ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام ایک ڈھال ہے جس کے زیر سایہ ۱؎ سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے جان بچائی جاتی ہے۔ لہٰذا اگر وہ اللہ سے تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور اگر وہ اس کے علاوہ کا حکم دے تو اس کا وبال اسی پر ہو گا“۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4201]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4201
اردو حاشہ: (1) امیر و امام کے حقوق و فرائض کی تعیین و تبیین کے بعد جو بھی اس سے عدول اور تجاوز کرے گا، گناہ گار ہو گا۔ امام اپنے فرائض عدل و انصاف سے ادا کرے گا تو وہ اجر عظیم کا مستحق ہو گا اور اگر ظلم و بے انصافی کرے گا تو اللہ کے ہاں گناہ گار ٹھہرے گا۔ (2) حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ امام کو ڈھال بنایا جائے، شر اور فتنہ و فساد سے امام کے ذریعے سے بچا جائے۔ تمام معاملات میں اس کے مبنی بر انصاف فیصلے تسلیم کیے جائیں، اور اس کی اطاعت کی جائے، اسے کسی بھی صورت میں اپنے تعاون سے محروم نہ کیا جائے اور نہ اسے کسی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑا جائے۔ اپنی ہلاکت کے ڈر سے اسے تنہا نہ چھوڑا جائے وغیرہ۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ شرعی امیر و حاکم لوگوں کے لیے اس طرح ڈھال ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہیں کرتا، نیز دشمن بھی اس سے خوف زدہ رہتا ہے، لہٰذا اس ڈھال کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ”اس کی آڑ میں لڑا جائے“ کے معنیٰ ہیں کہ امام کو محفوظ جگہ رکھا جائے، دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ امام خود مجاہدین کی اگلی صفوں میں ہو اور بہادری سے دشمن کے ساتھ قتال کرے۔ دونوں معانی درست ہیں کیونکہ بعض مقامات پر نبی ﷺ کے لیے محفوظ جگہ بنائی گی۔ جہاں سے آپ میدان جنگ کا مشاہدہ کرتے اور اس کے مطابق اوامر جاری فرماتے اور بعض مقامات میں نبی ﷺ کا اگلی صفوں میں رہ کر قتال کرنا بھی ثابت ہے، جب جنگ کی شدت ہوتی تو صحابہ آپ کو اپنے لیے ڈھال بناتے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4201
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2757
´عہد و پیمان میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہے اس لیے امام جو عہد کرے اس کی پابندی لوگوں پر ضروری ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام بحیثیت ڈھال کے ہے اسی کی رائے سے لڑائی کی جاتی ہے (تو اسی کی رائے پر صلح بھی ہو گی)“۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2757]
فوائد ومسائل: امام یعنی ریئس۔ اور قائد اسلام او ر مسلمانوں کی شان وشوکت کی ایک علامت ہوتا ہے۔ دشمنوں سے انھیں محفوظ رکھنے کی تدبیرکرتا۔ اور خود ان کے مابین بھی امن وامان قائم رکھتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کفار سے جو عہد وپیمان کے گئے ہوں تمام لوگ اس کا پاس کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2757
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4772
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام تو ڈھال ہے، اس کی سرپرستی اور نگرانی میں جنگ لڑی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ بچاؤ حاصل کیا جاتا ہے، اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے گا اور عدل سے کام لے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور اگر اس کے سوا حکم دے گا، تو اس کا گناہ اس پر ہو گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4772]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) جُنَّة: ڈھال، سپر۔ (2) يُقَاتَلُ مَن وَّرَائِه: اس کی پشت پناہی اور سرپرستی میں جنگ لڑی جاتی ہے۔ (3) يُتَّقٰي بِهِ: اس کے ذریعہ ظلم وستم سے امان اور بچاؤ حاصل کیا جاتا ہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم اعلیٰ اور امام اپنی رعایا کے مفادات کا محافظ و نگران ہے، ان کو ہر قسم کے بیرونی اور اندرونی خطرات اور نقصانات سے بچاتا ہے، دشمن کے حملہ سے بچاؤ اور حفاظت کی تدبیر اور انتظام کرتا ہے اور دفاعی انتظامات کرتا ہے، سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے اور اندرونی فتنہ و فساد اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ظلم و ستم سے بچاتا ہے، اس کی ہیبت و دبدبہ کی بنا پر لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہیں ڈھاتے اور اس کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی حدود کی پابندی کا حکم دے اور عدل و انصاف سے کام لے تاکہ وہ اللہ کے ہاں سرخرو ہو اور ثواب حاصل کرے، اگر وہ اس کے خلاف ورزی کرتا ہے، خود اسلامی حدود کو توڑتا ہے اور ظلم و ستم سے کام لیتا ہے، تو اس سے اس کا مواخذہ ہو گا، لیکن اس کے خلاف بغاوت نہیں کی جائے گی۔