الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب المواقيت
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
2. بَابُ : أَوَّلِ وَقْتِ الظُّهْرِ
2. باب: ظہر کے اول وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 496
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ، قال: سَمِعْتُ أَبِي، يَسْأَلُ أَبَا بَرْزَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: كَمَا أَسْمَعُكَ السَّاعَةَ، فَقَالَ: أَبِي يَسْأَلُ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَانَ" لَا يُبَالِي بَعْضَ تَأْخِيرِهَا يَعْنِي الْعِشَاءَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَلَا يُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَلَا الْحَدِيثَ بَعْدَهَا". قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ لَقِيتُهُ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ، قَالَ: كَانَ" يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ يَذْهَبُ الرَّجُلُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ لَا أَدْرِي أَيَّ حِينٍ ذَكَرَ" ثُمَّ لَقِيتُهُ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: وَكَانَ" يُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ فَيَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ جَلِيسِهِ الَّذِي يَعْرِفُهُ فَيَعْرِفُهُ، قَالَ: وَكَانَ يَقْرَأُ فِيهَا بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ".
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کر رہے تھے، شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے (سیار بن سلامہ سے) پوچھا: آپ نے اسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: (میں نے اسی طرح سنا ہے) جس طرح میں اس وقت آپ کو سنا رہا ہوں، میں نے اپنے والد سے سنا وہ (ابوبرزہ سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کر رہے تھے، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات تک عشاء کی تاخیر کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے، شعبہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر سیار سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے جس وقت سورج ڈھل جاتا، اور عصر اس وقت پڑھتے کہ آدمی (عصر پڑھ کر) مدینہ کے آخری کنارہ تک جاتا، اور سورج زندہ رہتا ۱؎ اور مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے مغرب کا کون سا وقت ذکر کیا، اس کے بعد میں پھر ان سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تو آدمی پڑھ کر پلٹتا اور اپنے ساتھی کا جسے وہ پہچانتا ہو چہرہ دیکھتا تو پہچان لیتا، انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں ساٹھ سے سو آیتوں کے درمیان پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 496]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المواقیت 11 (541)، 13 (547)، 23 (568)، 38 (599)، الأذان 104 (771)، صحیح مسلم/المساجد 40 (647)، سنن ابی داود/الصلاة 3 (398)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الصلاة 3 (674) مختصراً، (تحفة الأشراف: 11605)، مسند احمد 4/420، 421، 423، 424، 425، سنن الدارمی/الصلاة 66 (1338)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 526، 531 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی زرد نہیں پڑتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   سنن النسائى الصغرىلا يبالي بعض تأخيرها يعني العشاء إلى نصف الليل ولا يحب النوم قبلها ولا الحديث بعدها كان يصلي الظهر حين تزول الشمس والعصر يذهب الرجل إلى أقصى المدينة والشمس حية والمغرب لا أدري أي حين ذكر
   سنن النسائى الصغرىيؤخر العشاء التي تدعونها العتمة وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها
   صحيح مسلميؤخر العشاء إلى ثلث الليل ويكره النوم قبلها والحديث بعدها
   صحيح مسلملا يبالي بعض تأخير صلاة العشاء إلى نصف الليل وكان لا يحب النوم قبلها ولا الحديث بعدها
   سنن ابن ماجهيؤخر العشاء وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها

سنن نسائی کی حدیث نمبر 496 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 496  
496 ۔ اردو حاشیہ:
➊ظہر کی نماز کا اول وقت متفق علیہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور وہ ہے زوال شمس۔
➋عشاء کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمومی طور پر ثلث لیل (تہائی رات) تک پڑھا کرتے تھے۔ کبھی کبھار نصف رات تک مؤخر کر دیتے۔ تمام احادیث کو ملانے سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ راجح قول کے مطابق نصف رات عشاء کی نماز کا آخری وقت ہے۔
➌سورج کے تیز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورج ابھی زرد نہیں ہوتا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 496   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 526  
´مغرب کے بعد سونا مکروہ ہے۔`
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو میرے والد نے ان سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا، اور عصر پڑھتے جب ہم میں سے مدینہ کے آخری کونے پر رہنے والا آدمی اپنے گھر لوٹ کر آتا، تو سورج تیز اور بلند ہوتا، مغرب کے سلسلہ میں جو انہوں نے کہا میں اسے بھول گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کو جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہو مؤخر کرنا پسند کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونا اور اس کے بعد گفتگو کرنا ناپسند فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، اور آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 526]
526 ۔ اردو حاشیہ:
➊مغرب کی نماز کے بعد سونا اس لیے منع ہے کہ اس سے عشاء کی نماز فوت ہو جانے کا خطرہ ہے اور بعد میں باتیں کرنا س لیے منع ہے کہ اس سے فجر کی نماز وقت یا جماعت سے رہ جانے کا خدشہ ہے۔
➋ظہر کو بعض لوگ اولیٰ کہتے تھے اور عصر کو آخرہ کیونکہ عصر بعد میں پڑھی جاتی ہے اور ظہر پہلے۔ فارسی میں بھی ظہر کو اسی لیے پیشین اور عصر کو دیگر کہا جاتا ہے۔ عشاء چونکہ اندھیرے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے بعض لوگ اسے عتمہ (اندھیرے کی نماز) کہتے تھے، پھر وہ مغرب کو عشاء کہہ دیتے تھے۔ اس سے آپ نے سختی سے منع فرما دیا کیونکہ اس سے مغرب اور عشاء کے احکام میں اشتباہ پیدا ہوتا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 526   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث701  
´عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کی ممانعت۔`
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے، اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 701]
اردو حاشہ:
(1)
عشاء کی نماز سے پہلے سو جانے سے خطرہ ہے کہ نماز کے لیے آنکھ نہ کھلےاور نماز فوت ہو جائے یا آنکھ کھلے تو سستی کا غلبہ ہو جس کی وجہ سے عشاء کی نماز توجہ اور دل جمعی کے ساتھ نہ پڑھی جا سکے۔
اس لیے نماز پڑھ کر سونا چاہیے۔

(2)
عشاء کے بعد باتیں کرنا بھی اس لیے نامناسب ہے کہ اس کی وجہ سے نماز فجر کے لیے اٹھنے میں تاخیر ہو جانے کا خطرہ ہے البتہ کوئی ضروری بات چیت یا علمی مسائل کا بیان اور وعظ ونصیحت جائز ہے۔ (صحیح البخاری، العلم، باب العلم والعظمة بااليل وباب السمر في العلم، حديث: 116، 115)
تاہم خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا سلسلہ زیادہ طویل نہ ہو جائے تاکہ فجر کی نماز بروقت ادا کی جا سکے۔
بنا بریں دینی وتبلیغی جلسوں کا رات گئے تک جاری رہنا شرعاً محل نظر ہے۔
اس عام رواج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 701   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1464  
حضرت ابو منہال سیار بن سلامہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کر دیتے تھے اور اس سے پہلے سونا اور بعد میں گفتگو کرنا، ناپسند کرتے تھے اور صبح کی نماز میں ساٹھ سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے اور ایسے وقت میں سلام پھیرتے کہ لوگ ایک دوسرے کے چہرے پہچان لیتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1464]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عشاء کی نماز سے پہلے اس طرح سونا کہ نماز باجماعت نکل جائے یا اس کا وقت مختار نکل جائے جائز نہیں لیکن اگر انسان بیدار ہو کر جماعت کے ساتھ مل سکے یا کسی کسی مجبوری کی بنا پر انفرادی طور پر پڑھنی ہو تو وقت مختار میں پڑھ لے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح عشاء کے بعد کسی دینی و دنیوی ضروری گفتگو میں مشغول ہو جائے اور اس کے معلولات تہجد یا کم ازکم فجر کی نماز متاثر نہ ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن فضول اور بلا مقصد گفتگو یا ناول اور افسانہ کا مطالعہ ٹی وی دیکھنا جن سے عشاء کی نماز بھی فوت ہو جاتی ہے درست نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1464