عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مکیال»(ناپنے کا آلہ) مدینے والوں کا معتبر ہے اور وزن اہل مکہ کا معتبر ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4598]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4598
اردو حاشہ: (1) اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں: ایک اسحاق بن ابراہیم اور دوسرے محمد بن اسماعیل۔ روایت کے مذکورہ الفاظ استاد اسحاق (بن راہویہ) کے ہیں۔ دوسرے استاد محمد بن اسماعیل (ابن علیہ) کے بیان کردہ الفاظ ان سے قدرے مختلف ہیں۔ (2) عرب میں باقاعدہ حکومت نہیں تھی کہ ایک ہی وزن اور ایک ہی ماپ رائج ہو بلکہ مختلف وزن اور ماپ رائج تھے۔ شریعت میں زکاۃ، عشر، کفارات و دیگر ضروریات کے احکام نازل ہوئے تو وزن اور ماپ معین کرنا ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺ ایک منظم حکومت بھی وجود میں لا چکے تھے، لہٰذا انتظامی لحاظ سے بھی وزن اور ماپ کے پیمانے معین کرنا ضروری تھے، اس لیے آپ نے وزن مکے والوں کا اور ماپ مدینے والوں کا سرکاری اور شرعی طور پر معین فرما دیا۔ اس دور میں وزن عموماً سونے چاندی اور دیگر دھاتوں کا ہوتا تھا۔ غلے میں ماپ رائج تھا۔ مدینہ منورہ کے لوگ زمیندار تھے۔ وہاں غلہ وافر ہوتا تھا، اس لیے آپ نے ماپ، یعنی مد، صاع اور وسق وغیرہ مدینہ منورہ کے رائج فرمائے۔ مکے والوں کے ہاں دس درہم سات دینار کے وزن کے برابر ہوتے تھے اور دینار ساڑھے چار ماشے کا ہوتا تھا۔ اب زکاۃ ودیت وغیرہ میں یہی وزن معتبر ہوگا۔ اور عشر وصدقۃ الفطر اور کفارات میں مدینے والوں کا مد وصاع معتبر ہوگا۔ مدینے والوں کا صاع معتبر ہوگا۔ مدینے والوں کا صاع چار مد کا ہوتا تھا۔ وزن میں یہ 3/51 رطل کے برابر تھا۔ مد اور صاع برتن تھے جن میں وہ غلہ اور کھجوریں ڈال کر ماپا کرتے تھے۔ آج کل غلے اور کھجوروں کا وزن کیا جاتا ہے، اس لیے مد اور صاع کے وزن میں اختلاف ہو گیا ہے۔ ویسے بھی ایک ہی برتن میں ڈالی جانے والی اشیاء کا وزن ایک نہیں ہو سکتا بلکہ ہر ایک کا وزن الگ الگ ہوگا، مثلاً: پانی، دودھ، پارہ، شربت، کھجور، گندم، چینی وغیرہ اپنا الگ الگ وزن رکھتے ہیں۔ درہم، دینار اور مد وصاع بعد میں بھی بدلتے رہے ہیں۔ مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے حساب سے کمی بیشی کی مگر شریعت میں آپ کے دور کے درہم، دینار اور مد و صاع ہی وزن اور ماپ میں معتبر ہوں گے، مثلاً: کوفی صاع مدینے کے صاع سے بڑا تھا، لیکن صدقۃ الفطر وغیرہ میں مدینے کا صاع ہی چلے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4598
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3340
´پیمانوں میں (معتبر) مدینہ کا پیمانہ ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تول میں مکے والوں کی تول معتبر ہے اور ناپ میں مدینہ والوں کی ناپ ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: فریابی اور ابواحمد نے سفیان سے اسی طرح روایت کی ہے اور انہوں نے متن میں ان دونوں کی موافقت کی ہے اور ابواحمد نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جگہ «عن ابن عباس» کہا ہے اور اسے ولید بن مسلم نے حنظلہ سے روایت کیا ہے کہ وزن (باٹ) مدینہ کا اور پیمانہ مکہ کا معتبر ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک بن دینار کی حدیث جسے انہوں نے عطاء سے عطاء نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3340]
فوائد ومسائل: شرعی ادائیگیوں (زکواۃ او ر فطرانہ وغیرہ) میں وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔ اور مد اور صاع اہل مدینہ کا اشیاء کی مقدار کا تعین کرنے کے لئے ناپ تول کا نظام وجود میں آیا۔ یہ عمل تجارت کی انتہائی اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ مختلف علاقوں کے ناپ تول کے پیمانوں کے ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناپ تول کےلئے بنیادی اکائی قدرتی اشیاء کو بنایا گیا۔ برصغیر میں جوتولے چھٹانک سیر کا نظام رائج تھا اس کی بنیادی اکائی رتی تھی۔ یہ ایک پودے کا سرخ رنگ کا بیج ہے۔ اب جو نظام دنیا کے بڑے حصے میں رائج ہے۔ یعنی کلو گرام تو گرام چنے کے دانے کو کہتے ہیں۔ جسے ابتداء میں بنیادی اکائی مانا گیا اونس اور پاوئنڈ کا برطانوی نظام گرین (Grain) پر مبنی ہے۔ جو غلے بالخصوص مکئی کے دانے کو کہتے ہیں۔ پیمائش میں فٹ (پائوں) یا ہاتھ وغیرہ کو بنیاد بنایا گیا۔ ظاہر ہے مکئ یا چنے کے ہردانے کا وزن ایک سانہیں ہوسکتا۔ تعامل کے ساتھ اس کم از کم مقدار کو حتمی طور پر متعین کر لیا گیا۔ اور اس طرح ایک ہی معیار کے تولنے کے باٹ وغیرہ وجود میں آئے۔ تعامل یا زیادہ سے زیادہ برتنے کا عمل ناپ تول کے نظام میں کی تکمیل میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ چونکہ مدینہ ایک زرعی شہر تھا۔ جہاں لین دین میں ناپ یا کیل رائج تھا۔ مدینہ کے تعامل نے اس نظام کو پختہ کردیا تھا۔ اس لئے ناپ میں اہل مدینہ کے پیمانوں کو بنیادی معیار قرار دیا۔ مکہ ہر طرح کی اشیاء تجارت کا مرکز تھا جن میں قیمتی اشیاء بھی شامل تھیں۔ سونے چاندی خوشبودار مصالحے وغیرہ کا لین دین وزن سے ہوتا ہے۔ مکہ کے تعامل نے وزن کے نظام کو پختہ کردیا تھا۔ اس لئے وزن میں مکہ کے تعامل (Practice) کو معیار قرار دیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3340