فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4899
´چوری کرنے والی مخزومی عورت کے بارے میں زہری کی روایت میں راویوں کے الفاظ کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسامہ کے سوا کون (اس کی سفارش سے متعلق گفتگو کرنے کی) ہمت کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسامہ! بنی اسرا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4899]
اردو حاشہ:
”اسامہ شاید کرے“ انہوں نے یہ بات اس وجہ سے کہی کہ حضرت اسامہ ؓ آپ کے متنبی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے بیٹے تھے، اس لیے آپ کو ان سے شدید محبت تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہ تھی۔ تبھی تو آپ نے ان کی سفارش نہ مانی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4899
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4899
´چوری کرنے والی مخزومی عورت کے بارے میں زہری کی روایت میں راویوں کے الفاظ کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسامہ کے سوا کون (اس کی سفارش سے متعلق گفتگو کرنے کی) ہمت کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسامہ! بنی اسرا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4899]
اردو حاشہ:
”اسامہ شاید کرے“ انہوں نے یہ بات اس وجہ سے کہی کہ حضرت اسامہ ؓ آپ کے متنبی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے بیٹے تھے، اس لیے آپ کو ان سے شدید محبت تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہ تھی۔ تبھی تو آپ نے ان کی سفارش نہ مانی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4899
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4907
´چوری کرنے والی مخزومی عورت کے بارے میں زہری کی روایت میں راویوں کے الفاظ کے اختلاف کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نے چوری کی (”فتح مکہ کے وقت“ کا لفظ مرسل ہے) تو اس کے خاندان کے لوگ گھبرا کر سفارش کا مطالبہ کرنے کے لیے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس گئے۔ جب اسامہ نے آپ سے اس کے بارے میں بات چیت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ نے فرمایا: ”تم مجھ سے اللہ کی حدوں میں سے کسی ایک حد کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4907]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حدود میں سفارش کرنا ممنوع ہے بشرطیکہ معاملہ عدالت یا حکام بالا تک پہنچ چکا ہو۔
(2) ان احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح چوری کرنے والے مرد کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اسی طرح چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ بھی کاٹا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے تو مکمل صراحت کے ساتھ چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھیے (المائدة:5: 38)
(3) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی عظیم قدرت و منزلت پر بھی یہ احادیث واضح دلالت کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے بلکہ لوگوں میں بھی محبوب سمجھے جاتے تھے۔
(4) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے ہاں بہت زیادہ قدر و منزلت کی حامل تھیں، تاہم یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حدود اللہ کے قائم کرنے میں نہ تو کسی کی محبت کو خاطر میں لایا جاسکتا ہے اور نہ کسی کی سفارش ہی قبول کی جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم
(5) ”آیا کرتی تھی“ گویا وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئی تھی۔ توبہ اور سزا کے بعد گناہ ختم ہو جاتا ہے۔
(6) کسی حدیث کی تمام اسانید کو تفصیلا بیان کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ واقعے کی تمام تفصیلات سامنے آجاتی ہیں، کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4907
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4907
´چوری کرنے والی مخزومی عورت کے بارے میں زہری کی روایت میں راویوں کے الفاظ کے اختلاف کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نے چوری کی (”فتح مکہ کے وقت“ کا لفظ مرسل ہے) تو اس کے خاندان کے لوگ گھبرا کر سفارش کا مطالبہ کرنے کے لیے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس گئے۔ جب اسامہ نے آپ سے اس کے بارے میں بات چیت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ نے فرمایا: ”تم مجھ سے اللہ کی حدوں میں سے کسی ایک حد کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4907]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حدود میں سفارش کرنا ممنوع ہے بشرطیکہ معاملہ عدالت یا حکام بالا تک پہنچ چکا ہو۔
(2) ان احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح چوری کرنے والے مرد کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اسی طرح چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ بھی کاٹا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے تو مکمل صراحت کے ساتھ چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھیے (المائدة:5: 38)
(3) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی عظیم قدرت و منزلت پر بھی یہ احادیث واضح دلالت کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے بلکہ لوگوں میں بھی محبوب سمجھے جاتے تھے۔
(4) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے ہاں بہت زیادہ قدر و منزلت کی حامل تھیں، تاہم یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حدود اللہ کے قائم کرنے میں نہ تو کسی کی محبت کو خاطر میں لایا جاسکتا ہے اور نہ کسی کی سفارش ہی قبول کی جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم
(5) ”آیا کرتی تھی“ گویا وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئی تھی۔ توبہ اور سزا کے بعد گناہ ختم ہو جاتا ہے۔
(6) کسی حدیث کی تمام اسانید کو تفصیلا بیان کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ واقعے کی تمام تفصیلات سامنے آجاتی ہیں، کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4907
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3475
3475. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: قبیلہ مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی تو قریش اس کے معاملے میں بہت پریشان ہوئے۔ انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کون گفتگو کرے؟طے پایا کہ صرف حضرت اسامہ بن زید ؓ جو رسول اللہ ﷺ کے محبوب ہیں وہ آپ سے اس کے متعلق بات کرنے کی جراءت کرسکتے ہیں، چنانچہ حضرت اسامہ ؓنے اس کے متعلق آپ سے سفارش کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(اے اسامہ!) کیا تم اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے متعلق سفارش کرتے ہو؟“ پھر آپ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں کو اس امر نے تباہ کیا کہ جب ان میں سے کوئی دولت مند اور معزز آدمی چوری کرتاتو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کردیتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر(میری لخت جگر) فاطمہ بنت محمد(ﷺ) بھی چوری کرے تو میں کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3475]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی شرح کتاب الحدود میں آئے گی۔
چور کاہاتھ کاٹ ڈالنا شریعت موسوی میں بھی تھا۔
جوکوئی اس سزا کووحشیانہ بتائے وہ خود وحشی ہے اورجوکوئی مسلمان ہوکر اس سزا کوخلاف تہذیب کہےوہ کافراور دائرہ اسلام سےخارج ہے۔
(وحیدی)
حضرت اسامہ رسو ل اللہ ﷺ کےبڑے ہی چہیتے بچے تھے کیونکہ ان کےوالد حضرت زید بن حارثہ کی پرورش رسول اللہ ﷺ نےکی تھی۔
یہاں تک کہ بعض لوگ ان کو رسول کریم ﷺ کا بیٹا سمجھتے اوراسی طرح پکارتے مگر آیت کریمہ ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ﴾ (الأحزاب: 5)
نے ان کواس طرح پکارنے سےمنع کردیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3475
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3733
3733. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو لوگوں نے کہا کہ اس کے متعلق نبی ﷺ سے کون بات کرے گا؟ آخر کسی کو آپ سے گفتگو کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ پھر حضرت اسامہ بن زید ؓ نے آپ سے بات کی۔ تو آپ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کا یہی طریقہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اس کو چھوڑدیتے۔ اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتے۔ (سنو!)اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3733]
حدیث حاشیہ:
حضرت اسامہ ؓ کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ عام طور پر قریش نے ان کو دربار نبوی میں سفارش کرنے کا اہل پایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3733
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4304
4304. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی تو اس عورت کی قوم حضرت اسامہ بن زید ؓ کے پاس گھبرائی ہوئی آئی تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے (اس کی معافی کے متعلق) اس کی سفارش کر دیں۔ عروہ نے کہا:جب حضرت اسامہ ؓ نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: ”تم مجھ سے اللہ کی حد کے متعلق گفتگو کرتے ہو؟“ حضرت اسامہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے (اس جسارت پر) دعائے مغفرت کر دیں۔ جب شام ہوئی تو رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی جس کے وہ لائق ہے، پھر فرمایا: ”اما بعد! تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد جاری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4304]
حدیث حاشیہ:
امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس عورت نے خود آنحضرت ﷺ سے عرض کیا تھا کہ حضور ﷺ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا آج تو تو ایسی ہے جیسے اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔
حدود اسلامی کا پس منظر ہی یہ ہے ان کے قائم ہونے کے بعد مجرم گناہ سے بالکل پاک صاف ہو کر مقبول الہی ہو جاتا ہے اور حدود کے قائم ہونے سے جرائم کا سد باب بھی ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ مملکت سعودیہ أیدھا اللہ بنصرہ میں موجود ہے، جہاں حدود شرعی قائم ہوتے ہیں۔
اس لیے جرائم بہت کم پائے جاتے ہیں۔
آیت شریفہ ﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ﴾ (البقرة: 179)
میں اسی طرف اشارہ ہے۔
روایت میں جس عورت کا مقدمہ مذکور ہے اس کا نام فاطمہ مخزومیہ تھا، بعد میں بنو سلیم کے ایک شخص سے اس نے شادی بھی کر لی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4304
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6787
6787. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ نے نبی ﷺ سے ایک عورت کے متعلق سفارش کی تو آپ نے فرمایا: ”تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ وہ کمزور وحقیر پر تو حد قائم کرتے تھے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر (میری بیٹی) فاطمہ ؓ نے بھی یہ (چوری) کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6787]
حدیث حاشیہ:
اسلامی حدود کا اجر بہرحال لابدی ہے بشرطیکہ مقدمہ اسلامی اسٹیٹ میں اسلامی عدالت میں ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6787
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6788
6788. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ عورت نے قریش کو پریشان کر دیا جس نے چوری کی تھی۔ قریش نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے محبوب حضرت اسامہ ؓ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس عورت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو نہیں کر سکتا اور نہ کسی میں جرات ہی ہے کہ وہ آپ سے اس قسم کی بات کرے، چنانچہ حضرت اسامہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے اسامہ! کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرنے آئے ہو؟“ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، پھر فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف اس لیے گمراہ ہوئے کہ ان میں جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد (ﷺ) نے بھی چوری کی ہوتی تو محمد (ﷺ) اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6788]
حدیث حاشیہ:
اس سفارش پر آپ نے حضرت اسامہ کو تنبیہ فرمائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6788
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2648
2648. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نے فتح مکہ کے موقع پر چوری کی تو اسے رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کیا گیا، چنانچہ آپ کے حکم پر اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کے بیان کے مطابق اس عورت نے اچھی توبہ کی۔ پھر اس نے نکاح کرلیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تھی تو میں اس کی ضرورت رسول اللہ ﷺ تک پہنچا دیتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2648]
حدیث حاشیہ:
یہ عورت مخزومی قریش کے اشراف میں سے تھی۔
اس نے آنحضرت ﷺ کے گھر سے ایک چادر چرالی تھی جیسے کہ ابن ماجہ کی روایت میں اس کی صراحت مذکور ہے اور ابن سعدکی روایت میں زیور چرانا مذکورہے۔
ممکن ہے کہ ہر دو چیزیں چرائی ہوں۔
باب کا مطلب حضرت عائشہ ؓ کے قول فحسنت توبتها سے نکلتا ہے۔
طحاوی ؒنے کہا چور کی شہادت بالاجماع مقبول ہے جب وہ توبہ کرلے۔
باب کا مطلب یہ تھا کہ قاذف کی توبہ کیوں کر مقبول ہوگی لیکن حدیث میں چور کی توبہ مذکور ہے تو امام بخاری ؒنے قاذف کو چور پر قیاس کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2648
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2648
2648. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نے فتح مکہ کے موقع پر چوری کی تو اسے رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کیا گیا، چنانچہ آپ کے حکم پر اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کے بیان کے مطابق اس عورت نے اچھی توبہ کی۔ پھر اس نے نکاح کرلیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تھی تو میں اس کی ضرورت رسول اللہ ﷺ تک پہنچا دیتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2648]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا جو قریش کے ایک بااثر قبیلے بنو مخزوم سے تعلق رکھتی تھی۔
(2)
چوری کرنے سے انسان کی ظاہری حیثیت مجروح ہو جاتی ہے اور وہ گواہی دینے کے قابل نہیں رہتا، لیکن چور جب توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لے تو اس سے چوری کا دھبہ دور ہو جاتا ہے، پھر اس کی گواہی مسترد نہیں کی جاتی۔
امام بخاری ؒ نے تہمت لگانے والے کو چور سے ملایا ہے کیونکہ ان کے نزدیک دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
(3)
امام طحاوی ؒ نے لکھا ہے:
چور جب چوری کے بعد توبہ کر لے تو اس کی گواہی قبول کرنے پر علماء کا اتفاق ہے، نیز چور کا ہاتھ کاٹ دینا ہی اس کی توبہ ہے۔
جب ہاتھ کٹ گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی توبہ قبول ہوئی، لہذا گواہی بھی قبول ہو گی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2648
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3475
3475. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: قبیلہ مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی تو قریش اس کے معاملے میں بہت پریشان ہوئے۔ انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کون گفتگو کرے؟طے پایا کہ صرف حضرت اسامہ بن زید ؓ جو رسول اللہ ﷺ کے محبوب ہیں وہ آپ سے اس کے متعلق بات کرنے کی جراءت کرسکتے ہیں، چنانچہ حضرت اسامہ ؓنے اس کے متعلق آپ سے سفارش کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(اے اسامہ!) کیا تم اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے متعلق سفارش کرتے ہو؟“ پھر آپ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں کو اس امر نے تباہ کیا کہ جب ان میں سے کوئی دولت مند اور معزز آدمی چوری کرتاتو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کردیتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر(میری لخت جگر) فاطمہ بنت محمد(ﷺ) بھی چوری کرے تو میں کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3475]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں ”تم سے پہلے لوگوں“ سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔
2۔
چور کا ہاتھ کاٹنا شریعت موسوی میں بھی تھا۔
اب اگر کوئی اسے وحشیانہ سزا کہتا ہےتو وہ خود وحشی ہے اور جو کوئی مسلمان ہو کر اس سزا کو خلاف تہذیب کہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الحدود میں آئے گی۔
3۔
جس مخزومیہ عورت نے چوری کی تھی اس کا نام فاطمہ بنت اسود تھا۔
اس نے فتح مکہ کے وقت کسی کا زیور چرا لیا تھا رسول اللہ ﷺ نے بطور سزا اس کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔
4۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب معاملہ حاکم وقت کے پاس پہنچ جائے تو حدود کے متعلق سفارش کرنا یا سفارش کرانا دونوں حرام ہیں۔
اگر ملزم عادی مجرم نہ ہواور نہ کبھی فساد انگیزی ہی میں ملوث ہوا ہو تو حاکم وقت کے پاس جانے سے پہلے معاملہ نمٹا یا جاسکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3475
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3733
3733. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو لوگوں نے کہا کہ اس کے متعلق نبی ﷺ سے کون بات کرے گا؟ آخر کسی کو آپ سے گفتگو کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ پھر حضرت اسامہ بن زید ؓ نے آپ سے بات کی۔ تو آپ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کا یہی طریقہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اس کو چھوڑدیتے۔ اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتے۔ (سنو!)اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3733]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت اسامہ بن زید ؓ کو لوگ حب بن حب یعنی محبوب بن محبوب کہا کرتے تھے کیونکہ ان دونوں سے رسول اللہ ﷺ کو خاص محبت تھی۔
ان کی والدہ ماجدہ اُم ایمن ؓ رسول اللہ ﷺ کی آزاد کردہ ہیں اور ان کی گودمیں رسول اللہ ﷺ نے پرورش پائی تھی۔
2۔
اس حدیث میں حضرت اسامہ ؓ کی عظیم فضیلت اور قدر و منزلت ہے کہ قریش نے دربار نبوی میں آپ کو سفارش کا اہل پایا چنانچہ انھوں نے کہا:
رسول اللہ ﷺ کے ہاں آپ کے محبوب حضرت اسامہ بن زید ؓ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص سفارش کی جرات نہیں کرے گا۔
3۔
جس عورت نے چوری کی اس کا نام فاطمہ بنت اسود تھا جو مخزوم قبیلے سے تعلق رکھتی تھی رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا وہ ہاتھ کٹنے کے بعد حضرت عائشہ ؓ کے پاس آتی اور آپ اس کا تعاون کرتی تھیں۔
4۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدود قائم کرنے میں کسی قسم کی مداہنت نہیں کرتے تھے۔
اور نہ کسی کا لحاظ ہی رکھتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3733
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4304
4304. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی تو اس عورت کی قوم حضرت اسامہ بن زید ؓ کے پاس گھبرائی ہوئی آئی تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے (اس کی معافی کے متعلق) اس کی سفارش کر دیں۔ عروہ نے کہا:جب حضرت اسامہ ؓ نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: ”تم مجھ سے اللہ کی حد کے متعلق گفتگو کرتے ہو؟“ حضرت اسامہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے (اس جسارت پر) دعائے مغفرت کر دیں۔ جب شام ہوئی تو رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی جس کے وہ لائق ہے، پھر فرمایا: ”اما بعد! تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد جاری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4304]
حدیث حاشیہ:
حدیث نمبر4304۔
فوائد ومسائل:
:
۔
1۔
روایت میں جس عورت کامقدمہ پیش ہوا اس کا نام فاطمہ مخزومیہ ہے۔
اس نے بعد میں بنو سلیم کے ایک شخص سے شادی کر لی تھی۔
2۔
بنو مخزوم کو اس کے چوری کرنے کے سلسلے میں پریشانی ہوئی تو انھوں نے حضرت اسامہ ؓ کو سفارش کرنے کے لیے تیار کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے اس عورت پر حد جاری کردی۔
ایک روایت میں ہے۔
(مسند أحمد: 409/5)
کہ بنو مخزوم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ پیش کش کی کہ ہم چالیس اوقیے چاندی بطور فدیہ دیتے ہیں آپ اس کا ہاتھ نہ کاٹیں تو آپ نے فرمایا:
"اس پر حد جاری کر کے اسے پاک کردینا ہی اس کے لیےبہترہے۔
'' (مسند أحمد: 409/5)
ایک روایت میں ہے کہ اس عورت کی قوم نے پانچ سو دینار بطور فدیہ پیش کیے لیکن رسول اللہ ﷺ نےاس کا ہاتھ کاٹ دیا تو اس عورت نے کہا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا:
"کیوں نہیں توبہ کرنے کے بعد توایسی ہے جیسے اس دن تھی جس دن اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔
'' (مسند أحمد: 177/2)
3۔
حد قائم کرنے کا دروازہ بند ہوتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں اس منظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔
جہاں بھی اللہ کی حدود قائم ہوں گی جرائم بہت کم ہوں گے۔
4۔
چونکہ یہ واقعہ فتح مکہ کے دن پیش آیا تھا اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4304
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6787
6787. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ نے نبی ﷺ سے ایک عورت کے متعلق سفارش کی تو آپ نے فرمایا: ”تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ وہ کمزور وحقیر پر تو حد قائم کرتے تھے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر (میری بیٹی) فاطمہ ؓ نے بھی یہ (چوری) کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6787]
حدیث حاشیہ:
مذکورہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمائے جب فتح مکہ کہ موقع پر قبیلۂ مخزوم کی فاطمہ نامی ایک عورت نے چوری کی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔
مقصد یہ ہے کہ حدود اللہ کے قیام ونفاذ کسی معزز اور معمولی وحقیر میں فرق نہ کیا جائے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیا جائے اور کمزوروناتواں پر حد جاری کر دی جائے۔
جو ان میں فرق کرے گا وہ اسلام کے طریقے کی مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنا معاشرے کی تباہی کا باعث ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6787
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6788
6788. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ عورت نے قریش کو پریشان کر دیا جس نے چوری کی تھی۔ قریش نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے محبوب حضرت اسامہ ؓ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس عورت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو نہیں کر سکتا اور نہ کسی میں جرات ہی ہے کہ وہ آپ سے اس قسم کی بات کرے، چنانچہ حضرت اسامہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے اسامہ! کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرنے آئے ہو؟“ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، پھر فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف اس لیے گمراہ ہوئے کہ ان میں جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد (ﷺ) نے بھی چوری کی ہوتی تو محمد (ﷺ) اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6788]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا۔
اس کا باپ اسود بن اسد غزوۂ بدر میں قتل ہوا تھا۔
یہ عورت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ کی بھتیجی تھی۔
جب اس کی چوری ثابت ہو گئی تو پہلے اس کے خاندان نے چالیس اوقیے چاندی بطور فدیہ دینے کی پیش کش کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا:
”اس پر حد کا قائم ہونا بہتر ہے۔
“ پھر اس نے حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کی پناہ لی اور ان سے سفارش کی اپیل کی، چنانچہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں۔
یہ میری پھوپھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سفارش کو بھی مسترد کر دیا آخرکار انھوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی بلکہ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اٹھو اور اس کا ہاتھ کاٹ دو، چنانچہ انھوں نے اس کا ہاتھ کات دیا، اس نے عرض کی:
اللہ کے رسول! میرے لیے توبہ کا دروازہ بند تو نہیں ہوا؟ تو آپ نے فرمایا:
”آج تو اس غلطی سے یوں پاک ہو چکی ہے گویا آج ہی تجھے تیری ماں نے جنم دیا ہے۔
“ چنانچہ اس نے توبہ کی اور بنو سلیم کے ایک آدمی سے نکاح کر لیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد وہ میرے پاس آئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی حاجت پیش کرتی۔
(2)
بہرحال اس امر پر امت کا اجماع ہے کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہوتو کسی کو اس کے متعلق سفارش نہیں کرنی چاہیے۔
اگر کوئی سفارش کرتا ہے تو حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ سختی سے اسے رد کر دے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کرے۔
(فتح الباري: 113/12، 116)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6788
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6800
6800. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: وہ عورت اس کے بعد بھی آتی تھی اور میں اس کی ضروریات کو نبی ﷺ کے حضور پیش کرتی تھی۔ اس عورت نے توبہ کرلی تھی اور اچھی توبہ کا ثبوت دیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6800]
حدیث حاشیہ:
چور جب چوری سے توبہ کرے تو کیا توبہ قبول ہوگی؟ کیا اس سے فسق کا نام دور ہو جائے گا؟ پھر کیا اس کی گواہی قبول ہوگی؟ ان تمام سوالات کا جواب اس حدیث سے ملتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چور کی توبہ قبول ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی توبہ کو اچھا ہونے سے متصف کیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس سے فسق کا نام دور ہو جائے گا، گویا وہ توبہ کرنے سے اپنی پہلی حالت پر لوٹ آتا ہے، پھر توبہ کے بعد اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی۔
الغرض توبہ کرنے سے اس کے کردار کا سیاہ دھبا دور ہوجائے گا اگرچہ توبہ کرنے سے حد معاف نہیں ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6800