عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ علی، مقداد اور عمار رضی اللہ عنہم نے آپس میں بات کی، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک ایسا آدمی ہوں جسے بہت مذی آتی ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس کے بارے میں) پوچھنے سے شرماتا ہوں، اس لیے کہ آپ کی صاحبزادی میرے عقد نکاح میں ہیں، تو تم دونوں میں سے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے (عطاء کہتے ہیں:) ابن عباس رضی اللہ عنہا نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان دونوں میں سے ایک نے (میں اس کا نام بھول گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مذی ہے، جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اسے اپنے جسم سے دھو لے، اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرے“، راوی کو شک ہے «وضوئه للصلاة» کہا یا ” «كوضوء الصلاة» کہا۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 436]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 436
436 ۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے سنن نسائی احادیث: 152، 153، 157 اور ان کے فوائدومسائل۔ سلیمان پر اختلاف وضاحت: درج ذیل دو احادیث میں حضرت سلیمان اعمش کے شاگرد، سلیمان سے اوپر والی سند مختلف بیان کرتے ہیں۔ پہلی حدیث میں سلیمان کے استاد حبیب بن ابی ثابت ہیں اور دوسری حدیث میں ان کے استاد منذر ہیں۔ اس سے اوپر بھی سند مختلف ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ روایت مضطرب ہے یا کوئی ایک سند غلط ہے، بلکہ دونوں درست ہیں۔ صرف راویوں کا اختلاف بیان کرنا مقصود ہے، حدیث میں طعن کرنا مراد نہیں۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 436
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث507
´مذی سے وضو کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے۔ وہ (گھر سے) باہر تشریف لائے۔ (بات چیت کے دوران ان میں ابی نے) فرمایا: مجھے مذی آ گئی تھی تو میں نے عضو خاص کو دھو کر وضو کیا ہے (اس لیے باہر آنے میں دیر ہوئی) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا یہ (وضو کر لینا) کافی ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: کیا آپ نے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (خود) سنا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 507]
اردو حاشہ: یہ روایت اس سند کے ساتھ ضعیف ہے، تاہم صحیح احادیث کی روشنی یہ مسئلہ درست ہے کہ مذی سے غسل واجب نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 507
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 697
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے مقداد بن اسود کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا، تو اس نے آپﷺ سے انسان سے نکلنے والی مذی کے بارے میں پوچھا کہ وہ اس کا کیا کرے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وضو کر اور شرم گاہ کو دھو لے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:697]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ سسرال والوں سے بیوی سے استمتاع کی باتیں کرنا مناسب نہیں ہے اور جب براہ راست گفتگو کرنے میں کوئی مانع موجود ہو تو بات بالواسطہ ہو سکتی ہے اور دوسروں کے ذریعہ فتویٰ یا مسئلہ پوچھا جا سکتا ہے۔ 2۔ مذی سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور مذی نکلنے کی صورت میں عضو مخصوص کو دھو لینا کافی ہے۔ اس کے لیے غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بول وبراز سے استنجا کے لیے پتھریا ڈھیلا کافی ہے۔ لیکن مذی نکلنے کی صورت میں پانی کا استعمال ضروری ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 697
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 22
سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (مسئلہ پوچھنے کے لیے) بھیجا۔ تو اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جس شخص کی مذی نکل جائے وہ کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کرو اور اپنی شرم گاہ دھولو۔“[صحيح ابن خزيمه ح: 22]
فوائد:
➊ مذی سفید رقیق لیس دار مادہ ہے جو مباشرت سے قبل شہوت کے بغیر خارج ہوتا ہے اور اس مادہ کے خروج کے بعد کمزوری اور اضمحلال واقع نہیں ہوتا، بعض اوقات مذی کا خروج محسوس تک نہیں ہوتا، زن وشو میں سے ہر دو اس (مذی) سے دو چار ہوتے ہیں اور مردوں کی بہ نسبت عورتوں میں یہ عارضہ اکثر ہوتا ہے۔
➋ نضح کا معنی دھونا اور پانی چھڑکنا ہے اور ایک روایت میں شرمگاہ کے دھونے کا حکم ہے، جس سے نضح کا معنی دھونا متعین ہو جاتا ہے۔
➌ علماء کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ خروج مذی سے غسل واجب نہیں ہوتا اور ابو حنیفہؒ، شافعیؒ، احمدؒ اور جمہور علماء کا موقف ہے کہ خروج مذی سے وضو واجب ہو جاتا ہے۔ [نووي: 212/3]
➍ مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ خروج مذی ناقض وضو ہے جب کہ منی ناقض غسل ہے اور منی سے غسل کرنا واجب ہے۔
➎ مذی سے آلودہ شرمگاہ کو دھونا واجب ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں خروج مذی سے شرمگاہ کو دھونے کا حکم ہے اور حکم وجوب کا مقتضی ہے۔ [المغني لابن قدامه: 295/1]
نیز امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مذی نجس ہے۔ اسی وجہ سے آپ نے شرمگاہ کو دھونے کا حکم دیا ہے۔ شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک اس دھونے سے مقصود شرمگاہ کے اس حصے کو دھونا ہے جہاں مذی لگی ہو، تمام شرمگاہ کو دھونا واجب نہیں جب کہ امام مالکؒ اور احمدؒ سے منقول ہے کہ تمام شرمگاہ کو دھونا واجب ہے۔ [نووي: 3/ 212]
➏ فتویٰ طلبی میں نائب مقرر کرنا جائز ہے اور قطعی خبر پر قدرت کے باوجود ظنی خبر پر اعتماد کرنا درست ہے۔ کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سوال کرنے کا اختیار ہونے کے باوجود مقداد رضی اللہ عنہ کی بات پر اکتفا کیا۔
➐ سوال سے معلوم ہوا کہ حسن معاشرت مستحب فعل ہے اور خاوند کا بیوی سے مباشرت اور استمتاع سے متعلقہ امور کا بیوی کے باپ، بھائی اور بیٹے کی موجودگی میں ذکر نہ کرنا مستحب ہے۔ [نووي: 213214/3]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 22
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 23
سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بہت زیادہ مذی والا شخص تھا۔ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مذی (نکلنے) سے تمہارے لیے وضو کرنا کافی ہو گا۔“... [صحيح ابن خزيمه ح: 23]
فوائد:
اس حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ مذی سے آلودہ شرمگاہ وغیرہ کو دھونا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، درست نہیں۔ کیونکہ امر وجوب کا متقاضی ہے، لٰہذا مذی سے آلودہ شرمگاہ کو دھونا لازم ہے، جیسا کہ پچھلی روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
نیز «يَكْفِيكَ مِنْ ذلِكَ الْوُضُوءُ» سے شرمگاہ کے دھونے کے عدم وجوب پر استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ اس سے اثبات و کفایت وضو سے غسل کی نفی ہے کہ اس سے غسل واجب نہیں بلکہ خروجِ منی سے غسل واجب ہوتا ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 23