عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی و خوشحالی، خوشی و غمی ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کی اور اس بات پر کہ ہم اپنے حکمرانوں سے حکومت کے لیے جھگڑا نہیں کریں گے، اور اس بات پر کہ ہم جہاں کہیں بھی رہیں حق کہیں گے یا حق پر قائم رہیں گے اور (اس بابت) ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4156]
بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره، وأن لا ننازع الأمر أهله، وأن نقول بالحق حيث ما كنا لا نخاف في الله عز وجل لومة لائم
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4156
اردو حاشہ: حاکم‘ امیر یا امام کی کسی غلطی کی بنا پر اس کے خلاف بغاوت نہیں کی جا سکتی کیو نکہ غلطی سے پاک تو کوئی بھی نہیں۔ کیا اس شخص کے بعد پھر کسی فرشتے کو حاکم یا امام بنائیں گے؟ نیا حاکم بھی انسان ہی ہوگا‘ نیز بغاوت کرنے والے کیا خود غلطی سے پاک اور معصوم ہیں؟ البتہ اگر حاکم یا امام سے صریح کفرصادر ہوجائے تو اس کو بزور بر طرف کر دیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4156
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4154
´حاکم اور امیر کی فرماں برداری اور اطاعت پر بیعت کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوشحالی و تنگی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی رہیں حق پر قائم رہیں، اور (اس سلسلے میں) ہم کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈریں ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4154]
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ سمع وطاعت پر امام کی بیعت مشروع ہے۔ (2) شرعی امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر ہر حالت میں واجب ہے۔ حالت تنگی کی ہو یا آسانی کی‘ خوشی کی ہو یا نا خوشی کی۔ بات پسند ہو یا نا پسند‘ یعنی اختلاف احوال سے وجوب اطاعت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بقدر استطاعت ہر حال میں اطاعت کرنی پڑے گی الا یہ کہ کوئی شرعی عذرہو۔ (3) شرعی امیر جب تک خود اطاعت الہٰی پر کار بند رہے گا‘ اس وقت تک اسے معزول کیا جاسکتا ہے نہ اس کی اطاعت ہی سے دست کش ہوا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر کسی امیر وامام میں ظاہر کفر دیکھا جائے تو اس کی اطاعت وفرمانبرداری واجب نہیں رہے گی بلکہ اسے معزول کرنے کی اگر طاقت ہوتو اسے معزول بھی کیا جائے گا یا کم از کم اس کی معزولی کی کوشش کی جائے گی۔ (4) حق پر قائم رہنا ‘ نیز حق کا ظہار امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے طور پر کرنا‘ ہر شخص کے لیے ہر جگہ ضروری ہے۔ اس میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پروا کرنے کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں۔ (5)”اسانی وتنگی“ امیر کے حکم میں ہم پر تنگی آئے یا آسانی، ہم اس پر خوش ہوں یا نا خوش ہوں، اسے پسند کریں یا نا پسند، اس کی اطاعت کریں گے بشرطیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ (6)”نہیں چھینیں گے“ یعنی کسی ناراضی کی بنا پر یا امیر کی کسی غلطی کی بنا پر اس کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے الا یہ کہ اس سے صر یح کفر صادر ہوجائے تو پھر اس کی امارت شرعاََ ختم ہوجائے گی۔ بغاوت نہ کرنے کا حکم ہر امیر کے بارے میں ہے ‘خواہ وہ منتخب ہو یا منتخب امیر کا نامزد کردہ۔ (7)”نہیں ڈریں گے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی ملامت اور ناراضی کے ڈر سے حق بات کہنے سے نہیں رکیں گے ورنہ گناہ کے مسئلے میں تو لوگوں کی ملامت سے ڈرنا چاہیے تا کہ انسان گناہوں سے بچ سکے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4154
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4157
´حق بات کہنے پر بیعت کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی و خوشحالی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لینے) پر بیعت کی، اور اس بات پر کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے جھگڑ انہیں کریں گے، اور اس بات پر کہ جہاں کہیں بھی رہیں حق بات کہیں گے۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4157]
اردو حاشہ: ”جہاں بھی ہوں“ گھر میں ہوں یا باہر بازار میں ہوں یا دربار میں حتیٰ کہ ظالم وجابر سلطان و حاکم کے سامنے بھی حق بات کہیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4157
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4159
´اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے پر بیعت کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی و خوشحالی اور خوشی و غمی اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی حالت میں سمع و طاعت (حکم سننے اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے سلسلے میں جھگڑا نہیں کریں گے اور یہ کہ ہم حق پر قائم رہیں گے جہاں بھی ہو۔ ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ سیار نے «حیث ما کان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4159]
اردو حاشہ: ”ترجیح دی جائے“ ظاہر ہے سب لوگوں کو عہدے نہیں دیے جاسکتے‘ خواہ اہل ہی ہوں‘ پھرا امیر سے غلطی بھی ممکن ہے کہ وہ ہر شخص سے اس کے مرتبے کے مطابق سلوک نہ کرسکے۔ ایسی صورت میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں کو مجھ پر ترجیح دی گئی ہے اور مجھ سے میرے مقام ومرتبے کے مطابق سلوک نہیں کیا گیا۔ لیکن اتنی بات سے امیر سے بغاوت یا اس کی نافرمائی کو جائزقرار نہیں دیا جاسکتا لہٰذا ایسے حالات میں بھی امیر سے وفادار رہنا ہوگا اور اس کی اطاعت کرنا ہوگی ورنہ وہ شرعاََ سزا کا حق دار ہوگا۔ جس رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد امارت وحکومت قریش مہاجرین ہی کو ملی‘ انصار محروم رہے مگر آفرین ہے ان مخلص ترین لوگوں پر کہ انھوں نے اپنے شہر میں اور اکثریت میں ہونے کے باوجود قریش کی امارت کو دل وجان سے تسلیم کیا اور کبھی مخالفت کا نہیں سوچا۔ رضي الله عنهم و أرضاهم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4159
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2866
´بیعت کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) امیر کی اطاعت ملک و سلطنت کے نظم وضبط میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
(2) زندگی میں کئی معاملات ایسے پیش آ سکتے ہیں جب ایک انسان امیر کی اطاعت سے جی چراتا اور اس کی حکم عدولی کی طرف مائل ہوسکتا ہے مثلاً:
(ا) مشکل حالات میں انسان قانونی شکنی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
(ب) راحت کے موقع پر آرام چھوڑ کر مشکل حکم کی تعمیل کو جی نہیں چاہتا۔
(ج) بعض اوقات کام ایسا ہوتا ہے کہ جس کے طبیعت قدرتی طور پر نا پسند کرتی ہے۔
(د) بعض اوقات انسان خود کوایک منصب کا اہل سمجھتا ہے یا کسی انعام کا مستحق سمجھتا ہے لیکن وہ منصب یا انعام کسی اور کو مل جاتا ہےاور انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی حق تلفی یا بے قدری ہوئی ہے اس سے دلبرداشتہ ہوگر وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات یا اپنے فرائض میں دلچسپی کم کردیتا ہے۔ حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اطاعت امیر میں سرگرم رہنا قرب الہی اور بلندی جذبات کا باعث ہے۔
(3) حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ غلطیاں بغاوت کا جواز نہیں بنتی کیونکہ بغاوت سے جو بد نظمی پیدا ہوتی ہے اس کا نقصان غلط کار حکمران کی غلطیوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔
(4) اطاعت امیر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی تائید کی جائے۔ اس کی غلطی کو واضح کرنا چاہیے لیکن مقصد مسلمانوں کا اجتماعی مفاد اور امیر سے خیر خواہی ہو نہ کہ اس پر بے جا تنقید کرکے عوام کو اس کے خلاف ابھارنا اور ملک کے امن وامان کو تباہ کرنا۔
(5) جس کا م پر ضمیر مطمئن ہو کہ یہ صحیح ہے اور وہ خلاف شریعت بھی نہ ہواور اس سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو وہ کرلینا چاہیے اگرچہ لوگ اسے اپنے رسم ورواج یا مفاد کے خلاف سمجھ کر طعن و تشنیع کریں تاہم تنقید کرنے والوں کو دلائل کے ساتھ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2866
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4771
حضرت جنادہ بن ابی امیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے، جبکہ وہ بیمار تھے، ہم نے عرض کیا، ہمیں آپ۔۔۔ اللہ آپ کو صحت عطا فرمائے۔۔۔ کوئی ایسی حدیث سنائیں جو ہمارے لیے سود مند ہو اور آپ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، تو انہوں نے کہا، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور ہم نے آپ سے بیعت کی اور آپ نے ہم سے جو عہد لیا، اس میں ہماری یہ بیعت تھی کہ ہم سنیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4771]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کسی حکومت کے خلاف اس وقت تک خروج جائز نہیں ہے جب تک وہ کھلم کھلا کفر کا ارتکاب نہ کرے، ہاں اگر وہ کھلم کھلا کفر کرے، تو پھر اس کے خلاف خروج جائز ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہے، اگر اس کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہو، صرف فتنہ و فساد اور خونریزی نہ ہو، جس کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ اور فساد پیدا ہو، جیسا کہ آج کل جمہوری حکومتوں میں اقتدار کی رسہ کشی خون خرابہ تک پہنچتی ہے، لیکن حالات پہلے سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں، کیونکہ آج کل ہر پارٹی اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہے، اسلام کے ساتھ کوئی بھی مخلص نہیں ہے، ہاں، اگر شرعی اصول و ضوابط کے مطابق تمام لوگ معروف کے پابند ہوں اور معصیت میں حکمرانوں کی بات نہ مانیں، تمام عوام اور حکومت کے ہر قسم کے محکمے، عدالت، انتظامیہ، فوج اور مقننہ، خود اسلام کے پابند ہوں اور حکومت کے غیر اسلامی احکامات ماننے سے انکار کر دیں، تو حکومت خودبخود غیر اسلامی احکام ختم کرے، اسلامی شریعت نافذ کرنے پر مجبور ہو جائے گی، لیکن اس کے بغیر آج کل حکومت کے خلاف جو ہڑتالیں اور مظاہرے کیے جاتے ہیں، سڑکیں بلاک کی جاتی ہیں اور قومی املاک کو نذر آتش کیا جاتا ہے، لوگوں کی املاک میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے، جس میں انسانی جانوں کا بھی بعض دفعہ ضیاع ہوتا ہے، یہ اجتماعی ہڑتالیں اور بے ثمر مظاہرے، شرعی نقطہ نظر سے، خلاف اسلام ہیں، اس لیے ان کے نتیجہ میں سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، تاریخ کا تسلسل اور خاص کر ہماری ملکی تاریخ اس کا بین ثبوت ہے کہ حکمرانوں کے خلاف خروج و بغاوت کسی صورت میں بھی امت کے لیے یا اسلام کے لیے خیر کا باعث ثابت نہیں ہوئی، حالات پہلے سے بھی زیادہ ہی خراب ہوئے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4771
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7056
7056. انہوں نے مزید کہا: آپ ﷺ ہم سے جن باتوں کا عہد لیا تھا وہ یہ تھیں کہ ہم خوشی وناگواری، تنگی و کشادگی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینے کی صورت میں بھی اپنے امیر کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے اور حکمرانوں کے ساتھ حکومتی معاملات میں کوئی جھگڑا نہیں کریں گے: ”الا یہ کہ تم انہیں اعلانیہ کفر کرتے دیکھو اور تمہارے پاس اس کے متعلق کوئی واضح دلیل ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7056]
حدیث حاشیہ: 1۔ ان احادیث کا فتنوں کے ساتھ اس طرح تعلق ہے کہ جو آدمی کسی ملک کا باضابطہ شہری ہے تو اس پر ملک کے قانون کا احترام کرنا اور باتوں میں حکمرانوں کا کہا ماننا ضروری ہے۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ اسے حقوق نہیں دیے جا رہے یا حکمران غلط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں تو اسے یہ اجازت ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیے بغیر احتجاج کرے لیکن یہ احتجاج سول نافرمانی کی شکل میں نہیں ہونا چاہیےاور نہ دھرنا دینے اور توڑ پھوڑ کرنے ہی کی اجازت ہے۔ اسی طرح احتجاج کے طور پر خود کش حملے کرنا بھی ناجائز ہے۔ اس سے ملک میں بدامنی، بے چینی انار کی اور فساد پھیلتا ہے۔ یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ 2۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جن کے انسانی اجسام میں شیطانی دل ہوں گے وہ میرے طریقے کی کوئی پروا نہیں کریں گے۔ “ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایسے حالات میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایسے حکمرانوں کی بات سنی جائے اور ان کی اطاعت کی جائے اگرچہ وہ تمھارا مال کھا جائیں اور تمھاری پیٹھ پر ماریں۔ “(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4785(1847) 3۔ ایسے حکمران کو اگر بغیر فتنہ و فساد کے معزول کرنا ممکن ہو تو اس کا معزول کرنا ضروری ہے بصورت دیگر صبر کیا جائے۔ ایسے حالات میں خواہ مخواہ حکومت سے ٹکر لینا درست نہیں اور نہ جیل بھرو تحریک ہی شروع کرنی چاہیے۔ 4۔ بہرحال ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حکمت بھرے انداز میں ڈنکے کی چوٹ کلمہ حق کہتا رہے۔ ایسے غلط کار حکمرانوں کے متعلق دل میں نفرت کے جذبات رکھے اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتا رہے۔ مسلح اقدام سے ہر صورت میں گریز کیا جائے۔ اس قسم کی تحریکات سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہےاس قسم کے پرفتن دور میں بڑی دور اندیشی سے کام لینا چاہیے، جذبات میں آ کر کوئی ایسا کام نہ کیا جائے۔ جس سے اسلام یا اہل اسلام کو نقصان پہنچے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7056