فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4076
´نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے والے کے حکم کا بیان۔`
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سخت کلامی کی تو میں نے کہا کہ کیا میں اسے قتل کر دوں؟ تو آپ نے مجھے جھڑکا اور کہا: یہ مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نہیں ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4076]
اردو حاشہ:
(1) خلیفۂ بلا فصل، یعنی خلیفۂ اول کے فرمان سے صاف معلوم ہو گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کو گالی بکنے والا واجب القتل ہے۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کو یا کسی مسلمان حکمران کو گالی دینے والا قتل کا مستحق نہیں کیونکہ نبی ﷺ کے فرمان کی رو سے وہ فاسق ہے، کافر نہیں۔ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ۔ اسے کوئی اور سزا دی جائے گی، مثلاً: قید، کوڑے، جلا وطنی وغیرہ۔
(3) اس حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ خلیفۂ بلافصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی متحمل مزاج، باحوصلہ اور بہت زیادہ درگزر کرنے اور معاف کرنے والے انسان تھے۔
(4) حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ خلیفۂ رسول کی محبت میں اس قدر سرشار تھے کہ ان کی ذات کے متعلق سوء ادبی کے مرتکب شخص کا سر تن سے جدا کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4076
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4079
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک شخص پر غصہ ہوئے، میں نے کہا: اگر آپ حکم دیں تو میں کچھ کروں، انہوں نے کہا: سنو، اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا یہ مقام نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4079]
اردو حاشہ:
”یہ حق حاصل نہیں“ کہ اس کے کہنے سے کسی کو قتل کر دیا جائے، بغیر تحقیق کے کہ وہ قتل کا مستحق ہے یا نہیں۔ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شان ہے کہ آپ جو بھی فرمائیں، اس پر بلاتحقیق عمل کیا جائے گا۔ دوسرے ہر شخص کی بات کی تحقیق کی جائے گی۔ صحیح ہو تو عمل کیا جائے گا ورنہ چھوڑ دیا جائے گا، خواہ وہ خلیفہ اور حاکم ہو یا کوئی کمانڈر۔ دوسرے معنیٰ پیچھے گزر چکے ہیں کہ صرف رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے کی سزا قتل ہے، کسی اور کا یہ مرتبہ نہیں، خواہ وہ صحابی ہی ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4079
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4081
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے ایک شخص کو کچھ سخت سست کہا تو اس نے جواب میں ویسا ہی کہا، میں نے کہا: کیا اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ نے مجھے جھڑکا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا یہ مقام نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ابونصر کا نام حمید بن ہلال ہے اور اسے ان سے یونس بن عبید نے مسنداً روایت کیا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4081]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ اس میں یونس بن عبید نے عمرو بن مرہ کی مخالفت کی ہے، اور وہ اس طرح کہ ابو نصر سے یہ حدیث عمرو بن مرہ نے بیان کی تو کہا: سَمِعْتُ اَبَا نَصْرٍ یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْ بَرْزَة، اس طرح یہ روایت منقطع بنتی ہے اور یہی حدیث یونس بن عبید نے بیان کی تو کہا: عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّیْرِ عَنْ اَبِیْ بَرْزَة الْأَسْلَمِیِّ، یعنی یونس بن عبید نے حمید بن ہلال (ابو نصر) اور حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے درمیان عبداللہ بن مطرف کا واسطہ بیان کیا ہے، لہٰذا اس طرح سند متصل قرار پاتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4081
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4082
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، آپ ایک مسلمان آدمی پر غصہ ہوئے اور آپ کا غصہ سخت ہو گیا، جب میں نے دیکھا تو عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول! کیا میں اس کی گردن اڑا دوں؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں نے یہ ساری گفتگو بدل کر دوسری گفتگو شروع کر دی، پھر جب ہم جدا ہوئے تو مجھے بلا بھیجا اور کہا: ابوبرزہ! تم نے کیا کہا؟ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ بھول چکا تھا، میں نے کہا: مجھے یاد دلائ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4082]
اردو حاشہ:
یہ تفصیلی روایت ہے جس سے اوپر والی احادیث کے تمام ابہامات دور ہو جاتے ہیں۔ مسئلۂ باب کی وضاحت اس سے قبل ہو چکی ہے۔ دیکھئے، حدیث: 4075) اس مسئلے کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایک مستقل کتاب موجود ہے۔ ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ یہ بہت مفید اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔ اس میں حضرت امام نے تفصیلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی بکنے والا واجب القتل ہے، خواہ مسلمان ہو یا کافر۔ ذمی کو تو حکومت علانیہ قتل کرے گی اور غیر مسلم ملک کے کافر کو خفیہ قتل کروایا جائے گا۔ یا جیسے بھی ممکن ہو۔ حکومت کرے یا کوئی عام مسلمان۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4082