ابوجعفر خطمی جن کا نام عمیر بن یزید ہے، کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک بچے کو سعید بن مسیب کے پاس بٹائی پر زمین دینے کے بارے میں مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پہنچی تو وہ ان سے ملے۔ رافع رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارثہ کے پاس آئے تو ایک کھیتی کو دیکھ کر فرمایا: ”ظہیر کی کھیتی کس قدر اچھی ہے!“ لوگوں نے عرض کیا: یہ (کھیتی) ظہیر کی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا یہ ظہیر کی زمین نہیں ہے؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! لیکن انہوں نے اسے بٹائی پر اٹھا رکھا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی کھیتی لے لو اور اس پر آنے والی خرچ اسے دے دو“، تو ہم نے اپنی کھیتی لے لی اور ان کا خرچہ انہیں لوٹا دیا۔ اسے طارق بن عبدالرحمٰن نے بھی سعید بن مسیب سے روایت کیا اور اس میں طارق سے روایت کرنے میں اختلاف ہوا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3920]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3920
اردو حاشہ: (1) اس مسئلے کی تفصیلات پیچھے گزر چکی ہیں۔ (دیکھیے، حدیث:3893) (2)”خرچہ واپس کر دو“ گویا اس فاسد عقد کی بنا پر یہ ایسے ہو گیا جیسے کسی کی زمین بلا اجازت کاشت کر دی۔ اور بلا اجازت کاشت کا یہی حکم ہے کہ زمین زمین والےکی ااور بلا اجازت کاشت کرنے والے کو اس کا خرچہ واپس کیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3920
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3399
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔` ابوجعفر خطمی کہتے ہیں میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک غلام کو سعید بن مسیب کے پاس بھیجا، تو ہم نے ان سے کہا: مزارعت کے سلسلے میں آپ کے واسطہ سے ہمیں ایک خبر ملی ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مزارعت میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی تو وہ (براہ راست) ان کے پاس معلوم کرنے پہنچ گئے، رافع رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارثہ کے پاس آئے تو وہاں ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھی، تو فرمایا: ”(ماشاء اللہ) ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے“ لوگوں نے کہا: یہ ظہیر کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3399]
فوائد ومسائل: یہ زمین جس طرح حضرت رافع نے حدیث 3392 میں خود بیان کیا، اسی ایک مروجہ کے طریق کے مطابق دی گئی تھی۔ جس میں ناجائز شرطیں تھیں۔ فریقین کے حصے واضح اور متعین نہ تھے۔ اور لڑائی کا احتمال تھا۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نےمزارعت کا یہ معاہدہ منسوخ کرنے کا حکم دیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3399
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3402
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔` ابن ابی نعم سے روایت ہے کہ مجھ سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک زمین میں کھیتی کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا اور وہ اس میں پانی دے رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی؟“ تو انہوں کہا: میری کھیتی میرے بیج سے ہے اور محنت بھی میری ہے نصف پیداوار مجھے ملے گی اور نصف پیداوار فلاں شخص کو (جو زمین کا مالک ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں نے ربا کیا (یعنی یہ عقد ناجائز ہے) زمین اس کے مالک کو لوٹا دو، اور تم اپنے خرچ اور اپنی محنت کی اجرت لے لو۔“[سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3402]
فوائد ومسائل: یہ روایت سنداضعیف ہے۔ لیکن دوسری روایت کو ملاکر آپ ﷺ کے: فرمان تم دونوں نے سود کا معاملہ کیا۔ سے واضح ہوجاتا ہے کہ نالیوں آبی گزرگاہوں وغیرہ کا معاہدہ کرنے سے پیداوار میں چونکہ فریقین کے حصے متعین نہیں ہوتے۔ اور ربا کی طرح کوئی نہ کوئی فریق بغیر بدلے کے دوسرے کا حق لیتا ہے۔ اس لئے یہ منع ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3402