الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب تحريم الدم
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
14. بَابُ : الْحُكْمِ فِي الْمُرْتَدِّ
14. باب: مرتد کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4062
أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَزْهَرِ أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ فَعَلَيْهِ الرَّجْمُ، أَوْ قَتَلَ عَمْدًا فَعَلَيْهِ الْقَوَدُ، أَوِ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلَامِهِ فَعَلَيْهِ الْقَتْلُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں: ایک وہ شخص جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا تو اسے رجم کیا جائے گا، یا جس نے جان بوجھ کر قتل کیا تو اس کو اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا، یا وہ شخص جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گیا، تو اسے بھی قتل کیا جائے گا۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4062]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9821)، مسند احمد (1/63) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مرتد کے سلسلہ میں اجماع ہے کہ اسے قتل کرنا واجب ہے، اس سلسلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4062 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4062  
اردو حاشہ:
(1) ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مطابقت بالکل واضح ہے کہ جو شخص مرتد ہو جائے اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
(2) حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ بات ان بلوائیوں سے فرمائی تھی جنہوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور بالآخر ان لوگوں نے آپ کو شہید کر دیا۔
(3) مرتد اپنے ارتداد پر قائم رہے تو اتفاق ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مرتدین کے خلاف جنگ لڑی اور انہیں بلا دریغ قتل کیا۔ کسی صحابی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ گویا صحابہ کا اس سزا پر اجماع ہے۔ البتہ مرتد اسے کہا جائے گا جو صراحتاً جان بوجھ کر کفریہ اعمال کا ارتکاب کرے یا اسلام چھوڑنے کا اعلان کر دے یا کافروں سے مل جائے یا رسول اللہ ﷺ کو گالی دے وغیرہ۔ اسلامی مذاہب کے باہمی فقہی اختلافات کی بنا پر کسی کو مرتد نہیں کہا جائے گا جب تک وہ اصول دین پر قائم ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4062