الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب البيعة
کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
15. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ فِي انْقِطَاعِ الْهِجْرَةِ
15. باب: ہجرت کے ختم ہو جانے کے سلسلے میں اختلاف روایات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4175
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ الْفَتْحِ لَا هِجْرَةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ , فَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز فرمایا: ہجرت تو (باقی) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت ہے، لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل پڑو۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4175]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصید 10 (1834)، الجہاد 1 (2783)، 27 (2825)، 194(3077)، صحیح مسلم/الإمارة 20 (1353)، سنن ابی داود/الجہاد 2 (2480)، سنن الترمذی/السیر 33 (1590)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 9 (2773) (الجزء الأخیرفحسب)، (تحفة الأشراف: 5748)، مسند احمد (1/226، 266، 316، 355)، سنن الدارمی/السیر 69 (2554) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريلا هجرة بعد الفتح
   صحيح البخاريلا هجرة لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا هذا البلد حرمه الله يوم خلق السموات والأرض فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة لم يحل القتال فيه لأحد قبلي لم يحل لي إلا ساعة من نهار هو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة
   صحيح البخاريلا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   صحيح البخاريلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح البخاريلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح مسلملا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح مسلملا هجرة لكن جهاد ونية
   جامع الترمذيلا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   سنن أبي داودلا هجرة لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   سنن النسائى الصغرىلا هجرة لكن جهاد ونية
   سنن ابن ماجهإذا استنفرتم فانفروا
   بلوغ المرام لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4175 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4175  
اردو حاشہ:
(1) لَا هِجْرَةَ، اس کے یہ معنیٰ درست نہیں کہ اب ہجرت بالکل ختم ہو چکی ہے‘ کوئی مسلمان دار الکفر میں‘ خواہ کسی بھی حالت میں ہوا‘ اس کے لیے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا جائز نہیں بلکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے ہجرت نہیں جیسا کہ امام نوویؒ نے فرمایا: ہمارے اصحاب اور دیگر علماء نے کہا ہے: دارالحرب سے سے دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا قیامت تک باقی ہے‘ چنانچہ انھوں نے مذکوہ حدیث مبارکہ  [لَا هِجْرَةَ۔۔۔۔الخ ] کی دو تو جیہیں فرمائی ہیں: ایک تو یہ کہ فتح مکہ کے بعد‘ مکہ سے ہجرت نہیں کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ اس لیے وہاں سے ہجرت کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اور دوسری توجیہ یہ کہ وہ فضیلت والی اہم ہجرت جو (ابتدائے اسلام میں) مطلوب تھی اور جس کے فاعل ممتاز حیثیت کے حامل بن گئے‘ اب مکہ سے وہ ہجرت ختم ہوچکی ہے۔ اس ہجرت کا اعزاز جس جس کے مقدر میں تھا‘ وہ ہر اس شخص کو مل چکا ہے جس نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کرلی۔ اب (فتح مکہ کے بعد) ہجرت کرنے کا وہ اعزاز کسی اور کو نہیں مل سکتا‘ اس لیے کہ فتح مکہ کے بعد اسلام معزز اور مضبوط ہوچکا ہے۔دیکھیے: (شرح مسلم:13،12/13) ہجرت کے متعلق کے مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخيرة العقبىٰ شرح سنن النسائي:147/32)
(2) اس حدیث میں ہے کہ اب ہجرت نہیں رہی جبکہ بعد والی احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی۔ ظاہراََ ان حادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے‘ حالانکہ ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ان احادیث میں تطبیق ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ جن احادیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوچکی‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ہجرت فتح مکہ سے پہلے‘ یعنی ابتدائے اسلام میں فرض تھی‘ وہ اب ختم ہوگئی ہے کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ لہٰذا وہاں سے ہجرت کرنا باقی نہیں رہی۔ اور جن احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہر دارا لحرب سے‘ دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا باقی ہے۔ اس صورت میں دارا لحرب سے ہر زمانے میں ہجرت کی جائے گی اور ایسی ہجرت قیامت تک باقی ہے۔ واللہ أعلم
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے‘ چنانچہ جب کچھ لوگوں کے کرنے سے کفایت ہو جائے تو پھر باقی لوگوں سے جہاد ساقط ہو جائے گا‘ ہاں! اگر تمام لوگ جہاد کرنا چھوڑ دیں تو اس صورت میں سب گناہ گار ہوں گے۔
(4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب امام جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے تو ہر اس شخص کے لیے نکلنا ضروری ہو گا جسے امام حکم دے۔ امام قرطبیؒ نے اس مسئلے کے متعلق اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔
(5) یہ حدیث ہر خیر اور بھلائی کے قول وعمل کا شوق دلاتی ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر نیت خیر پر اجرو ثواب ہے، نیز ہر برائی اور عمل شر سے اجتناب کی نیت بھی باعث اجر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4175   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3189  
´دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ: يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، قَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا، اب (مکہ سے) ہجرت فرض نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور جہاد کا حکم باقی ہے۔ اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے نکالا جائے تو فوراً نکل جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اسی دن اس شہر (مکہ) کو حرم قرار دے دیا۔ پس یہ شہر اللہ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا، اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا۔ اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ پس اب یہ مبارک شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس کی حدود میں نہ (کسی درخت کا) کانٹا توڑا جائے، نہ یہاں کے شکار کو ستایا جائے، اور کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے سوا اس شخص کے جو (مالک تک چیز کو پہنچانے کے لیے) اعلان کرے اور نہ یہاں کی ہری گھاس کاٹی جائے۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے۔ کیونکہ یہ یہاں کے سناروں اور گھروں کی چھتوں پر ڈالنے کے کام آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اذخر کی اجازت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3189]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3189 باب: «بَابُ إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح فرمایا کہ دغا بازی (دھوکہ دہی) کرنا سخت گناہ ہے چاہے کوئی دغا بازی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا گنہگار کے، مگر دغا باز ہر حال میں دغا بازی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ترجمۃ الباب کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مکہ ایک حرمت والا شہر ہے اور وہاں کسی قسم کی لڑائی کرنا اللہ کے نزدیک حرام ہے، لیکن جب سیاق کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عہد کیا تھا اسے توڑ ڈالا، لہذا مکہ والوں نے دغا کیا، بنو خزاعہ کے مقابلے میں انہوں نے بنو بکر والوں کی مدد کی تو اللہ تعالی نے اس جرم کی پاداش میں انہیں سخت ترین سزا دی کہ حرمت والے شہر مکہ میں بھی انہیں مار ڈالنے کی اجازت عطا کی، لہذا یہاں سے ان کا دغا باز ہونا ثابت ہوا اور انہیں سخت ترین سزا دی گئی کہ حرمت والے شہر میں لڑنے کی اجازت ایمان والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا کی گئی کیوں کہ وہ دغا باز تھے اور دغا بازی کبیرہ گناہ ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے، اسی مناسبت کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
«و يحتمل أن يكون أشار بذالك إلى ما وقع من سبب الفتح الذى ذكر فى الحديث و هو غدر قريش بخزاعة حلفاء النبى صلى الله عليه وسلم لما تحاربوا مع بني بكر حلفاء قريش، فأمرت قريش بني بكر و أعانوهم على خزاعة و بيوتهم فقتلوا منهم جماعة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 350]
ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مطابقة الترجمة لحديث مكة، أن النبى صلى الله عليه وسلم نص على أنها اختصت بالحرمة إلا فى الساعة المستثناه و ليس المراد حرمة قتل المؤمن البر فيها.» [المتواري، ص: 200]
ترجمۃ الباب سے مطابقت کی وجہ حدیث مکہ میں یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص فرمایا: مکہ کی حرمت کو سوائے اس استثنائی گھٹری میں (مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہوا جس کا ذکر سابقہ اوراق میں کیا گیا) اور اس کی حرمت سے مراد یہ نہیں کہ مؤمن نیک آدمی کو اس میں قتل کیا جائے۔
فائدہ:
بعض منکرین حدیث مذکورہ بالا حدیث پر اشکال وارد کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: «لا هجرة و لكن جهاد و نية» یعنی ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید قیامت تک ہجرت کو برقرار رکھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
« ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ » [الانفال: 75]
اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہیں۔
مندرجہ بالا آیت کو نقل کرنے کے بعد ان کا دعوی یہ ہے کہ حدیث جس میں ہجرت کے عمل کو ختم کر دیا گیا ہے وہ آیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہو گی۔
دراصل یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو کہ سرسری طور پر قرآن اور احادیث کا مطالعہ کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہرگز یہ حکم نہیں ہے کہ ہجرت کا حکم منسوخ ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر غور کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، یعنی ان صحابہ کے لئے فتح مکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت کو ساقط کیا تھا نہ کہ ہجرت کے حکم کو ساقط فرمایا گیا۔ اصول حدیث کا معروف قاعدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح کرتی ہے، بعض روایات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اسی مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، خبادہ بن ابی امیہ فرماتے ہیں:
«أن رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعضهم أن الهجرة قد انقطعت فاختلفوا فى ذالك، قال: فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! أن أناسا يقولون، أن الهجرة قد انقطعت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الهجرة لا تنقطع ما كان الجهاد.» [مسند احمد، ج 27، ص: 142، صححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى الإصابة]
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اس مسئلے میں (صحابہ میں) اختلاف ہوا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت (کا حکم) منقطع ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا ہجرت (کا حکم) منقطع نہ ہو گا جب تک جہاد جاری رہے گا۔
امام الطحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں حدیث کا ذکر فرمایا کہ:
«لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار.» [شرح مشكل الآثار للطحاوي، ج 7، رقم: 2631]
جب تک کفار سے قتال ہو گا تب تک ہجرت رہے گی۔
ان احادیث سے واضح ہوا کہ جب تک جہاد قائم رہے گا تب تک ہجرت کا حکم بھی باقی رہے گا، لہذا ہجرت نہیں ہے فتح مکہ کے بعد اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح مکہ کے روز ہجرت کی ان کے لئے ہجرت کی فرضیت ساقط ہو گئی، نہ کہ قیامت تک ہجرت کا حکم منقطع ہوا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 469   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2480  
´کیا ہجرت ختم ہو گئی؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا: اب (مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں (کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا) لیکن جہاد اور (ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2480]
فوائد ومسائل:
چونکہ فتح مکہ سے پہلے جہاں آدمی رہ رہا تھا۔
اسلام لانے کے بعد اسے وہاں سے مدینہ کو ہجرت کرنا واجب تھا۔
اور مکہ ان تمام جگہوں کا مرکز تھا۔
فتح مکہ کے بعد وہ دارالاسلام بن گیا۔
تو اس سے ہجرت کا کوئی معنی باقی نہ رہا۔
مگر باقی دنیا میں جہاں کہیں احوال دگرگوں ہو ں تو اپنے اسلام اور ایمان کی حفاظت کےلئے نقل مکانی مطلوب وماجور ہے۔
اور ایسے ہی جہاد بھی قیامت تک جاری ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2480   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2773  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل کھڑے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2773]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کافروں سے جہاد کا موقع آئےتو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاد میں عملی طور پر شریک ہونا چاہیے۔

(2)
ایک باقاعدہ اسلامی حکومت میں امیر کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر ایسی صورت حال نہ ہو اور کسی علاقے کے مسلمان کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہوں تو مسلمانوں کو خود منظم طور پر جہاد کرنا چاہیے۔
اس صورت میں امیر جہاد جس محاذ پر بھیجے جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2773   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1590  
´ہجرت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے، اور جب تم کو جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو نکل پڑو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1590]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے خاص طور پر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہے کیوں کہ مکہ اب دار السلام بن گیا ہے،
البتہ دار الکفر سے دار السلام کی طرف ہجرت تا قیامت باقی رہے گی جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے سبب جس خیر و بھلائی سے لوگ محروم ہو گئے اس کا حصول جہاد اور صالح نیت کے ذریعہ ممکن ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1590   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3302  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ہجرت کا حکم نہیں رہا، لیکن جہاد ہے، اور نیت، تو جب تمہیں جہاد کے لیے کوچ کرنے کو کہا جائے تو چل پڑو۔ اور فتح کے دن، فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: یہ شہر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس دن سے محترم قرار دیا ہے، جس دن آسمان و زمین کو پیدا کیا، لہذا اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت تک کے لیے اس کا ادب و احترام ضروری ہے، اور مجھ سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3302]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فتح مکہ سے پہلے،
جب مکہ پر اہل کفر اور شرک کا اقتدارتھا جو اسلام اور اہل اسلام کے جانی دشمن تھے،
مکہ میں رہ کر کسی مسلمان کے لیے اسلامی زندگی گزارنا تقریباً نا ممکن تھا۔
اور مدینہ جو اس وقت اسلامی مرکز روئے زمین پر اسلامی زندگی کی واحد تعلیم گاہ اور تربیت گاہ تھی،
اس میں مسلمانوں کی قوت مجتمع کرنا ضروری تھا،
ان حالات میں ہجرت فرض تھی،
اور بڑی فضیلت اور اہمیت کی حامل تھی۔
جب 8ھجری میں اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ پر اسلامی اقتدار وغلبہ قائم کروا دیا،
تو پھر مکہ سے ہجرت کی ضرورت ختم ہو گئی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ ہی کے دن اعلان کر دیا،
اب ہجرت کا حکم ختم ہو گیا،
اس لیے اب اپنے علاقے سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا نہیں ہے،
لیکن اگر کوئی انسان ایسے علاقہ میں رہتا ہے جہاں اسلام اور اہل اسلام کو برداشت نہیں کیا جاتا،
اور اہل اسلام کا ایمان اور جان محفوظ نہیں ہے،
وہ اجتماعی طور پر اپنا دفاع نہیں کرسکتے بلکہ کفر اختیار کرنے پر مجبور ہیں،
تو پھر انہیں ایسے علاقہ کو چھوڑنا،
اگر ان کے لیے ممکن ہو،
انہیں کہیں پناہ مل سکتی ہو،
توا نہیں ایسے علاقہ سے ہجرت کرنا چاہیے،
اب عام لوگوں کے لیے ہجرت کی فضیلت وسعادت حاصل کرنے کا دروازہ بند ہو چکا ہے لیکن جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ،
گناہوں اور برے اعمال سے باز آنے کا راستہ کھلا ہے۔
اور گناہوں اور منہیات کو چھوڑنے والے کوبھی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجر کا نام دیا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام اور دین کی پابندی کی نیت اوربالخصوص اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر ہر قسم کی قربانی کی نیت سے انسان اپنے لیے سعادت وفضیلت حاصل کرسکتا ہے۔
دوسرا اعلان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ شہر مکہ کی عظمت وحرمت دور قدیم سے چلی آ رہی ہے اور یہ محض رسم ورواج یا کسی فرد یا پنچایت اور حکومت کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے،
اور قیامت تک کے لیے ہے،
اگرچہ اس کی حرمت کی تشہیر،
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے،
کیونکہ کعبہ کی تعمیر جدید انہوں نے کی اور اس وقت اس جگہ آبادی شروع ہوئی جو اب قیامت تک قائم رہے گی۔

اس ادب واحترام کا تقاضا ہے کہ حرم کی حدود میں بالاتفاق کسی جانور کا شکار کرنا یا شکار کو ڈرانا اور پریشان کرنا اور اس کا پیچھا کرنا ناجائز ہے۔
خواہ انسان احرام کی حالت میں ہو یا نہ ہو،
اور جمہور ائمہ کے نزدیک جو شخص حرم کی حدود میں شکار کرے گا،
اس کے ذمہ وہی فدیہ ہے جواحرام کی حالت میں شکار کرنے پر عائد ہوتا ہے۔
اس طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ حرم کی حدود میں ہر اس درخت کا توڑنا اورکاٹنا ناجائز ہے جو قدرتی طور پر اُگا ہو،
البتہ اَذْخَرْ،
سبزیاں اورترکاریاں یا پھول جنہیں انسان اپنی محنت سے اگاتا ہے انہیں کاٹنا اور توڑنا جائز ہے،
اور جمہور ائمہ کے نزدیک ایسے درخت کا توڑنا اور کاٹنا بھی جائز ہے جسے انسان نے خود اپنی محنت سے اگایا ہو،
لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسے درخت کا کاٹنا بھی جائز نہیں ہے،
البتہ اس سے مسواک کاٹی جاسکتی ہے اورحنابلہ میں سے ابن قدامہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو ترجیح دی ہے۔
(المغنی ج5 ص 185۔
186)
(قتل وقتال کی بحث آ گے آ رہی ہے۔
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3302   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4829  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: اب (مکہ سے) ہجرت نہیں ہے، لیکن جہاد اور نیت باقی ہے اور جب تمہیں نکلنے کے لیے (جہاد کے لیے) کہا جائے تو نکل کھڑے ہو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4829]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فتح مکہ کے بعد اسلام کے غلبہ کی بنا پر،
مکہ یا دوسری جگہوں سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آنے کی ضرورت نہیں ہے،
کیونکہ اسلام کے غلبہ و اقتدار کی بنا پر اب مسلمان اپنی اپنی جگہ،
اپنے اپنے قبائل میں رہ کر دین پر کھلے بند عمل کر سکتے ہیں،
لیکن جہاد کے لیے نکلنے کی ضرورت باقی ہے اور نیک نیت کے ذریعہ بھی انسان ثواب حاصل کر سکتا ہے،
اب جس علاقہ پر دشمن چڑھائی کرے،
اس ملک کے تمام مسلمانوں پر جہاد کرنا فرض عین ہے،
عذر والوں کے سوا کوئی مسلمان اس سے مستثنیٰ نہیں ہے،
لیکن اگر دوسرے مسلمان ملک پر یا مسلمانوں پر حملہ ہو اور وہ خود اپنا دفاع نہ کر سکتے ہوں،
تو پھر ان کا دفاع کرنا فرض کفایہ ہے،
اگر کوئی بھی ان کی مدد نہیں کرے گا،
تو سب گناہ گار ہوں گے،
اگر بقدر ضرورت ان کی مدد کا انتظام کریں گے،
تو گناہ سے بچ جائیں گے،
(شرح السنة،
ج: 1،
ص 374۔
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4829   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3077  
3077. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: اب ہجرت باقی نہیں رہی، البتہ حسن نیت اور جہاد باقی ہے۔ اور جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل جاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3077]
حدیث حاشیہ:
خاص مکہ سے مدینہ منورہ کی ہجرت مراد ہے۔
پہلے جب مکہ دارالاسلام نہیں تھا اور مسلمانوں کو وہاں آزادی نہیں تھی‘ تو وہاں سے ہجرت ضروری ہوئی۔
لیکن اب مکہ اسلامی حکومت کے تحت آ چکا۔
اس لئے یہاں سے ہجرت کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا۔
یہ معنی ہرگز نہیں کہ سرے سے ہجرت کا حکم ہی ختم ہو گیا۔
کیونکہ جب تک دنیا قائم ہے اور جب تک کفر و اسلام کی کشمکش باقی ہے‘ اس وقت تک ہر اس خطہ سے جہاں مسلمانوں کو احکام اسلام پر عمل کرنے کی آزادی حاصل نہ ہو‘ دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا فرض ہے۔
ہجرت کے لغوی معنی چھوڑنا‘ اصطلاح میں اسلام کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر دار الاسلام میں جا رہنا‘ اگر یہ ہجرت رضائے الٰہی کے لئے مقررہ اصولوں کے تحت کی جائے تو اسلام میں اس کا بڑا درجہ ہے۔
اور اگر دنیا طلبی یا اور کوئی غرض فاسد ہو تو اس ہجرت کا عنداللہ کوئی ثواب نہیں ہے۔
جیسا کہ حضرت امام بخاری ؒ شروع ہی میں حدیث إنما الأعمالُ بِالنیاتِ نقل فرما چکے ہیں۔
اس دور پر فتن میں بھی یہی حکم ہے۔
جو لوگ کسی ملک میں مہاجر کے نام سے مشہور ہوں ان کو خود فیصلہ کرنا ہے وہ مہاجر کس قسم کے ہیں۔
﴿بَلِ الْاِنْسَانِ عَلٰی نَفْسِه بَصِیْرَة وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَه﴾ (القیامة: 14،15)
کا یہی مطلب ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ خود گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں اور اپنے بارے میں خود فیصلہ کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3077   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3189  
3189. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: اب (مکہ سے) ہجرت نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور اس کا حکم باقی ہے، اس لے جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کاحکم دیا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ آپ نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا: جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اسی دن اس شہر کو حرام قرار دے دیا، اس لیے یہ شہر اللہ کی حرمت کے باعث قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ یہ شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرام ہے، لہذا اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا شکار ہی ستایا جائے، نیز یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، البتہ جو شخص(مالک تک پہنچانے کے لیے) اس کی شہرت کرے وہ اٹھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3189]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے بھی کئی بار گزرچکی ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ نے اس میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ باوجودیکہ وہ حرمت والا شہر تھا اور وہاں لڑنا اللہ نے کسی کے لیے درست نہیں کیا، مگر چونکہ مکہ والوں نے دغا کی اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو عہد باندھا تھا وہ توڑ دیا، بنوخزاعہ کے مقابلہ پر بنوبکر کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی سزا میں ایسے حرمت والے شہر میں بھی ان کا مارنا اور قتل کرنا اپنے رسول ﷺکے لیے درست کردیا۔
اس سے یہ نکلا کہ دغابازی بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا بہت سخت ہے۔
باب کا یہی مطلب ہے۔
خاتمہ! الحمدللہ ثم الحمد للہ کہ آج جمعہ کا دن ہے چاشت کا وقت ہے۔
ایسے مبارک دن میں پارہ12 کی تسوید سے فراغت حاصل کررہا ہوں، یہ طویل پارہ از اول تا آخر کتاب الجہاد پر مشتمل تھا، جس میں بہت سے ضمنی مسائل بھی آگئے۔
اسلامی جہاد کے ماله، و ماعلیه کو جس تفصیل سے حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی اس مبارک کتاب میں قرآن مجید و فرامین سرکار رسال مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں پیش فرمایا ہے اس سے زیادہ ناممکن تھا۔
ساتھ ہی اسلامی نظریہ سیاست، اسلامی طرز حکومت، غیرمسلموں سے مسلمانوں کا برتاؤ، آداب جہاد اور بہت سے تمدنی مسائل پر اس قدر تفصیل سے بیانات آگئے ہیں کہ بغور مطالعہ کرنے والوں کے دل و دماغ روشن ہوجائیں گے اور آج کے بدترین دور میں جبکہ انکار مذہب کی بنیاد پر تہذیب و ترقی کے راگ الاپے جارہے ہیں۔
جس کے نتیجہ بد میں سارا عالم انسانیت بدامنی و بداخلاقی کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔
کم از کم نوجوانان اسلام کے لیے جن کو اللہ نے فطرت سلیمہ عطا کی ہے اس مبارک کتاب کے اس پارے کا مطالعہ ان کو بہت کچھ بصیرت عطا کرے گا۔
خادم نے ترجمہ اورتشریحات میں کوشش کی ہے کہ احادیث پاک کے ہر ہر لفظ کو احسن طورپر بامحاورہ اردو میں منتقل کردیا جائے اور اختصار و ایجاز کے ساتھ کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہے۔
اب یہ ماہرین فن ہی فیصلہ کریں گے کہ میں اس پاکیزہ مقصد میں کہاں تک کامیابی حاصل کرسکا ہوں۔
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مجھ سے کس قدر لغزشیں ہوئی ہوں گی جن کا میں پہلے ہی اعتراف کرتا ہوں اور ان علمائے کرام و فضلائے عظام کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں جو مجھ کو کسی بھی واقعی غلطی پر اطلاع دے کر مجھ کو نظرثانی کا موقع دیں گے۔
اور الانسان مرکب من الخطاء و النسیان کے تحت مجھے معذور سمجھیں گے۔
یا اللہ! جس طرح تو نے مجھ کو یہاں تک پہنچایا اور ان پاروں کو مکمل کرایا، باقی اجزاءکو بھی مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیو اور میرے جتنے بھی قدردان ہیں جو اس مبارک کتاب کی خدمت و اشاعت و مطالعہ میں حصہ لے رہے ہیں ان سب کو یااللہ! جزائے خیر عطا فرمائیو اور ان سے ان سب کے لیے قیامت کے دن وسیلہ نجات بنائیو، آمین برحمتك یا أرحم الراحمین ناچیزخادم محمد داؤد راز السلفی الدہلوی مقیم مسجد اہل حدیث 4121، اجمیری گیٹ دہلی، انڈیا 21جمادی الثانی1391ھ
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3189   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1834  
1834. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا: اب ہجرت باقی نہیں رہی، البتہ جہاد قائم اور خلوص نیت باقی رہے گا اور جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ بے شک یہ (مکہ) ایک ایسا شہر ہے کہ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اسے قابل احترام ٹھہرایاہے اور وہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے قابل احترام ہے۔ اس میں جنگ کرنا مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہ ہوا، میرےلیے بھی دن کے کچھ حصے میں حلال ہوا، اب وہ اللہ کی حرمت سے قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس لیے اس کا کانٹا نہ توڑاجائے اور نہ اس کے شکار ہی کو ہراساں کیا جائے۔ اس میں گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، ہاں جو شخص اس کی تشہیر کرے وہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کا سبز گھاس کاٹنابھی جائز نہیں ہے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اذخر (خوشبو دار گھاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1834]
حدیث حاشیہ:
عہد رسالت میں ہجر ت کا سلسلہ فتح مکہ پر ختم ہو گیا تھا کیوں کہ اب خود مکہ شریف ہی دار الاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنا نصیب ہو گیا لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی زمانہ میں کہیں بھی دار الحرب سے بوقت ضرورت مسلمان دار الاسلام کی طرف ہجرت کرسکتے ہیں۔
اس لیے فرمایا کہ اپنے دین ایمان کو بہرحال محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر زمانہ میں ہر وقت باقی ہے۔
ساتھ ہی سلسلہ جہاد بھی قیامت تک کے لیے باقی ہے جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کرے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا فرض ہو جاتا ہے، جب مکہ شریف فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی تھی، جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی بعد میں وہ اجازت جلدی ہی ختم ہو گئی اور اب مکہ شریف میں جنگ کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔
مکہ سب کے لیے دار الامن ہے جو قیامت تک اسی حیثیت میں رہے گا۔
بکۃ مبارکہ:
روایت مذکورہ میں مقدس شہر کا ذکر ہے جسے قرآن مجید میں لفظ بکہ سے بھی یا دکیا گیا ہے اس سلسلہ کی کچھ تفصیلات ہم مولانا ابوالجلال صاحب ندوی کے قلم سے اپنے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
مولانا ندوہ کے ان فضلاءمیں سے ہیں جن کو قدیم عبرانی و سریانی زبانوں پر عبور حاصل ہے اور اس موضوع پر ان کے متعدد علمی مقالات علمی رسائل میں شائع شدہ موجودہ ہیں ہم بکہ مبارکہ کے عنوان سے آپ کے ایک علمی مقالہ کا ایک حصہ معارف ص2 جلد نمبر6 سے اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
امید ہے کہ اہل علم اسے بغور مطالعہ فرمائیں گے۔
صاحب مقالہ مرحوم ہو چکے ہیں اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے آمین۔
توراۃ کے اندر مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے خدا کے حکم سے اپنا آبائی وطن چھوڑا تو ارض کنعان میں شکم کے مقام سے مورہ تک سفر کرتے رہے۔
(تکوین 6112)
شکم اسی مقام کا نام تھا جسے ان دنوں نابلس کہتے ہیں، مورہ کا مقام بحث طلب ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ جب سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو یہاں ان کو خدواند عالم کی تجلی نظر آئی۔
مقام تجلی پر انہوں نے خدا کے لیے ایک قربان گاہ بنائی (تکوین 7: 12)
توراۃ کے بیان کے مطابق اس مقام کے علاوہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹوں پوتوں نے اور مقامات کو بھی عبادت گاہ مقرر کیا لیکن قدامت کے لحاظ سے اولین معبد یہی مور ہ کے پاس والا تھا۔
مورہ نام کے بائبل میں دو مقامات کا ذکر ہے ایک مورہ جلجال کے مقابل کنعانیوں کے سرزمین میں پردن کے پار مغرب جانب واقع تھا جہاں قاضی جدعون کے زمانہ میں بنواسرائیل اور بنو مدین سے جنگ ہوئی تھی۔
(استشاء: 30: 11 و قاصیون 10: 7)
دوسرے مورہ کا ذکر زبورمیں وارد ہے بائبل کے مترجموں نے اس مورہ کے ذکر کو پردہ خفا میں رکھنے کی انتہائی کوشش کی ہے لیکن حقیقت کا چھپانا نہایت ہی مشکل کام ہے حضرت داؤد ؑ کے اشاروں کا اردو میں حسب ذیل ترجمہ کیا ہے:
اے لشکروں کے خداوند! تیرے مسکن کیا ہی دلکش ہیں، میری روح خداوند کے بارگاہوں کے لیے آرزو مند ہے، بلکہ گداز ہوتی ہے، میرا من اور تن زندہ خدا کے لیے للکارتا ہے، گورے نے بھی اپنی گھونسلا بنایا، اور ابابیل نے اپنا آشیانہ پایا جہاں وے اپنے بچے رکھیں، تیری قربان گاہوں کو اے لشکروں کے خدواند! میرے بادشاہ میرے خدا۔
مبارک ہو وہ جو تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ سدا تیری ستائش کرتے رہیں گے، سلاہ۔
مبارک ہیں وہ انسان جن کی قوت تجھ سے ہیں۔
ان کے دل میں تیری راہیں ہیں، وے بکا کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے ہیں، پہلی برسات اسے برکتوں سے ڈھانپ لیتی ہے۔
وہ قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ خدا کے آگے صیہون میں حاضر ہوتے ہیں۔
(زبور نمبر 84)
چھٹی اور ساتویں آیت کا ترجمہ انگریزی میں بھی تقریباً یہی کیا گیا ہے اور غالباً مترجمین نے ترجمہ میں ارادۃ غلطی سے کام لیا ہے، صحیح ترجمہ حسب دیل ہے:
عبری بعمق ہبکہ، معین بسیتوہو۔
گم برکوف یعطنہ مودہ، بلکو محیل ال حیل براءال الوہم یصیون۔
وہ بکہ کے بطحا میں چلتے ہیں، ایک کنویں کے پاس پھرتے ہیں، جمیع برکتیں، مورہ کی ڈھانپ لیتی ہیں، وہ قوت سے قوت تک چلتے ہیں، خدائے صیہون سے ڈرتے ہیں۔
مورہ درحقیقت وہی لفظ ہے، جسے قرآن کریم میں ہم بصورت مروہ پاتے ہیں۔
خدا نے فرمایا إِن الصفا و المروةَ من شعائرِ اللہِ یقینا صفا اور مروہ اللہ کے مشاعر میں سے ہیں۔
زبور نمبر84 سے ایک بیت اللہ، ایک کنویں، اور ایک مروہ کا وادی بکہ میں ہونا صراحت کے ساتھ ثابت ہے، اس سے خانہ کعبہ کی بڑی عظمت اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے، ہمارے پادری صاحبان کے نزدیک مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کعبہ کا احترام پیدا ہو، اس لیے انہوں نے زبور84 کے ترجمہ میں دانستہ غلطی سے کام لیا، بہرحال بائبل کے اندر مورہ نام کے دو مقامات کا ذکر ہے، جن میں سے ایک جلجال کے پاس یعنی ارض فسلطین میں تھا اور ایک وادی بکہ میں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا پہلا معبد کس مورہ کے پاس تھا۔
9ھ میں نجران کے نصرانیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا، ان نصرانیوں نے جیسا کہ سورۃ آل عمران کی بہت سی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے، یہود مسلمانوں اور مشرکین کے ساتھ مذہبی بحثیں کی تھیں، ان بحثوں کے درمیان یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ ملت ابراہیم کا اولین معبد کون تھا، اس کے جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (96)
فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾
(آل عمران: 196)
بلاشبہ پہلا خانہ خدا جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہی ہے، جو بکہ میں واقع ہے، مبارک ہے اور سارے لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے، اس میں کھلی نشانیاں ہیں، یعنی مقام ابراہیم ہے۔
جو اس میں داخل ہوا اس نے امان پائی اور لوگوں پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج فرض ہے بشرطیکہ راستہ چلنا ممکن ہو، اور اگر کوئی کافر کہا نہیں مانتا، یاد رہے اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔
جلجال کے قریب جو مورہ تھا اس کے پاس کسی مقدس معبد کا پوری تاریخ یہود کے کسی عہد میں سراغ نہیں ملتا، اس لیے یقینی طور پر ملت ابراہیم کا پہلا معبد وہی ہے جس کا ذکر زبور میں ہے اور یہی خانہ کعبہ ہے۔
خانہ کعبہ جس شہر یا علاقہ میں واقع ہے اس کا معروف ترین نام بکہ نہیں بلکہ مکہ ہے، قرآن پاک میں ایک جگہ مکہ کے نام سے بھی اس کا ذکر آیا ہے، زیر بحث آیت میں شہر کے معروف تر نام کی جگہ غیر مشہور نام کو ترجیح دی گئی ہے، اس کی دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ اہل کتاب کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ مورہ جس کے پاس توراۃ کے اندر مذکور معبد اول کو ہونا چاہئے، جلجال کے پاس نہیں، بلکہ اس وادی بکہ میں واقع ہے، جس کا زبور میں ذکر ہے، دوسری یہ ہے کہ مکہ دراصل بکہ کے نام کی بدلی ہوئی صورت ہے، تحریری نام اس شہر کا بکہ تھا، لیکن عوام کی زبان نے اسے مکہ بنادیا۔
سب سے قدیم نوشتہ جس میں ہم کو مکہ کا نام ملتا ہے وہ قرآن مجید ہے لیکن بکہ کا نام قرآن سے پیشتر زبور میں ملتا ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف جب 35 برس کی تھی تو قریش نے خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی، اس زمانہ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کے اندر سے چند پتھر ملے، جن پر کچھ عبارتیں منقوش تھیں، قریش نے یمن سے ایک یہودی اور ایک نصرانی راہب کو بلا کر وہ تحریریں پڑھوایں ایک پتھر کے پہلو پر لکھا ہوا تھا کہ أنا للہ ذوبکة میں ہوں اللہ بکہ کا حاکم، حفظتها بسبعة أملاك حنفاء میں نے اس کی حفاظت کی سات خدا پرست فرشتوں سے، بارکت لأهلها في الماء و اللحم اس کے باشندوں کے لیے پانی اور گوشت میں برکت دی مختلف روایات میں کچھ اور الفاظ بھی ہیں لیکن ہم نے جتنے الفاظ نقل کئے ہیں ان پر سب روایتوں کا اتفاق ہے، روایات کے مطابق یہ نوشتہ کعبہ کی بنائے ابراہیم کے اندر ملا تھا۔
سچ ہے یہی گھر ہے کہ جس میں شوکت اسلام پنہاں ہے اسی سے صاحب فاران کی عظمت نمایاں ہے راز
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1834   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2783  
2783. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں رہی، البتہ جہاد کرنا اور اچھی نیت کرنا اب بھی باقی ہیں۔ اور جب تمھیں جہاد کی خاطر نکلنے کے لیے کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2783]
حدیث حاشیہ:
یعنی اب فتح مکہ ہونے کے بعد وہ خود دارالاسلام ہوگیا‘ اس لئے یہاں سے ہجرت کرکے مدینہ آنے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا۔
یہ مطلب نہیں کہ ہجرت کا سلسلہ سرے سے ہی ختم ہوگیا ہے جہاں تک ہجرت کا عام تعلق ہے یعنی دنیا کے کسی بھی دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت‘ تو اس کا حکم اب بھی باقی ہے مگر اس کے لئے کچھ شرائط ہیں جن کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
یعنی قیامت تک جہاد فرض رہے گا‘ دوسری حدیث میں ہے کہ جب سے مجھ کو اللہ نے بھیجا قیامت تک جہاد ہوتا رہے گا‘ یہاں تک کہ اخیر میں میری امت دجال سے مقابلہ کرے گی۔
جہاد اسلام کا ایک رکن اعظم ہے اور فرض کفایہ ہے لیکن جب ایک جگہ ایک ملک کے مسلمان کافروں کے مقابلہ سے عاجز ہو جائیں تو ان کے پاس والوں پر‘ اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے اور اس کے ترک سے سب گنہگار ہوتے ہیں۔
اسی طرح جب کافر مسلمانوں کے ملک پر چڑھ آئیں تو ہر مسلمان پر جہاد فرض ہو جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں اور بوڑھوں اور بچوں پر بھی۔
ہمارے زمانہ میں چند دنیادار خوشامد خورے جھوٹے دغا باز مولویوں نے کافروں کی خاطر سے عام مسلمانوں کو بہکا دیا ہے کہ اب جہاد فرض نہیں رہا‘ ان کو خدا سے ڈرنا چاہئے اور توبہ کرنا بھی ضروری ہے‘ جہاد کی فرضیت قیامت تک باقی رہے گی۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک امام عادل سے پہلے بیعت کی جائے اور (محارب)
کافروں کو حسب وعدہ نوٹس دیا جائے اگر وہ اسلام یا جزیہ قبول نہ کریں‘ اس وقت اللہ پر بھروسہ کرکے ان سے جنگ کی جائے اور فتنہ اور فساد اور عورتوں اور بچوں کی خونریزی کسی شریعت میں جائز نہیں ہے۔
(وحیدی)
لفظ جہاد کی تشریح میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
والجھاد بکسر الجیم أصله لغة المشقة یقال جھدت جھادا بلغة المشقة وشرعا بذل الجھد في قتال الکفار ویطلق أیضا على مجاھدة النفس والشیطان والفساق فأما مجاھدة النفس فعلی تعلم أمور الدین ثم علی العمل بھا علی تعلیمھا وأما مجاھدة الشیطان فعلى دفع مایأتي من الشبھات وما یزینه من الشھوات وأما مجاھدة الکفار فنقع فبالید والمال واللسان والقلب وأما مجاھدة الفساق فبالید ثم اللسان ثم القلب (فتح الباری)
یعنی لفظ جہاد جیم کے کسرہ کے ساتھ لغت میں مشقت پر بولا جاتا ہے اور شریعت میں (محارب)
کافروں سے لڑنے پر اور یہ لفظ نفس اور شیطان اور فساق کے مجاہدات پر بھی بولا جاتا ہے پس نفس کے ساتھ جہاد دینی علوم کا حاصل کرنا‘ پھر ان پر عمل کرنا اور دوسروں کو انہیں سکھانا ہے اور شیطان کے ساتھ جہاد یہ کہ اس کے لائے ہوئے شبہات کو دفع کیا جائے اور ان کو جو وہ شہوات کو مزین کرکے پیش کرتا ہے‘ ان سب کو دفع کرنا شیطان کے ساتھ جہاد کرنا ہے اور محارب کافروں سے جہاد ہاتھ اور مال اور زبان اور دل کے ساتھ ہوتا ہے اور فاسق فاجر لوگوں کے ساتھ جہاد یہ کہ ہاتھ سے ان کو افعال بد سے روکا جائے پھر زبان سے‘ پھر دل سے۔
مطلب آپ کا یہ تھا کہ مجاہد جب جہاد کے لئے نکلتا ہے تو اس کا سونا‘ بیٹھنا‘ چلنا‘ گھوڑے کا دانہ پانی کرنا‘ سب عبادت ہی عبادت ہوتا ہے تو جہاد کے برابر دوسری کون عبادت ہوسکتی ہے البتہ کوئی برابر عبادت میں مصروف رہے ذرا دم نہ لے تو شاید جہاد کے برابر ہو مگر ایسا کس سے ہوسکتا ہے۔
دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الٰہی جہاد سے بھی افضل ہے‘ ایک حدیث میں ہے کہ ایام عشر میں عبادت کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں‘ ان حدیثوں میں تناقض نہیں ہے بلکہ سب اپنے محل اور موقع پر دوسرے تمام اعمال سے افضل ہیں مثلاً جب کافروں کا زور بڑھ رہا ہو تو جہاد سب عملوں سے افضل ہوگا اور جب جہاد کی ضرورت نہ ہو تو ذکر الٰہی سب سے افضل ہوگا۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
«رجعنا من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» یعنی نفس کشی اور ریاضت کو آپ نے بڑا جہاد فرمایا (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2783   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2825  
2825. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا: فتح مکہ کے بعد ا ب(مکہ سے مدینہ کی طرف) ہجرت باقی نہیں رہی لیکن خلوص نیت کے ساتھ جہاد اب بھی باقی ہے، اس لیے جب تمھیں جہاد کے لیے بلایاجائے تو نکل کھڑے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2825]
حدیث حاشیہ:
یہ آیتیں غزوۂ تبوک کے بارے میں نازل ہوئیں۔
تبوک مکہ سے شہر مدینہ کے شمال کی سرحد پر واقع ہے۔
مدینہ منورہ سے تبوک کی مسافت بارہ منزلوں کی ہے۔
شام پر اس وقت عیسائیوں کی حکومت تھی‘ آنحضرتﷺ غزوۂ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ واپس ہوئے تو آپؐ کو خبر ملی کہ عیسائی فوجیں مقام تبوک میں جمع ہو رہی ہیں اور مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں‘ جن کی آپؐ نے خود ہی بڑھ کر مدافعت کرنی چاہی۔
چنانچہ تیس ہزار فوج آپؐ کے ساتھ ہوگئی‘ لیکن موسم سخت گرمی کا تھا‘ کھجوروں کی فصل پکنے اور کٹنے کا زمانہ تھا جس پر اہل مدینہ کی گزران بڑی حد تک موقوف تھی‘ مقابلہ بھی ایک باقاعدہ فوج سے تھا اور وہ بھی اپنے وقت کی بڑی سلطنت کی فوج اور سفر بھی دور دراز‘ اس لئے بعضوں کی ہمتیں جواب دے گئیں اور منافقین نے تو خوب ہی بہانے لگائے پھر بھی جب عیسائیوں کو حالات کی ناموافقت کے باوجود مسلمانوں کی اس تیاری کا علم ہوا تو خود ہی ان کے حوصلے پست ہوگئے اور انہیں فوج کشی کی ہمت نہ ہوئی۔
لشکر اسلام ایک مدت تک انتظار کے بعد واپس چلا آیا (سورۂ توبہ میں)
آیات شریفہ ﴿یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ﴾ (التوبة: 94)
میں اس جنگ سے متعلقین منافقین کا ذکر ہے دنیا کارگاہ عمل ہے‘ وقت آنے پر جی چرانے والوں کو اسلامی اصطلاح میں لفظ منافق سے یاد کیا گیا ہے کیونکہ اسلام سراسر عملی زندگی کا نام ہے‘ سچ ہے ؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2825   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1834  
1834. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا: اب ہجرت باقی نہیں رہی، البتہ جہاد قائم اور خلوص نیت باقی رہے گا اور جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ بے شک یہ (مکہ) ایک ایسا شہر ہے کہ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اسے قابل احترام ٹھہرایاہے اور وہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے قابل احترام ہے۔ اس میں جنگ کرنا مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہ ہوا، میرےلیے بھی دن کے کچھ حصے میں حلال ہوا، اب وہ اللہ کی حرمت سے قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس لیے اس کا کانٹا نہ توڑاجائے اور نہ اس کے شکار ہی کو ہراساں کیا جائے۔ اس میں گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، ہاں جو شخص اس کی تشہیر کرے وہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کا سبز گھاس کاٹنابھی جائز نہیں ہے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اذخر (خوشبو دار گھاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1834]
حدیث حاشیہ:
(1)
عہد رسالت میں مکہ فتح ہوتے ہی ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا کیونکہ اب مکہ دارالاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنے کی اجازت مل گئی، لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی بھی وقت کہیں سے بھی بوقت ضرورت مسلمان دارالاسلام کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں، اس لیے اپنے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر جگہ اور ہر وقت باقی ہے۔
اس کے ساتھ سلسلۂ جہاد بھی قیامت تک جاری رہے گا۔
جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کر دے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا ضروری ہے۔
جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی، اس کے بعد اس اجازت کو ختم کر دیا گیا۔
اب مکہ مکرمہ میں جنگ و قتال اور خونریزی کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔
مکہ مکرمہ دارالامن ہے۔
اس کی یہ حیثیت قیامت تک باقی رہے گی۔
(2)
واضح رہے کہ مکہ مکرمہ میں اذخر کے علاوہ ہر قسم کی گھاس کاٹنا ناجائز ہے، خواہ وہ تازہ ہو یا خشک کیونکہ خشک گھاس کاٹنے کی ممانعت کے متعلق بھی ایک روایت آئی ہے، البتہ حدود حرم میں ترکاریاں، سبزیاں اور کھیتیاں جو لوگ خود کاشت کرتے ہیں ان کا کاٹنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 64/4)
بہرحال اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی حرمت کو زمین و آسمان کی پیدائش کے دن سے برقرار رکھا ہے اور قیامت تک قائم رہے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1834   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2783  
2783. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں رہی، البتہ جہاد کرنا اور اچھی نیت کرنا اب بھی باقی ہیں۔ اور جب تمھیں جہاد کی خاطر نکلنے کے لیے کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2783]
حدیث حاشیہ:

مکہ فتح ہونے کے بعد وہ خود دارالسلام بن گیا،اب یہاں سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ سرے سے ہجرت کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی دارالحرب سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم بھی اب باقی ہے مگر اس کی کچھ شرائط ہیں جنھیں آئندہ بیان کیا جائے گا،البتہ جہاد کی فرضیت قیامت تک باقی رہے گی۔
ایک حدیث میں ہے:
جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے،اس وقت سے قیامت تک جہاد ہوتا رہے گا یہاں تک کہ میری امت کا آخری گروہ دجال سے لڑائی کرے گا۔
(مسند أحمد 345/3)

جہاد اگرچہ اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل نہیں ہے لیکن اسلام نے اس کی جو فضیلت اور اہمیت متعین کردی ہے اسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو دین اسلام کو کوہان کی چوٹی قراردیا ہے۔
(مسند أحمد: 234/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2783   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2825  
2825. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا: فتح مکہ کے بعد ا ب(مکہ سے مدینہ کی طرف) ہجرت باقی نہیں رہی لیکن خلوص نیت کے ساتھ جہاد اب بھی باقی ہے، اس لیے جب تمھیں جہاد کے لیے بلایاجائے تو نکل کھڑے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2825]
حدیث حاشیہ:

فرائض کی دو قسمیں ہیں۔
فرض عین
فرض کفایہ۔
فرض عین یہ ہے کہ اس کی ادائیگی بذات خود ہر مکلف مسلمان پر فرض ہوتی ہے اس فرض میں تخفیف تو ہو سکتی ہے مگر معاف نہیں ہوتا۔
مثلاً:
نماز پنجگانہ وغیرہ فرض کفایہ یہ ہےکہ جس کی ادائیگی مجموعی طور پر مسلمانوں پر فرض ہوتی ہے مگر بعض کی ادائیگی سے دوسروں کو معاف کردیا جاتا ہے۔
اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گناہ گار ہوتے ہیں مثلاً:
نماز جنازہ وغیرہ 2۔
جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ اس کے متعلق ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں۔
ہمارے ہاں بعض جہادی تنظیموں کا موقف ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں جہاد بہر حال فرض عین ہے اور جس نے کبھی جہاد نہ کیا اس کا ایمان خطرے میں ہے اور اس کے بغیر وہ جنت کا حق دار نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس کچھ لوگ جہاد کو فرض کفایہ تو کجا بلکہ اسے مستحب بھی نہیں کہتے اور جہاد کا ایسا مفہوم پیش کرتے ہیں جس سے جہاد کا تصور ہی مسخ ہو جاتا ہے ہمارے نزدیک جہاد بعض اوقات فرض عین ہو تا ہے اور بعض اوقات فرض کفایہ ہی رہتا ہے مندرجہ ذیل تین صورتوں میں جہاد فرض عین ہوتا ہے۔
جب دشمن مسلمانوں کے علاقے پر حملہ آور ہوجائے تو اس کے خلاف جہاد کرنا فرض عین ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ ؒکہتے ہیں جب دشمن حملہ کردے تو اس کے خلاف جہاد کرنے کی فرضیت پر کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کیونکہ دشمن سے اپنے دین عزت اور جان بچانے کے لیے جہاد کی فرضیت پر اجماع ہے۔
(مجموع الفتاوی: 537/5)
جب مسلمانوں کا امیر جہاد کرنے کا حکم عام دےتو اس امیر کی اطاعت کرتے ہوئے جہاد کے لیے نکلنا فرض عین ہے جیسا کہ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ آیات اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
امیر سے مراد شرعی سربراہ ہے یہ دونوں صورتوں بذات خود مستقل ہیں۔
دشمن سے دو بدو مقابلے کی صورت میں بھی جہاد فرض عین ہو جاتا ہے مثلاً:
ایک آدمی پر جہاد فرض کفایہ ہے لیکن وہ جب میدان جنگ میں پہنچ جائے جہاں دشمن سے لڑائی جاری ہو تو اب یہی فرض کفایہ اس مسلمان کے حق میں فرض عین کی صورت اختیار کر جائے گا۔
جہاد کے فرض عین کی یہ صورت نیم مستقل ہے کیونکہ اس میں بنیادی طور پر جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے مگر میدان جہاد میں پہنچ کر فرض عین کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام نفیرعام کا حکم دے تو اس وقت جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔
البتہ جہاد اپنے عمومی مفہوم میں ہر وقت فرض ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ رقم طراز ہیں۔
تحقیقی طور پر یہ بات بھی ثابت ہے کہ کفارکےخلاف جہاد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ اپنے ہاتھ کے ساتھ جہاد کرے یا زبان کے ساتھ یا مال کے ساتھ یا اپنے دل کے ساتھ ان سے نبردآزماہو۔
(فتح الباري: 47/6)

اس حدیث میں مطلق ہجرت کی نفی نہیں بلکہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا منسوخ ہوا ہے کیونکہ جس مقام پر امور دین کو انجام نہ دیا جا سکتا ہو وہاں سے ہجرت کرنا اب بھی واجب ہے اور اس پر اجماع ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2825   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3077  
3077. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: اب ہجرت باقی نہیں رہی، البتہ حسن نیت اور جہاد باقی ہے۔ اور جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل جاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3077]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت مراد ہے۔
پہلے جب مکہ مکرمہ دارالکفر تھا اور مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں تھی تو وہاں سے ہجرت کرنا ضروری تھا لیکن جب مکہ فتح ہوگیا اور اسلامی حکومت کا حصہ بن گیا تو اب یہاں سے ہجرت کرنے کا سوال ہی باقی نہ رہا۔

اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہجرت کا حکم ہی ختم کردیا گیا ہے بلکہ اب بھی جہاں مسلمانوں کو احکام اسلام پر عمل کرنے کی آزادی نہ ہوتو وہاں سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرناضروری ہے بلکہ جب تک دنیا قائم ہے اور اس میں کفر و اسلام کی کشمکش موجود ہے ہجرت کا دروازہ بند نہیں ہوسکتا۔
لیکن ہجرت کے نام پرقتل وغارت یا لوٹ مار کی قطعاً اجازت نہیں جیسا کہ ہمارے ہاں اس نام سے بہت سی تحریکوں نے جنم لے رکھا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3077   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3189  
3189. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: اب (مکہ سے) ہجرت نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور اس کا حکم باقی ہے، اس لے جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کاحکم دیا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ آپ نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا: جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اسی دن اس شہر کو حرام قرار دے دیا، اس لیے یہ شہر اللہ کی حرمت کے باعث قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ یہ شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرام ہے، لہذا اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا شکار ہی ستایا جائے، نیز یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، البتہ جو شخص(مالک تک پہنچانے کے لیے) اس کی شہرت کرے وہ اٹھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3189]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ حدیث متعدد مرتبہ پہلے بیان ہو چکی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے۔
اس مقام پر مقصود یہ ہے کہ بلا شبہ مکہ حرم ہے اور اس میں لڑائی حرام ہے لیکن اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غداری کی اور انھوں نے آپ کے ساتھ جو عہدو پیمان باندھا تھا اسے پامال کیا۔
بنو خزاعہ کے مقابلے میں بنو بکر کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جرم کی پاداش میں حرمت والے شہر اور حرمت والے مہینے میں ان کامارنا اور قتل کرنا اپنے رسول مقبولﷺکے لیے جائز قراردیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ دغابازی بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا بہت سخت ہے۔
بعض شارحین نے عنوان سے مناسبت اس طرح بیان کی ہے کہ اس حدیث میں امام کے کہنے پر جہاد کے لیے کوچ کرنے کا حکم ہے۔
اس کا تقاضا ہے کہ امام کی اطاعت کی جائے اور اس سے رو گردانی کر کے غداری کا ثبوت نہ دیا جائے یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اہل مکہ سے لڑائی کرنے میں ان سے غدر نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ وقت کے لیے حلال کردیا تھا اگر اللہ تعالیٰ اسے حلال نہ کرتا تو آپ ہر گز اس حرمت والی جگہ اور حرمت والے مہینےمیں جنگ نہ کرتے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3189