جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امانت میں خیانت کرنے والے، علانیہ لوٹ کر لے جانے اور اچک لینے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا“۱؎۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) اسے سفیان نے ابو الزبیر سے نہیں سنا۔ (اس کی دلیل اگلی سند ہے)[سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4974]
وضاحت: ۱؎: خیانت، اچک لینے اور چھین لینے میں اسی لیے ہاتھ کاٹنا نہیں ہے کہ ان سب کے اندر یہ ممکن ہے کہ ان کو انجام دینے والوں پر آسانی سے اور جلد قابو پایا جا سکتا ہے اور گواہی قائم کی جا سکتی ہے، برخلاف چوری کے، اس لیے کہ چوری کا جرم زیادہ سنگین ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح لم يسمعه سفيان من أبي الزبير
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4974
اردو حاشہ: (1) امام نسائی رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ سند منقطع ہے کیونکہ سفیان ثوری نے ابو الزبیر سے براہ راست نہیں سنا بلکہ سفیان ثوری اور ابو الزبیر کے درمیان ابن جریج کا واسطہ ہے جیسا کہ اگلی روایت میں ہے۔ (2) امام نسائی رحمہ اللہ نے اس روایت اور اس کے بعد والی روایت کی سند کو اگرچہ منقطع کہا ہے لیکن یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ابن جریج کے ابوالزبیر سے مذکورہ حدیث کے سماع کی بابت بہت عمدہ اور نفیس محققانہ بحث کی ہے۔ اس تحقیق سے ضعف والی وجہ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للأتیوبي: 99/37-101)۔ (3) کسی کے پاس امانت رکھی ہو اور وہ اسے دبا جائے تو اسے خائن کہتے ہیں۔ زبردستی جاگتی آنکھوں کے سامنے مال اٹھانے والے کو منتھب (ڈاکو) کہتے ہیں اور چالاکی کے ساتھ ہاتھوں سے جھپٹ کر بھاگ جانے والے کو مختلس کہتے ہیں۔ ایسا کام کرنے والے پر چور کی تعریف صادق نہیں آتی، اس لیے ان پر چوری والی حد نہیں لگے گی۔ واللہ أعلم (4) ان صورتوں میں کسی کا مال حاصل کیا جاتا ہے مگر اس میں چوری کا وصف نہیں پایا جاتا۔ چوری یہ ہے کہ کسی کا محفوظ مال چپکے سے اٹھا لیا جائے اور اسے پتا نہ چلے۔ چونکہ اس صورت میں چور کا پتا نہیں چلتا، لہذا اس کا نقصان معاشرے میں زیادہ ہے، لہذا اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا مشروع کی گی بخلاف پہلی صورتوں کے کہ ان میں فریق ثانی کا علم ہوتا ہے اور کسی حکومتی ادارے کی مدد سے مال واپس لیا جاسکتا ہے، لہذا ان کا حکم مختلف ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ کوئی اور سزا جو حاکم مناسب سمجھے، نافذ کرے گا، چاہے وہ ہاتھ کاٹنے سے سخت ہی ہو، مثلاً: ڈاکو چونکہ مسلح ہو کر ڈاکا ڈالتا ہے اس میں بے گناہ لوگوں کی جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے اسے سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے جیسا کہ آیت محاربہ میں بیان ہوا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 4028 اور 4029 کے فوائد)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4974