سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی عورت کی شادی دو ولیوں نے کر دی تو وہ ان میں پہلے شوہر کی ہو گی، اور جس نے کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچی تو وہ چیز ان میں سے پہلے کی ہو گی۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4686]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/النکاح 22 (2088)، سنن الترمذی/النکاح 20 (1110)، سنن ابن ماجہ/التجارات 21 (2191)، الأحکام 19 (2344)، (تحفة الأشراف: 4582)، مسند احمد (5/8، 11، 12، 18، 22)، سنن الدارمی/النکاح 15 (2240) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)»
وضاحت: ۱؎: پہلے ولی کے ذریعے ہونے والے نکاح کا اعتبار ہو گا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4686
اردو حاشہ: (1) ایک دفعہ بیچنے کے بعد پہلا مالک، مالک نہیں رہتا بلکہ خریدنے والا مالک بن جاتا ہے۔ اگر پہلا مالک دوسری جگہ بیچے گا تو کسی کی چیز بیچے گا، لہٰذا دوسری بیع معتبر نہیں ہوگی۔ اسی طرح چور یا ڈاکو کسی کی چیز بیچے تو وہ بیع معتبر نہیں ہوگی بلکہ وہ چیز اصل مالک کی رہے گی۔ اگر اصل مالک چیز تک پہنچ جائے تو وہ اسے بلا معاوضہ لے سکتا ہے۔ (دیکھیے فوائد ومسائل، حدیث: 4683) نکاح والے مسئلے میں بھی جب ایک ولی نے نکاح کر دیا تو دوسرے ولی کا تصرف غیر معتبر ہے۔ (2) اس حدیث کی عنوان کے ساتھ مناسبت نہیں ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ کو اس حدیث کے لیے مستقل طور پر الگ ترجمۃ الباب قائم کرنا چاہیے تھا جس کے ساتھ حدیث کی مطابقت واضح ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4686
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 842
´(نکاح کے متعلق احادیث)` سیدنا حسن (بصری) رحمہ اللہ، سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ ”جس عورت کا نکاح دو ولی کر دیں تو یہ خاتون پہلے خاوند کی ہے۔“ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 842»
تخریج: «أخرجه أبوداود، النكاح، باب إذا أنكاح الوليان، حديث:2088، والترمذي، النكاح.حديث:1110، والنسائي، البيوع، حديث:4686، وابن ماجه، التجارات، حديث:2190، وأحمد:5 /8، 18.»
تشریح: 1.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک خاتون کے دو ولی جب دو مختلف آدمیوں سے مختلف اوقات میں نکاح کر دیں تو وہ عورت اس آدمی کی بیوی قرار پائے گی جس سے پہلے نکاح کیا گیا ہو اور دوسرا نکاح ازخود باطل قرار پائے گا کیونکہ شریعت نے نکاح پر نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اور اگر دونوں نکاح بیک وقت کیے جائیں تو دونوں باطل قرار پائیں گے‘ کوئی بھی صحیح نہیں ہوگا۔ 2. ہاں‘ اگر عورت دونوں نکاحوں میں سے کسی نکاح کو باقی رکھنا چاہے یا دونوں شخصوں میں سے کوئی ایک‘ عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے خلوت صحیحہ کر چکا ہو تو وہ نکاح برقرار رہ سکتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 842
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2191
´جب دو بااختیار شخص کسی چیز کو بیچیں تو پہلے بیچنے والے کی بات معتبر ہو گی۔` سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو اختیار رکھنے والے ایک چیز کی بیع کریں تو جس نے پہلے بیع کی، اس کا اعتبار ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2191]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صاحب اختیار سے مراد یتیم یا نابالغ کا سرپرست ہے جسے اس کی طرف سے خریدو فروخت کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ (النہایۃ) اس سے مراد وہ عام شخص بھی ہے جس کی خریدو فروخت قانوناً اور شرعاً جائز ہے۔
(2) دو افراد کے بیع کرنے کی مثال یہ ہے کہ ایک چیز دو افراد کی مشترکہ تھی۔ ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو بتائے بغیر الگ الگ بیع کی، یا مثلاً: وکیل نے بیع کی اور مؤکل (مالک) نے بھی اس کو اطلاع دیے بغیر وہی چیز کسی اور کو بیچ دی تو جس نے پہلے بیع کی ہے، اس کی بیع صحیح قرار دی جائے گی، دوسرے کی بیع کالعدم ہو جائے گی۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2191
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1110
´کسی لڑکی کی اگر دو ولی (الگ الگ جگہ) شادی کر دیں تو کیا حکم ہے؟` سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت کی شادی دو ولی الگ الگ جگہ کر دیں تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہو گی، اور جو شخص کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچ دے تو وہ بھی ان میں سے پہلے کی ہوئی۔“[سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1110]
اردو حاشہ: نوٹ: (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز حسن کے سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے علاوہ دیگر احادیث کے سماع میں اختلاف ہے، مگر دیگر نصوص سے مسئلہ ثابت ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1110