الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب قطع السارق
کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
16. بَابُ : الْقَطْعِ فِي السَّفَرِ
16. باب: سفر میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4983
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا سَرَقَ الْعَبْدُ فَبِعْهُ وَلَوْ بِنَشٍّ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب غلام چوری کرے تو اسے بیچ دو چاہے اس کی قیمت آدھا درہم ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: عمر بن ابی سلمہ حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4983]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الحدود 22 (4412)، سنن ابن ماجہ/الحدود 25 (2589)، تحفة الأشراف: 14979)، مسند احمد (2/336، 337، 356، 387) (ضعیف) (اس کے راوی ”عمر بن ابی سلمہ“ حافظہ کے کمزور ہیں)»

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث نہ تو صحیح ہے اور نہ ہی باب سے اس کا کوئی ظاہری مناسبت ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن أبي داودإذا سرق المملوك فبعه ولو بنش
   سنن ابن ماجهإذا سرق العبد فبيعوه ولو بنش
   سنن النسائى الصغرىإذا سرق العبد فبعه ولو بنش

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4983 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4983  
اردو حاشہ:
(1) چوری کرلے یعنی مالک کی چوری کرے چونکہ کسی دوسرے کی چوری کرے گا تواس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ مالک کی چوری میں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں کیونکہ وہ بھی گھر میں رہتا ہے۔ گویا کہ وہ گھر کا ایک فرد ہے اور گھر کے افراد پر گھر سے چوری کی بنا پرحد نہیں لگائی جاتی۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت بھی یہی ہے کہ جس طرح گھر کےفرد یاغلام پر چوری کی بنا پر حد نافذ نہیں ہوتی، اسی طرح سرحدی علاقے کے سفر کے دوران میں بھی چوری کی حد نہیں لگائی جائے گی، یعنی یہ بھی اس کی ایک نظیر ہے اگرچہ فرق بھی ہے کہ سفر سے واپسی پرتو حد لگائی جائے گی مگر غلام پر گھر کی چوری میں بالکل حد نہیں لگائی جائے گی۔ البتہ اسے کوئی اور سزا دی جائے گی، مثلا: کوڑے لگائے جائیں یا قید وغیرہ کیا جائے۔
(2) بیچ دو کیونکہ اس کو چوری کی عادت پڑ گئی ہے، لہذا اس کا گھر میں رہنا اب ٹھیک نہیں۔ یہ مسئلہ بار بار پیدا ہو گا۔ بیج دینا ہی بہتر ہے۔ ممکن ہے دوسرے گھر کے حالات اس کی یہ عادت چھڑا دی لیکن بیچتے وقت اس کا یہ عیب خریدنے والے کو صاف بتایا جائے تاکہ وہ دھوکے میں نہ رہے ورنہ گناہ ہو گا، نیز سودا واپس بھی ہو سکتا ہے۔
(3) نصف قیمت عربی میں لفظ نش استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ نصف اوقیہ ہوتے ہیں اور مطلق نصف بھی۔ نصف اوقیہ تو بیس درہم کا ہوتا ہے۔ مطلق نصف سے مراد نصف درہم بھی ہو سکتا ہے اور نصف قیمت بھی۔ تینون معانی ممکن ہیں۔ واللہ أعلم
(4) بیچنے کا حکم ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے کیونکہ کسی کو اس کا غلام بیچنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس کی اپنی مرضی پر موقوف ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4983