عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارو، کوئی شخص اپنے باپ کے گناہ کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے“۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4132]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4132
اردو حاشہ: البتہ قتل خطا میں قاتل کے نسبی رشتے دار بلکہ پورا قبیلہ اس کے ساتھ مل کر دیت ادا کریں گے۔ یہ اس روایت کے خلاف نہیں کیونکہ خَطَأ قتل جرم نہیں اور مقتول کی دیت بھرنا رشتے داروں کے لیے سزا نہیں بلکہ یہ تو صرف اس شخص کے ساتھ تعاون ہے جس سے بلاقصد و ارادہ قتل صادر ہو گیا۔ اور مسلمان مقتول کا خون رائیگاں نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں، اگر قاتل نے جان بوجھ کر قتل کیا ہو تو اس کا قصاص اسی سے لے لیا جائے گا اور اگر دیت پر معاملہ طے ہو جائے تو وہ دیت بھی خود ہی ادا کرے گا۔ رشتے داروں پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہو گی کیونکہ وہ مجرم ہے اور مجرم سے تعاون کیسا؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4132
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4130
´قتل کی حرمت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا ۱؎ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4130]
اردو حاشہ: (1) مسلمانوں سے لڑنا کافروں کا کام ہے۔ اگر مسلمان مسلمانوں سے لڑنے لگیں تو کافروں کے مشابہ ہو گئے، نیز اس سے کافروں کا مقصد پورا ہو گیا۔ انہیں لڑنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ جو شخص باہیم اختلافات کی بنا پر لڑائی کو جائز سمجھتا ہے، وہ حقیقتاً کافر ہے کیونکہ وہ ایک حرام کام کو حلال قرار دیتا ہے۔ اگر ویسے ہی جذبات میں آ کر لڑائی لڑنے لگا تو پھر کافر تو نہ ہو گا مگر اس کا یہ کام کافروں کے مشابہ ہو گا۔ ایسے میں وہ اگر کسی کو قتل کرے گا تو اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا۔ (2) کبھی کبھی غلط فہمی کی بنا پر جنگ چھڑ جاتی ہے یا شرپسند عناصر فریقین میں لڑائی بھڑکا دیتے ہیں تو اس سے فریقین کافر نہ ہوں گے جیسے جنگ جمل اور صفین میں ہوا۔ حضرت عائشہ، زبیر، طلحہ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ناحق قتل کا قصاص چاہتے تھے مگر قاتلین عثمان اپنی گردن بچانے کے لیے جنگ برپا کر دیتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس انداز کے مطالبے کو بغاوت سے تعبیر کرتے تھے اور بغاوف فرو کرنے کو سرکاری فریضہ سمجھتے تھے مگر معاملہ اتنا سادہ نہ تھا۔ غیر مسلموں کی سازشیں کافی گہری تھیں۔ فریقین میں ایسی غلط فہمیاں پیدا ہو چکی تھیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں لڑائی ہوتی گئی اگرچہ فریقین نیک نیت تھے۔ ان کی نیک نیتی کے لیے ان کا صحابی ہونا ہی کافی ہے۔ صحابہ عام لوگ نہیں تھے بلکہ ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى﴾(الحجرات: 39:3) وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب شدہ افراد تھے، اس لیے ان کے بارے میں انتہائی اچھا گمان رکھنا ضروری ہے، ورنہ اپنے ایمان کا خطرہ ہے۔ وہ لوگ یقینا جنتی ہیں۔ ان کے لیے رسول اللہ ﷺ کی نام بنام بشارتیں موجود ہیں۔ ان سے بدگمانی رکھنے والا ایمان سے بے بہرہ ہے۔ رضي اللہ عنهم و أرضاهم۔ (3)”کافر نہ بن جانا“ کافر کے ایک معنیٰ ناشکرا بھی ہیں۔ آپس میں لڑنا نعمت ایمان کی ناشکری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4130
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4131
´قتل کی حرمت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو، آدمی کو نہ اس کے باپ کے گناہ کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ غلط ہے (کہ یہ متصل ہے) صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4131]
اردو حاشہ: (1) امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ مذکورہ روایت بعض رواۃ نے متصل بیان کی ہے اور بعض نے مرسل۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا متصل ہونا درست نہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہی ہے، اس لیے کہ متصل بیان کرنے والے راوی شریک اور ابوبکر بن عیاش ہیں اور وہ دونوں اعمش سے بیان کرتے ہیں۔ اعمش سے یہ روایت ابوبکر بن عیاش اور شریک کے علاوہ ابو معاویہ اور یعلیٰ نے بھی بیان کی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ شریک کثیر الخطاء (بہت غلطیاں کرنے والا) راوی ہے، دوسرے یہ کہ اس نے اور ابوبکر بن عیاش نے ابومعاویہ کی مخالفت کی ہے، حالانکہ ابو معاویہ، اعمش کے تمام شاگردوں میں سے اثبت راوی ہے، سوائے سفیان ثوری کے۔ ابو معاویہ نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ یعلیٰ بن عبید نے (اس کے مرسل بیان کرنے میں) ابو معاویہ کی متابعت بھی کی ہے۔ (2)”کافر نہ بن جانا“ یہ معنیٰ بھی کیے گئے ہیں کہ تم میرے بعد مرتد ہو کر کافر نہ بن جانا ورنہ تمہاری حالت وہی ہو جائے گی جو اسلام سے پہلے تھی کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ گے اور آپس میں قتل و قتال کا دور دورہ ہو گا۔ و اللہ أعلم۔ (3)”نہ پکڑا جائے گا“ یہ اسلام کا سنہری اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ خود ہے۔ کسی کے جرم میں اس کے بھائی، باپ یا بیٹے کو نہیں پکڑا جا سکتا الا یہ کہ ان کا اس جرم میں دخل ثابت ہو۔ جاہلیت میں یہ عام دستور تھا کہ قاتل کی بجائے اس کے کسی رشتے دار بلکہ اس کے قبیلے کے کسی بھی فرد کا قتل جائز سمجھا جاتا۔ ایک شخص کے جرم کی وجہ سے اس کا پورا قبیلہ مجرم بن جاتا تھا، اس لیے قتل و قتال عام تھا۔ اور ایک قتل پر بسا اوقات سینکڑوں قتل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے اس بے اصولی کی نفی اور مذمت فرمائی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4131
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4686
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4686]
فوائد ومسائل: اعمال سئیہ سےایمان میں کمی آتی ہے، مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا بد ترین اعمال میں سے ہے، یہ ایمان کی کمی کی دلیل ہے جسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن اس وجہ سے انسان ملت سے خارج نہیں ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4686
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 225
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”تم پر تعجب اور حیرت ہے“ یا فرمایا: ”تم پر افسوس ہے! میرے بعد کافر وں کی طرح ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:225]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : وَيْلٌ: تعجب اور دکھ کے لیے استعمال ہے۔ اور وَيْحٌ رحم و ترس کے موقع پر استعمال کرتے ہیں۔ فوائد ومسائل: (1) مسلمانوں کا ایک دوسرے سے جنگ اورقتال کرنا اور اس کوجائز اور درست قرار دینا، ایک دوسرے کا کافر دینے کے مترادف ہے، اور اس کی نحوست کفر تک پہنچا سکتی ہے۔ (2) مسلمانوں کا باہمی لڑنا ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کرنا ہے، کیونکہ ان میں اخوت ومروت کا تعلق ہے جو ایک دوسرے کے تعاون وتناصر کو ضروری ٹھہراتا ہے۔ (3) مسلمان مسلمانوں سے لڑائی نہیں کرتا، بلکہ مسلمانوں کی لڑائی حربی کافروں سے ہے، اس لیے باہمی لڑائی کافروں کا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا ہے اور مسلمانوں کو ان کی مشابہت اور طرز عمل اپنانے سے منع کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 225
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6868
6868. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کافروں جیسے نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6868]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ مسلمان کا قتل ناحق آدمی کو کفر کے قریب کر دیتا ہے۔ یا وہ قتل مراد ہے جو حلال جان کر ہو، اس سے تو کافر ہی ہو جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6868
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7077
7077. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7077]
حدیث حاشیہ: 1۔ ہم نے حدیث 6869 کے تحت اس حدیث کے آٹھ معنی متعین کیے ہیں، انھیں ضرور ملاحظہ کیا جائے۔ بہرحال مسلمان کا خون ناحق بہت بڑاگناہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر سے تعبیر کیا ہے اور کفر سے مراد حق کا چھپانا ہے، یعنی میرے بعد تم حق کو مت چھپانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو کیونکہ مسلمان تو دوسرے مسلمان کا دفاع کرتا ہے۔ یہ اس کا حق ہے اور اگر اس سے لڑائی کرتا ہے تو گویا اس کے حق کو چھپاتا ہے۔ 2۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ فعل مذکور انسان کو کفر کی طرف پہنچا دیتا ہے کیونکہ جو شخص بڑے بڑے گناہوں کا عادی ہو جائے تو پھر خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے بڑے جرم میں مبتلا ہو جائے، یعنی اس کا خاتمہ اسلام پر نہ ہو۔ بہرحال فتنے کے دور میں انسان کو نہایت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ (فتح الباري: 35/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7077