´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ ” نذر سے کوئی خیر و بھلائی حاصل نہیں ہوتی صرف بخیل کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1180»
تخریج: «أخرجه البخاري، القدر، باب إلقاء العبد النذرإلي القدر، حديث:6608، ومسلم، النذر، باب النهي عن النذر...، حديث:1639..»
تشریح:
1. نذر سے منع کرنے کا مقصد دراصل افضل کام کی طرف رہنمائی کرنا اور یہ بتانا ہے کہ صدقہ و خیرات وغیرہ کو مطلوب کے حصول سے معلق کرنا کسی صاحب عظمت و مروت کے شایان شان نہیں ہے۔
2. یہ عمل تو ایسا بخیل آدمی کرتا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا۔
اگر کرتا ہے تو اس کے عوض افضل چیز کی خواہش کرتا ہے اور یہ اقدام ایسا شخص کرتا ہے جس کا دل صدقہ و خیرات پر آمادہ نہیں ہوتا الا یہ کہ جب اس کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے اور حالات تنگ ہو جاتے ہیں تو حالات کی درستی کے لیے صدقہ و خیرات کی نذر مانتا ہے۔
جب یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے تب صدقہ کرتا ہے ورنہ نہیں‘ مثلاً: وہ کہتا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے میرے مرض سے شفا بخش دی یا میرے مریض کو صحت و تندرستی سے نواز دیا تو میں اتنا مال راہ الٰہی میں خرچ کروں گا۔
اور وہ مال تب خرچ کرتا ہے جب اسے اس مرض سے صحت و تندرستی مل جاتی ہے جبکہ خرچ کرتے وقت بھی دل کی گھٹن موجود ہوتی ہے‘ لہٰذا نذر سے منع اس لیے کیا گیا ہے کہ اس میں ایسا گھٹیا پن ہے جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔
3. علاوہ ازیں نذر ماننے والا گویا یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اسے نذر ماننے کی صورت میں وہ چیز حاصل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں نہیں رکھا۔
ہاں‘ اگر نذر ماننے والے کا یہ اعتقاد نہ ہو تو نذر ماننے کی اجازت ہے۔