علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگ خندق کے موقع پر) فرمایا: ”ان لوگوں (کافروں) نے ہمیں بیچ والی نماز سے مشغول کر دیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا“۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 474]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 474
474 ۔ اردو حاشیہ: ➊ظاہر ہے غروب شمس سے پہلے عصر ہی کی نماز ہے۔ اسے ہی آپ نے صلاۃ وسطیٰ کہا ہے۔ صحیحین کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔ ➋غزوۂ احزاب، یعنی جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4111، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 627]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 474
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 409
´عصر کے وقت کا بیان۔` علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے روز فرمایا: ”ہم کو انہوں نے (یعنی کافروں نے) نماز وسطیٰ (یعنی عصر) سے روکے رکھا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 409]
409۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ حدیث آیت کریمہ: «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ»[البقره: 238] ”نماز وں کی محافت اور پابندی کرو اور درمیانی (یا افضل) نماز کی، اور اللہ کے لیے باادب ہو کر کھڑے ہوؤ۔“ کی تفسیر کرتی ہے کہ اس میں صلوۃ وسطی سے مرا د عصر کی نماز ہے۔ ➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی رحیم وشفیق شخصیت کی زبان سے اس قسم کی شدید بددعا کا جاری ہونا واضح کرتا ہے کہ کسی ایک نماز کا بروقت ادا نہ ہونا بھی دین میں بہت بڑا خسارہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 409
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث684
´نماز عصر کی محافظت۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے دن فرمایا: ”اللہ ان کافروں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے، جیسے کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز وسطیٰ (عصر کی نماز) کی ادائیگی سے باز رکھا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 684]
اردو حاشہ: (1) جو شخص بددعا کا مستحق ہو اسے بددعا دینا جائز ہے۔
(2) دینی نقصان دنیاوی نقصان سے زیادہ اہم ہے۔
(3) نماز عصر کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے۔
(4) اس واقعہ کا یہ پہلو انتہائی قابل توجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنھیں اللہ تعالی نے (رحمة للعالمين) فرمایا ہے جب ان کی زندگی کا شدید ترین دن تھا یعنی جب نبی کریمﷺ طائف تشریف لے گئےاور مشرکین نے نہ صرف یہ کی آپ ﷺ کی بات سنی اور انتہائی گستاخی سے پیش آئے بلکہ بچوں کو نبی کریمﷺ کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے اس حد تک سنگ ہاری کی کہ نبی اکرمﷺ کا جسد اطہر لہولہان ہوگیا اس وقت بھی آپ نے ان کو بددعا دینے سے اجتناب کیا لیکن جنگ خندق میں مصروفیت کی وجہ سے نماز عصر رہ گئی تو طائف میں خاموش رہنے والی زبان سے بھی بددعا نکل گئی۔ اور بددعا بھی اتنی شدید کہ اللہ کرے کہ ان کے گھروں میں آسمان سے آگ برسے اور جب مرجائیں تو قبروں میں بھی آگ کا ایندھن بنے رہیں۔ ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو محض کاہلی کی وجہ سے یا کھیل کود میں مصروفیت کی وجہ سے یا کاروبار یا کسی دوسری مشغولیت کی وجہ سے نماز چھوڑدیتے ہیں ان کا یہ عمل آپﷺ کی نظر میں کس قدر قابل نفرت اور کتنا عظیم جرم ہے۔ اللہ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 684
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1422
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احزاب کے وقت فرمایا: ”انہوں نے ہمیں درمیانی نماز سے مشغول رکھا، حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو یا گھروں کو یا پیٹوں کو آگ سے بھر دے (گھروں اور پیٹوں کے بارے میں شعبہ کو شبہ لاحق ہوا)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1422]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: آبَتِ الشَّمس: سورج اپنی جگہ لوٹ آیا، یعنی غروب ہو گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1422
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4533
4533. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا: ”اللہ تعالٰی ان (کفار) کے گھروں اور قبروں یا پیٹوں کو آگ سے بھر دے کیونکہ انہوں نے ہمیں بہترین نماز کی ادائیگی سے روکے رکھا حتیٰ کہ سوج غروب ہو گیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4533]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صلٰوة الوسطٰی سے عصر کی نماز مراد ہے۔ کچھ لوگوں نے بعض دوسری نمازوں کو بھی مراد لیا ہے۔ مگر قول راجح یہی ہے۔ اس بارے میں شارح نے ایک رسالہ لکھا ہے۔ جس کا نام ''کشف الخطا عن صلٰوة الوسطٰی'' ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4533
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6396
6396. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم غزوہ خندق کے روز نبی ﷺ کے ہمراه تھے، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی ان کے قبروں اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے انہوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰ نہیں پڑھنے دی کہ سورج غروب ہوگیا۔“ اور وہ عصر کی نماز تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6396]
حدیث حاشیہ: نماز عصر ہی صلوٰۃ وسطیٰ ہے، اس نماز کی بہت خصوصیت ہے جس میں بہت سے مصالح مقصود ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6396
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2931
2931. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احزاب کے موقع پر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ان (قبائل مشرکین) کے گھر اورقبریں آگ سے بھر دے انھوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰ، یعنی نماز عصر سے روکا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2931]
حدیث حاشیہ: 1۔ غزوہ احزاب کے دن جب مسلمان سخت مصیبت میں مبتلا ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کے خلاف بددعا فرمائی جو قبول ہوئی اور وہ شکست کھا کر بھاگ گئے۔ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ!ان کے گھر آگ سے بھردے۔ "جب کسی کے گھرمیں آگ لگ جائے تو سخت مضطرب اور انتہائی پریشان ہوتا ہے۔ ان الفاظ سے شکست کھانے اور پاؤں پھسلنے کو ثابت کیا ہے۔ 2۔ آگے ایک حدیث میں صراحت ہے کہ آپ نے ان الفاظ میں دعا کی: " اے اللہ!انھیں شکست دے اور انھیں اچھی طرح جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ “(صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 2933)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2931
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4533
4533. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا: ”اللہ تعالٰی ان (کفار) کے گھروں اور قبروں یا پیٹوں کو آگ سے بھر دے کیونکہ انہوں نے ہمیں بہترین نماز کی ادائیگی سے روکے رکھا حتیٰ کہ سوج غروب ہو گیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4533]
حدیث حاشیہ: 1۔ صلاۃ وسطیٰ سے مراد کون سی نماز ہے؟ اس کے متعلق اہل علم میں کافی اختلاف ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس کی تعیین میں تقریباً انیس اقوال لکھے ہیں اور فرمایا ہے: حافظ شرف الدین دمیاطی نے اس کے متعلق ایک مستقل رسالہ "کشف الغطاء عن الصلاة الوسطیٰ" کے نام سے لکھا ہے۔ (فتح الباري: 246/8) 2- امام بخاری ؒ نے جو روایت پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد نماز عصرہے کیونکہ غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر ہی پڑھی جاتی ہے بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ انھوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰ یعنی نماز عصر ادا کرنے سے مشغول رکھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث1426۔ (628) نیز اس روایت سے نماز کی بروقت ادا ئیگی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے حتی کہ بروقت ادائیگی میں حائل ہونے والوں کو سب وشتم کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور ان کے لیے بددعا کی جا سکتی ہے۔ 3۔ امام بخاری ؓ کا اپنا رجحان بھی معلوم ہوتا ہے کہ صلاۃ وسطیٰ سے مراد نماز عصر ہے، چنانچہ سورہ رحمٰن کی تفسیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ﴿فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ﴾ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ انار اور کھجورفاکحہ نہیں ہیں لیکن عرب انھیں فاکحہ ہی کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم نمازوں کی حفاظت کرو خاص طور پر صلاۃ وسطیٰ کا خیال رکھو۔ " اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے پھر نماز عصر کو اس کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر الگ بیان کیا ہے جیسا کہ فاکحہ کے بعد انار اور کھجور کا ذکر دوبارہ کیا ہے۔ (صحیح مسلم، التفسیر، تفسیرسورة الرحمٰن) ایک روایت کے مطابق اس نماز کی ادائیگی پر جنت کی بشارت ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1438۔ (635)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4533
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6396
6396. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم غزوہ خندق کے روز نبی ﷺ کے ہمراه تھے، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی ان کے قبروں اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے انہوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰ نہیں پڑھنے دی کہ سورج غروب ہوگیا۔“ اور وہ عصر کی نماز تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6396]
حدیث حاشیہ: (1) صلاۃ وسطیٰ سے مراد نماز عصر ہے جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خندق کے دن کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں عصر کی نماز نہیں پڑھ سکا حتی کہ سورج غروب ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ کی قسم! میں بھی نہیں پڑھ سکا ہوں۔ '' پھر ہم وادئ بطحان میں گئے، وہاں غروب آفتاب کے بعد وضو کر کے پہلے نماز عصر پڑھی، پھر نماز مغرب ادا کی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4112)(2) چونکہ اس حدیث میں کفار قریش کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6396