آپ کے اردگرد صحابہ کی ایک جماعت تھی، فرمایا: ”تم سب مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے۔ اپنے ہاتھ اور پاؤں کے سامنے (دیدہ دانستہ) کسی پر افترا پردازی نہیں کرو گے اور اچھے کاموں میں نافرمانی نہ کرو گے۔ پھر جو کوئی تم میں سے یہ عہد پورا کرے گا، اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان گناہوں میں سے کچھ کر بیٹھے اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل جائے تو اس کا گناہ اتر جائے گا۔ اور جو کوئی ان جرائم میں سے کسی کا ارتکاب کرے، پھر اللہ نے دنیا میں اس کی پردہ پوشی فرمائی تو وہ اللہ کے حوالے ہے کہ چاہے تو (قیامت کے دن) اسے سزا دے یا معاف کر دے۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:18]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ بیعت، بیعت اسلام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے دین اسلام پر کاربند رہنے، ہجرت کرنے، میدان جہاد میں ثابت قدم رہنے، فواحش ومنکرات کو چھوڑنے، سنت پر عمل کرنے اور بدعات ورسوم سے دور رہنے کی بیعت لیتے تھے۔
انصار سے اسی قسم کی بیعت لی گئی اور وہ اس پر کاربند رہنے کی بنا پر انصار کہلانے کے حقدار ٹھہرے۔
اس کے علاوہ بیعت تصوف کا اسلام میں کوئی وجود نہیں، یہ بہت بعد کی پیداوار ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔
”حدود گناہوں کا کفارہ ہیں۔
“ اس کا مطلب یہ ہے کہ حد شرعی قائم ہونے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6784)
قرآن کریم کی بعض آیات میں اس بات کی صراحت ہے کہ حدود میں گناہ کی گندگی کو صاف کردینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
(النساء: 92/4)
اس کے برعکس مستدرک حاکم وغیرہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حدود کا کفارہ بننا معلوم نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وما أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا؟" ”مجھے معلوم نہیں کہ حدود گناہوں کاکفارہ بنتی ہیں یا نہیں؟“(المستدرك للحاكم: 36/1۔
والصحیحة للألباني، حدیث: 2217)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے آپ نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب آپ کو علم نہ ہو اور بعد میں علم ہوگیا ہو کہ حدود کفارہ بن جاتی ہیں تو پھرآپ نے اس کی وضاحت کردی ہوجیسا کہ حدیث باب سے ظاہر ہوتاہے۔
دیکھیے (الصحیحة للألباني: 252/5)
پھر مذکورہ حدیث میں اس شخص سے تقابل کیا گیا ہے جس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، خواہ معاف کردے، خواہ سزادے۔
اس تقابل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو سزا دی گئی وہ بری ہوگیا۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مرجیہ اور خوارج کی تردید کرنا مقصود ہے۔
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اعمال مطلوب ہیں اور ایمان کی کمی بیشی پر اثر انداز ہوتے ہیں، نیز اعمال کی جزئیت اس درجے کی بھی نہیں، جس کا دعویٰ معتزلہ اور خوارج نے کیا کہ گناہ کرنے سے مومن ایمان سے خارج ہوجاتا ہے جبکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خارج نہیں ہوتا بلکہ گناہ کے باوجود بھی مغفرت کا معاملہ اللہ کی مشیت کے تحت رہتا ہے۔
اگر اس کی رحمت دستگیری فرمائے تو مغفرت بھی ہوسکتی ہے واضح رہے کہ مرجیہ کے مقابلے میں معتزلہ اور خوارج کی تردید کم ہے کیونکہ ان کا موقف دنیاوی لحاظ سے چنداں نقصان دہ نہیں۔
ان کے ہاں اعمال کے متعلق بہت شدت پائی جاتی ہے۔
وہ اعمال کو اس لیے ترک نہیں کرتے کہ مبادا اسلام سے خارج ہوجائیں۔
4۔
گناہ کبیرہ کا مرتکب اگرتوبہ کیے بغیر مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے چاہے تو ایمان کی برکت سے سزا دئیے بغیر اسے جنت میں داخل کردے یا سزا دے کر جنت میں پہنچا دے لیکن اس سے شرک مستثنیٰ ہے۔
اس کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا اور مشرک ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا۔
(النساء: 116/4)
واضح رہے کہ کبیرہ گناہوں میں قتل ناحق بھی بہت گھناؤنا جرم ہے۔
قرآن کریم کی رُو سے اس جرم کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔
(النساء: 93/4)
اسی طرح حقوق العباد کا معاملہ بہت سنگین ہے متعدد احادیث کے مطابق حقوق العباد کو جب تک بندے معاف نہیں کریں گے۔
معافی نہیں ہوگی، تاہم اہل سنت کے عقیدے کے مطابق ان دونوں جرموں کی مرتکبین کے لیے جہنم کی سزا دائمی نہیں ہوگی۔
سزا بھگتنے کے بعد بالآخر یہ بھی جنت میں جانے کے مستحق قرارپائیں گے۔
5۔
بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جرم کی سزادے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر کسی نیکی کی جزا دینا بھی ضروری نہیں۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شخص اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ نیکی کابدلہ دے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کا گناہ معاف کرنے یا سزا دینے اورنیکی کا بدلہ دینے کا ضابطہ ایک نہیں ہے۔
گناہوں کےبارے میں اس کا قانون یہ ہے کہ اس کی سزا دے لیکن اپنے فضل واحسان سے معاف کردے گا جبکہ نیکی کےبارے میں اس کا قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ اگرموانع نہ ہوں توضرورقبول فرماتا ہے اور اس کا بدلہ عطا فرماتا ہے۔
یہ اس ذات عالی نے اپنی رحمت سے خوداپنے اوپرلازم کیا ہے کسی انسان نے فرض قرار نہیں دیا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ﴾ ”اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کردے۔
“(البقرة: 143/2)
نیز فرمایا:
﴿فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ”بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
“ (التوبة: 120/9)
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 18
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3892
3892. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ غزوہ بدر میں شرکت کی تھی اور عقبہ کی رات آپ سے عہد وپیمان کیا تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا جب آپ کے پاس صحابہ کی ایک جماعت تھی: ”آؤ مجھ سے اس بات کا عہد کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے نہ زنا کرو گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ کسی پر ایسا بہتان لگاؤ گے جسے تم نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے تراشا ہو، نیز اچھی باتوں میں میری نافرمانی بھی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جس نے اس عہد کو پورا کیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے۔ اور جو کوئی ان میں سے کسی کام کا مرتکب ہوا پھر اسے دنیا میں سزا مل گئی تو وہ سزا اس کے لیے کفارہ ہو گی۔ اور جس نے ان میں سے کوئی کام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3892]
حدیث حاشیہ:
1۔
حدیث میں (لا نقضي بالجنة)
یعنی ہم کسی کے لیے اس کے جنتی ہونے کا قطعی فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔
بعض روایات میں (لا نعصي)
ہے اس کے معنی ہیں کہ ہم جنت کے بدلے میں اللہ کی نا فرمانی نہیں کریں گے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں (لا نعصي)
پر جملہ ختم ہو جائے کہ ہم اللہ کی نا فرمانی نہیں کریں گے یہ مفہوم سورہ صف کی آیت: 12۔
کے مطابق ہے (بالجنة)
کا تعلق (بايعنا)
سے ہوگا یعنی ہم نے جنت کے عوض یہ بیعت کی۔
2۔
بیعت سے مراد وہ عہد و اقرار ہے جورسول اللہ ﷺ اسلام قبول کرنے والوں سے لیا کرتے تھے۔
قرآن کریم میں ہجرت کرنے والی خواتین سے اس قسم کی بیعت لینے کا ذکرہے۔
(فتح الباري: 278/7)
رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو ان کے ساتھ بھیجا۔
انھوں نے حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کے ہاں قیام کیا۔
پھر ان دونوں حضرات کی کوشش سے بہت سے انصار مسلمان ہوئے۔
مدینہ طیبہ میں رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے اسلام نے خوب ترقی کی۔
رسول اللہ ﷺ کے کہنے پر ان حضرات نے ہجرت سے پہلے مدینہ طیبہ میں خطبہ جمعہ کا اہتمام کیا جیسا کہ متعدد احادیث میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3892
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3893
3893. حضرت عبادہ بن صامت ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں ان نقباء میں سے ہوں جنہوں نے (عقبہ کی رات) رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی۔ انہوں نے فرمایا: ہم نے اس شرط پر بیعت کی تھی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، نہ چوری کریں گے اور نہ زنا کے مرتکب ہوں گے، نیز ایسی جان کو قتل نہیں کریں گے جسے اللہ تعالٰی نے حرام ٹھہرایا ہو، لوٹ مارنہیں کریں گے، نیز ہم جنت کے متعلق قطعی فیصلہ نہیں کریں گے۔ اگر ہم نے اسے پورا کیا تو ہمیں جنت ملے گی اور اگر ہم نے ان میں سے کسی کام کی خلاف ورزی کی تو اس کا فیصلہ اللہ پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3893]
حدیث حاشیہ:
1۔
حدیث میں (لا نقضي بالجنة)
یعنی ہم کسی کے لیے اس کے جنتی ہونے کا قطعی فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔
بعض روایات میں (لا نعصي)
ہے اس کے معنی ہیں کہ ہم جنت کے بدلے میں اللہ کی نا فرمانی نہیں کریں گے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں (لا نعصي)
پر جملہ ختم ہو جائے کہ ہم اللہ کی نا فرمانی نہیں کریں گے یہ مفہوم سورہ صف کی آیت: 12۔
کے مطابق ہے (بالجنة)
کا تعلق (بايعنا)
سے ہوگا یعنی ہم نے جنت کے عوض یہ بیعت کی۔
2۔
بیعت سے مراد وہ عہد و اقرار ہے جورسول اللہ ﷺ اسلام قبول کرنے والوں سے لیا کرتے تھے۔
قرآن کریم میں ہجرت کرنے والی خواتین سے اس قسم کی بیعت لینے کا ذکرہے۔
(فتح الباري: 278/7)
رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو ان کے ساتھ بھیجا۔
انھوں نے حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کے ہاں قیام کیا۔
پھر ان دونوں حضرات کی کوشش سے بہت سے انصار مسلمان ہوئے۔
مدینہ طیبہ میں رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے اسلام نے خوب ترقی کی۔
رسول اللہ ﷺ کے کہنے پر ان حضرات نے ہجرت سے پہلے مدینہ طیبہ میں خطبہ جمعہ کا اہتمام کیا جیسا کہ متعدد احادیث میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3893
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3999
3999. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، جو غزوہ بدر میں شریک تھے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری بیعت کر لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3999]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس غرض سے بیان کیا ہے کہ اس میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ کے غزوہ بدرمیں شریک ہونے کا ذکر ہے۔
2۔
یہ حدیث کتاب الایمان میں گزر چکی ہے۔
انھوں نے عقبہ ثانیہ میں رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی تھی اس حدیث میں اسی بیعت کی طرف اشارہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3999
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4894
4894. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا: ”کیا تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو گے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، نہ زنا کرو گے، نہ چوری کرو گے؟“ پھر آپ نے عورتوں سے (بیعت کے) متعلق آیت پڑھی۔۔ سفیان اکثر طور پر اس حدیث میں یوں کہا کرتے تھے۔۔ پھر آپ نے آیت پڑھی: ”پھر تم میں سے جو شخص اس شرط کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی اور اللہ نے اسے چھپا لیا تو یہ معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور اگر چاہے تو اسے معاف کر دے۔“ (سفیان کے ساتھ) اس حدیث کو عبدالرزاق نے بھی معمر سے روایت کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4894]
حدیث حاشیہ:
1۔
بیعت عمل کا سلسلہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود نہیں بلکہ امت کا امیر یا خلیفہ وغیرہ بھی بیعت لے سکتے ہیں۔
لہذا اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے ساتھ معروف کی شرط لگادی ہے۔
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ناممکن تھی کہ آپ معصیت یا غیر معروف کام پر بیعت لیں۔
2۔
اس سلسلے میں آپ نے ایک واضح ہدایت دی ہے۔
”اطاعت صرف بھلائی کے کاموں میں ہے۔
“ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7145)
نیز فرمایا:
”امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا بر حق ہے جب تک اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا حکم نہ دیاجائے۔
جب کسی کو معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ بات سنی جائے اور نہ اس کا کہا مانا جائے۔
“ (صحیح البخاري، الجھاد و السیر، حدیث: 2955)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4894
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6784
6784. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک مجلس میں تھے تو آپ نے فرمایا: ”مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے چوری نہیں کرو گے اور نہ زنا ہی کے مرتکب ہوگے۔ پھر آپ نے پوری آیت پڑھی۔ ”تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہیں اور جس نے ان میں سے کسی جرم کا ارتکاب کیا، پھر اس پر اسے سزا ہوئی تو وہ اس کا کفارہ ہے اور جو شخص ان میں سے کوئی غلطی کر گزرا اور اللہ تعالٰی نے اس پر پردہ ڈالا تو اگر اللہ چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس پر عذاب دے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6784]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں نہیں جانتا کہ حدود کفارہ ہیں؟“ (المستدرك للحاکم: 450/2، حدیث: 3683)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا کہ حدود کفارہ ہیں اور گناہوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہیں۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گناہوں کے ساتھ شرک کے ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اگر مشرک کو دنیا میں سزا مل جائے تو وہ اس کے شرک کا کفارہ ہوگا کیونکہ کفارومشرکین کا دوزخ میں ہمیشہ رہنا یقینی ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے۔
اس بنا پر اس حدیث کے ایک مخصوص معنی ہیں کہ جس مسلمان پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوگی۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیت کریمہ تلاوت فرمائی وہ حسب ذیل ہے:
”اے نبی! جب آپ کے پاس اہل ایمان خواتین اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گی،نہ وہ چوری کریں گی اور نہ وہ زنا کریں گی،نہ وہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی(بے بنیاد اور بلا ثبوت بہتان طرازی نہیں کریں گی)
اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں،یقیناً اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
“ (الممتحنة: 50: 12)
واضح رہے کہ اس حدیث میں بیعت مذکور فتح مکہ کے بعد ہوئے تھی کیونکہ آیت مذکورہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور لیلۂ عقبہ میں جو بیعت ہوئی تھی وہ تنگی وآسانی اور خوشی وپریشانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع واطاعت پر تھی۔
(فتح الباري: 103/12)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6784
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6801
6801. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے چند لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتا ہوں کہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کرو گے نہ چوری کے مرتکب ہوگے اور نہ اپنی اولاد کو قتل ہی کرو گے اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کسی کے خلاف بہتان نہیں اٹھاؤ گے، نیز بھلے کاموں میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جس نے اپنے اس عہد کو پورا کیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے جو کوئی ان میں کوئی غلطی کر گزرے گا اور دنیا میں اسے سزا دے دی گئی تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ اور اس کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور جس پر اللہ تعالٰی نے پردہ ڈالا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف کردے۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: جب چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے پھر وہ توبہ کرلے تو اس کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6801]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کو کسی گناہ کی سزا مل جائے اور اس پر حد قائم ہو جائے تو وہ اس کے جرم کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے، نیز وہ اس گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، جب اس کے ساتھ توبہ بھی کرلی جائے تو سونے پر سہاگا ہے اور اس سے وہ اپنی حالت پر واپس آجائے گا اور فسق کا دھبا بھی اس سے دور ہو جائے گا۔
اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی گواہی بھی قبول ہے۔
(2)
حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنا رجحان بھی بیان کر دیا ہے کہ ہر وہ شخص جسے حد لگائی گئی ہو جب وہ اپنے جرم سے توبہ کرلے تو اس کی گواہی قبول ہوگی۔
(فتح الباري: 132/12)
ڈاکا زنی کی حد بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”یہ کام ان کے لیے دنیا میں ذلت کا باعث ہے اور آخرت میں اس کی پاداش میں بہت بڑے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پھر فرمایا:
مگر جو لوگ توبہ کرلیں پہلے اس سے کہ تم ان پر قابو پاؤ تو جان لوکہ اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
“ (المائدة: 5: 33، 34) (3)
اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔
لیکن یاد رہے کہ توبہ کرنے سے حقوق اللہ تو معاف ہو جائیں گے لیکن حقوق العباد ادا کیے جائیں یا وہ معاف کرا لیے جائیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6801
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6873
6873. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں ان نقیبوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے (عقبہ کی رات) بیعت کی تھی۔ ہم نے آپ ﷺ سے اس امر پر بیعت کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ہم زنا نہیں کریں گے ہم چوری نہیں کریں گے، قتل ناحق نہیں کریں گے جسے اللہ تعالٰی نے حرام قرار دیا ہے۔ ہم لوٹ کھسوٹ نہیں کریں گے اور اگر ہم نے ان کاموں کی پابندی کی تو ہمارے جنت جانے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی اور اگر ہم نے ان امور میں کوتاہی کی تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6873]
حدیث حاشیہ:
حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بیعت سے مراد وہ بیعت ہے جو منیٰ میں عَقَبَہ کی رات ہوئی تھی، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع واطاعت کے متعلق تھی، خواہ ہم پر کیسے حالات ہوں، نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے پس وپیش نہ کریں۔
(صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7199)
اور مذکورہ بیعت فتح مکہ کے دن ہوئی جو پہلی بیعت سے عرصۂ دراز بعد عمل میں آئی۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک روایت کے مطابق راوی نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے حسب ذیل آیت کی تلاوت کی:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4894)
اور یہ آیت صلح حدیبیہ کے دنوں میں نازل ہوئی تھی۔
(فتح الباري: 245/12)
اس آیت کے مطابق آدمیوں سے بیعت لی گئی تھی، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل ناحق نہ کرنے پر اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لی تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا قتل ناحق کی قباحت اور خرابی بیان کرنا مقصود ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6873
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7213
7213. سیدنا عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا جبکہ ہم ایک مجلس میں موجود تھے: تم میری اس شرط پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے۔ چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے، کسی پر ایسا کوئی بہتان نہیں لگاؤ گے جو تم نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے گھڑا ہوگا اور اچھے کاموں میں نافرمانی نہیں کروگے۔ تم میں سے جس کسی نہ اس عہد کو پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جس کسی نے اس عہد کو پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جس نے ان کاموں میں سے کسی کا ارتکاب کیا اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو یہ کسی کا ارتکاب کیا اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ اور جس نے ان میں سے کوئی برا کام کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈالا تو اس کا معاملہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7213]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں بیعت کے لیے جن شرائط کا ذکر ہے، یہی شرائط سورہ ممتحنہ میں عورتوں سے بیعت لینے کے لیے ہیں۔
گویا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذکر کرکے اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں صراحت کے ساتھ عورتوں سے بیعت لینے کا ذکر ہے۔
وہ آیت یہ ہے:
”اے نبی! جب آپ کے پاس اہل ایمان خواتین بیعت کے لیے آئیں۔
۔
۔
“ (الممتحنة: 12/60)
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کے ایک طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وہی عہد لیا جو عورتوں سے لیا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کریں گے، چوری نہیں کریں گے اورزنا نہیں کریں گے۔
“ (صحیح مسلم، الحدود، حدیث: 4463(1709)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7213
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7468
7468. سیدنا عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: میں نے ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی۔ آپ نے بیعت لیتے وقت فرمایا: میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے۔ چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ کس پر بہتان ہی باندھو گے جو تم نے خود تیار کیا ہو، اور نہ ہو کسی ہر بہتان ہی باندھو گے جو تم نے خود تیار کیا ہو، نیکی کے کاموں میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ جس نے یہ عہد پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جس نے یہ عہد پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جس نے لغزش کی اور اسے دنیا ہی میں پکڑ لیا گیا تو یہ (حد) اس کے لیے گناہوں کا کفارہ اور پاکیزگی کا ذریعہ ہوگی اور جس پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالا تو وہ اللہ کے حوالے ہے، وہ اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7468]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے جنت کاوعدہ کیا اور لغزش کے ارتکاب پر دو صورتیں ممکن ہیں۔
اگر اس کا دنیا میں مؤاخذہ ہوا اور حد جاری ہوگئی تو یہ حد گناہ اور پاکیزگی کا ذریعہ ہوگی لیکن یہ کفارہ شرک کے علاوہ دوسرے گناہوں کے ارتکاب پر ہوگا شرک سے توبہ کرنا ہوگی۔
وہ تب معاف ہوگا اگر دنیا میں مؤاخذہ نہ ہوا تو معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔
2۔
اس میں اہل سنت کے موقف کی تائید ہے کہ کفر کے علاوہ دیگر گناہوں کے ارتکاب پر جہنم میں جانا یقینی نہیں بلکہ اگر انسان توبہ کے بغیر مرگیا تو معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہوگا اگر چاہے تو اسے معاف کردے چاہے تو سزا دے۔
لیکن خوارج اور معتزلہ نے اس کے برعکس موقف اختیار کیا ہے۔
خوارج کے نزدیک گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر ہو جاتا ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ کافر تو نہیں ہوتا البتہ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو ثابت کیا ہے کہ اگر انسان گناہ کے ارتکاب پر توبہ کے بغیر مرگیا تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ کرے گا۔
اس میں معتزلہ وغیرہ کی تردید ہے جو اپنی عقل سےاللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں اور خوارج کو بھی تنبیہ ہے جو عام مسلمانوں کو گناہ کے ارتکاب پر کافرقرار دیتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7468