عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے ایک شخص کو قتل کر دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت بارہ ہزار درہم مقرر کی، اور دیت لینے سے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان کیا «إلا أن أغناهم اللہ ورسوله من فضله»”مگر یہ کہ اب اللہ اور اس کے رسول نے ان کو مالدار کر دیا ہے“(المائدہ: ۵۰)، الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4807]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الدیات 18 (4546)، سنن الترمذی/الدیات 2 (1388، 1389)، سنن ابن ماجہ/الدیات 6 (2629)، (تحفة الأشراف: 6165) (ضعیف) (اس روایت کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے جیسا کہ امام ابوداود نے صراحت کی ہے، اس کو عمرو بن دینار سے سفیان بن عیینہ (جو محمد بن مسلم طائفی کے بالمقابل اوثق ہیں) نے بھی روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4808
´چاندی سے دیت کی ادائیگی کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ ہزار درہم کا فیصلہ کیا یعنی دیت میں۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4808]
اردو حاشہ: (1) مذکورہ بالا دونوں روایات کی صحت مرفوعاً محل نظر ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے، تاہم بارہ ہزار درہم کے بارے میں یہ بات صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اونٹوں کی قیمت کا حساب لگا کر بارہ ہزار درہم مقرر کیے تھے۔ (سنن أبي داود، حدیث: 4542) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الإرواء: 7/ 304، ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 36، 186) (2) اصل دیت تو اونٹ ہیں جن کی تفصیل پیچھے بیان ہو چکی ہے۔ اگر سونے چاندی یا سکوں میں دیت دینا ہو تو مذکورہ صفات کے اونٹوں کی قیمت دینا ہوگی جو علاقے اور زمانے کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4808
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1388
´دیت میں کتنے درہم دئیے جائیں؟` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت بارہ ہزار درہم مقرر کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1388]
اردو حاشہ: وضاحت: نوٹ: (اس روایت کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے، جیساکہ امام ابوداوداورمولف نے صراحت کی ہے، اس کو ”عمروبن دینار“ سے سفیان بن عینیہ نے جو کہ محمد بن مسلم طائفی کے بالمقابل زیادہ ثقہ ہیں) نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا تذکرہ نہیں کیا ہے دیکھئے: الإرواء رقم 2245)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1388