عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر کو خیبر میں ایک زمین ملی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کے بارے میں صلاح و مشورہ کرنے کے لیے آئے اور کہا: مجھے ایک ایسی بڑی زمین ملی ہے جس سے میری نظروں میں زیادہ قیمتی مال مجھے کبھی نہیں ملا تو آپ مجھے اس زمین کے بارے میں کیا حکم و مشورہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اصل زمین کو روک کر وقف کر دو اور اس کی آمدنی کو صدقہ کر دو“۔ تو انہوں نے اس طرح صدقہ کر دیا کہ وہ بیچی نہ جا سکے گی اور نہ ھبہ کی جا سکے گی اور اس کی پیداوار اور آمدنی کو صدقہ کر دیا فقراء، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے، اللہ کی راہ، مسافروں (کی امداد) میں اور مہمانوں (کے تواضع) میں۔ اور اس کے ولی (نگراں و مہتمم) کے اس میں سے کھانے اور اپنے دوست کو کھلانے میں کوئی حرج و مضائقہ نہیں ہے لیکن (اس کے ذریعہ سے) مالدار بننے کی کوشش نہ ہو، حدیث کے الفاظ راوی حدیث اسماعیل مسعود کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3630]
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 786
´وقف کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر کے علاقہ میں زمین ملی تھی۔ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ طلب کرنے کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں کچھ زمین حاصل ہوئی ہے ایسی نفیس و قیمتی کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایسی زمین مجھے نہیں ملی۔ میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر چاہو تو اصل کو اپنے پاس روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔“ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو فقیروں، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے میں اور راہ خدا میں، راہ چلتے مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کیلئے وقف کر دیا اور وصیت بھی کر دی کہ اس کا منتظم و نگہبان معروف طریقہ کے مطابق خود بھی کھا سکتا ہے اور احباب و رفقاء کو بھی کھلا سکتا ہے۔ مگر مال کو ذخیرہ بنا کر نہ رکھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور بخاری کی روایت میں ہے کہ اس کے اصل کو صدقہ کر دیا (یعنی وقف کر دیا) جو نہ فروخت کیا جائے گا اور نہ ھبہ کیا جائے گا لیکن اس کی پیداوار، راہ خدا میں خرچ کی جائے گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 786»
تخریج: «أخرجه البخاري، الشروط، باب الشروط في الوقف، حديث:2737، ومسلم، الوصية، باب الوقف، حديث:1632.»
تشریح: اس حدیث میں وقف شدہ چیز کو فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے‘ یعنی جو چیز وقف کر دی جائے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے۔ حدیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف شدہ چیز کے فروخت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان کے شاگرد رشید امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچ جاتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 786
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3627
´وقف کس طرح لکھا جائے گا؟ ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث ابن عون پر ان کے تلامذہ کے اختلاف کا ذکر۔` عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے خیبر میں (حصہ میں) ایک زمین ملی، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کہا: مجھے بہت اچھی زمین ملی ہے، مجھے اس سے زیادہ محبوب و پسندیدہ مال (کبھی) نہ ملا تھا، آپ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو صدقہ کر سکتے ہو تو انہوں نے اسے بایں طور صدقہ کر دیا کہ وہ زمین نہ تو بیچی جائے گی اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی جائے گی اور اس کی پیداوار فقیروں، محتاجوں ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3627]
اردو حاشہ: (1) ہر دینی یا دنیوی کام سے پہلے اہل علم وفضلاء سے مشورہ کرلینا مستحب ہے جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے کیا۔ (2) اس حدیث سے صدقہ جاریہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ نیکی میں کتنی سبقت لے جانے والے تھے۔رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔ (3) وقف کی آمدنی غرباء اور اغنیاء دونوں پر خرچ کرنا جائز ہے‘ اس لیے کہ رشتہ دار اور مہمان کے لیے حاجت مند ہونے کی شرط نہیں لگائی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3627
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3629
´وقف کس طرح لکھا جائے گا؟ ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث ابن عون پر ان کے تلامذہ کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں (بعد فتح خیبر تقسیم غنیمت میں) ایک زمین ملی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے جس سے بہتر مال میرے نزدیک مجھے کبھی نہیں ملا، تو آپ ہمیں بتائیں میں اسے کیا کروں، آپ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اصل زمین کو اپنے پاس رکھو اور اس سے حاصل پیداوار کو تقسیم (خیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3629]
اردو حاشہ: (1) وقف پر زکاۃ کا حکم نہیں لگتا بلکہ جن کے لیے وقف ہوں‘ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ خواہ وہ امیر ہی ہوں۔ (2)”رشتہ داروں“ ممکن ہے اس سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار ہوں یا رسول اللہ ﷺ کے‘ یعنی اہل بیت۔ (3)”ناظم“ وقف کا ناظم اپنی ذمہ داریوں کے مطابق وقف سے تنخواہ لے سکتا ہے جسے حدیث میں لفظ ”معروف“ سے بیان کیا گیا ہے۔ ناظم کا ہاتھ وقف میں کھلا نہیں ہونا چاہیے ورنہ بدعنوانی کا راستہ کھل سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3629
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3633
´غیر منقسم مال و جائیداد کو وقف کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میرے پاس خیبر میں جو سو حصے ہیں اس سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ مال مجھے کبھی بھی نہیں ملا، میں نے اسے صدقہ کر دینے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اصل روک لو اور اس کا پھل (پیداوار) تقسیم کر دو۔“[سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3633]
اردو حاشہ: باب کا مقصود یہ ہے کہ مشترک چیز میں سے ایک آدمی کا حصہ وقف ہو سکتا ہے‘ خواہ ابھی الگ الگ حد بندی نہ کی گئی ہو۔ امام صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سو حصے ابھی غیر متعین تھے۔ ان کی حد بندی نہں ہوئی تھی۔ ویسے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو اس زمین کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ اگر ابھی معین ہی نہ ہوئی تھی تو یہ تعریف کیسی؟ واللہ أعلم۔ خیر! یہ تو درست ہے کہ مشترکہ چیز میں وقف ہو سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3633
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3635
´غیر منقسم مال و جائیداد کو وقف کرنے کا بیان۔` عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری ایک زمین ثمغ (مدینہ) میں تھی، میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اصل (زمین) کو روک لو اور اس کے پھل (پیداوار و فوائد) کو تقسیم کر دو۔“[سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3635]
اردو حاشہ: یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے قائل نہیں ”کیونکہ اس میں وقف والی چیز بغیر مالک کے رہ جاتی ہے جو مناسب نہیں“ حالانکہ مالک کی کمی ناظم پوری کررہا ہے اور وہ چیز ملک کی خرابیوں‘ مثلاً: فروخت‘ ہبہ اور وراثت سے بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ البتہ امام صاحب مسجد کے لیے وقف سے استدلال کرتے ہوئے عام وقف کے بھی قائل ہو جاتے۔ احادیث کی مخالفت بھی نہ کرنی پڑتی۔ ولكن اللہ یفعل ما یشاء
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3635
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2397
´جس نے وقف کیا اس کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کر دوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اصل زمین کو رہنے دو، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2397]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) وقف شرعاً درست ہے۔
(2) وقف کسی کی ملکیت نہیں ہوتا البتہ وقف کرنے والا اس کا انتظام خود کرنے کا حق رکھتا ہے۔
(3) وقف سےحاصل ہونے والی آمدنی میں سے وقف قائم رکھنے کےضروری اخراجات نکال کرباقی مال نیکی کےان کاموں میں خرچ ہوگا جن کےلیے وقف کیاگیا ہے۔
(4) وقف کا منتظم اپنی خدمات کےعوض مناسب تنخواہ لے سکتا ہے لیکن یہ تنخواہ بہت زیادہ نہ ہو۔
(5) مال نہ کمانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنے لیے ذریعہ آمدنی نہ بنا لے اورجائز حد سے زیادہ مالی فوائد حاصل نہ کرے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2397
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1375
´وقف کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1375]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیا جا سکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے۔ (دیکھیے: فتح الباری کتاب الوصایا، باب 29 (2773)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1375
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:667
667- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے ایسی زمین ملی ہے کہ اس کی طرح کی زمین مجھے کبھی نہیں ملی۔ مجھے خیبر میں ایک سو حصے ملے ہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ میں ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل کروں (یعنی انہیں صدقہ خیرات کروں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! یہ زمین اپنے پاس رہنے دواور اس کے پھل کو اللہ کی راہ میں دے دو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:667]
فائدہ:
① دینی اور دنیاوی امور میں مشورہ کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے اور اس کے لیے اصحاب علم و تقویٰ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ② وقف کی تعریف یہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی کہ ”اصل مال کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کی آمدنی کو صدقہ کر دیا جائے“۔ اصل مال اور اس کے متولی کے متعلق واضح شرطوں کا تعین کر دینا بھی لازمی ہے۔ ③ قیمتی مال کا وقف کرنا اور صدقہ کرنا از حد افضل عمل ہے تاکہ موت کے بعد دیر تک عمل خیر جاری رہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾(آل عمران: 92)”تم جب تک اپنی محبوب چیزوں سے خرچ نہیں کرو گے نیکی کا اعلی مقام نہیں پاسکو گے۔“ ④ متولی کے لیے ضروری ہے کہ دیندار منتقی اور محنتی ہو، حیلے بہانے سے مال ضائع کرنے اور کھانے کھلانے والا نہ ہو۔ ضرورت کے مطابق اپنی ذات اور مہمانوں کے لیے خرچ کر سکتا ہے۔ ⑤ وصیت اور وقف نامہ تحریر ہونا چاہیے جس پر گواہ بھی ہوں۔ تاکہ بے جا تصرف اور ضیاع سے حتی الامکان حفاظت رہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 667
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4224
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خیبر میں زمین ملی، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کے بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوئے، اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! مجھے خیبر میں زمین ملی ہے، مجھے کبھی اس سے زیادہ پسندیدہ مال نہیں ملا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اس کے اصل کو روک رکھو اور اس کے علاوہ (منافع) صدقہ کر دو۔“ حضرت ابن... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4224]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) یہ زمین جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ملی تھی، وہ ان کا غنیمت سے حصہ تھا، اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا ثمغ نامی مدینہ میں نخلستان بھی وقف کر دیا تھا، بعض راویوں نے اس ثمغ کو خیبر والی زمین قرار دیا ہے، جو درست نہیں ہے، یہ دونوں الگ الگ زمینیں ہیں۔ (تفصیل کے لیے، وفاء الوفاء، امام سمھودی، ج 4، ص 1166، طبع مدینہ منورہ دیکھئے)(2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کسی اہم کام کے لیے اہل علم اور اہل فضل سے مشورہ کرنا اچھا ہے، اور مشیر کو بھی اچھا مشورہ ہی دینا چاہیے۔ (3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کے مطابق اپنی زمین وقف کر دی، اور خود ہی اس کے نگران اور متولی رہے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں، اس وقت کی صورت کو تحریر کر دیا، جس کے لیے سرخ چمڑا (اديم احمر) استعمال کیا گیا۔ (4) وقف کی دو صورتیں ہیں (ا) آدمی اپنی چیز کی اصل یا ذات وقف کر دے، جس سے رفاہ عامہ کا کام لیا جائے، مثلا کوئی زمین مسجد یا مدرسہ یا مسافر خانہ کے طور پر وقف کر دی، اب یہ بالاتفاق ہمیشہ کے لیے وقف ہو جائے گی، واقف کا رجوع یا اس کو فروخت کرنا، کسی کو ھبہ کرنا، یا کسی کا اس کا وارث بننا جائز نہیں ہو گا۔ (ب) شے کی ذات اور اصل وقف نہ کرے، اس کے فوائد اور منافع وقف کر دے، کہ اس گھر کا کرایہ یا اس زمین کی پیداوار فلاں مد میں صرف ہو گی، جمہور فقہاء کے نزدیک یہ چیز ہمیشہ کے لیے وقت ہو جائے گی، اور اس حدیث کے مطابق، واقف کا رجوع، یا اس کو بیچنا یا ہبہ کرنا یا وراثت کا جاری ہونا جائز نہیں ہو گا، ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کا یہی موقف ہے، لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک بعض صورتوں میں مثلا یہ کہے کہ میری اس زمین کی پیداوار فلاں مد کے لیے ہے، تو واقف کا رجوع اور اس کا بیچنا، ہبہ کرنا، وراثت کا جاری ہونا جائز ہو گا، لیکن اگر قاضی اس وقف کو وقف لازم قرار دے دے، تو وقف لازم ہو جائے گا، یا یوں کہے، یہ میری زندگی میں وقف ہے، اور میری موت کے بعد صدقہ ہے، تو پھر وقف لازم ہو گا، لیکن جمہور کے نزدیک وقف ہر صورت میں لازم اور ابدی ہو گا، اور ان شروط و مصارف کی پابندی کی جائے گی، جو واقف نے طے کی ہیں اور اکثر حنفی علماء جمہور کے قول کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔ (تکملہ، ج 2، ص 124)(5) وقف کا متولی یا منتظم وقف کی آمدنی سے دستور کے مطابق اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے، اور گھر میں آنے والے دوست و احباب کو بھی اس سے کھلا سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4224
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2737
2737. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملا تو وہ اس کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے۔ میرے نزدیک اس سے نفیس ترمال میں نے کبھی نہیں پایا۔ آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اصل زمین اپنی ملکیت میں رکھو اور اس کی پیداوار کو صدقہ کردو۔“ پھر حضرت عمر ؓ نے اس شرط کے ساتھ، اس زمین کو صدقہ کردیا کہ نہ اسے فروخت کیا جائے گا اور نہ اسےہبہ ہی کیا جائے گا، نیز اس میں وراثت بھی نہیں چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں، رشتہ داروں، غلام آزاد کرانے، اللہ کے دین کی تبلیغ واشاعت اور مہمانوں کے لیے وقف کردیا، نیز جو اس کا انتظام وانصرام کرے وہ معروف طریقے کے مطابق خود کھائے اور دوسروں کو کھلائے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہو گا۔ لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2737]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے‘ واقف اپنی وقف کو جس جس طور چاہے مشروط کر سکتا ہے‘ جیسا کہ یہاں حضرت عمر ؓ کی شرطوں کی تفصیلات موجود ہیں‘ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ واقف اپنی تجویز کردہ شرطوں کے تحت اپنے وقف پر اپنی ذاتی ملکیت بھی باقی رکھ سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وقف کا متولی نیک نیتی کے ساتھ دستور کے مطابق اس میں سے اپناخرچ بھی وصول کرسکتا ہے۔ اس وقف نامہ میں مصارف کی ایک مد فی سبیل اللہ بھی مذکور ہے۔ جس سے مجاہدین کی امداد مراد ہے اور وہ جملہ کام جن سے اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت ہوتی ہو جیسے اسلامی مدارس اور تبلیغی ادارے وغیرہ وغیرہ۔ هو في اللغة الحبس یقال وقفت کذا بدون الف علی اللغة الفصیح أي حبسته وفي الشریعة حبس الملك في السبیل اللہ تعالیٰ للفقراء و ابنا السبیل یصرف علیھم منافعه و یبقی أصله علی ملك الواقف وألفاظه وقفت و حسبت وسبلت و أبدت ھذا صرائح ألفاظه و أما کنایة تصدقت واختلف في حرمت فقیل صریح وقیل غیر صریح (نیل الأوطار) یعنی وقف کا لغوی معنی روکنا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ میں نے اس طرح اس کو وقف کردیا یعنی روک دیا‘ ٹھہرادیا اور شریعت میں اپنی کسی ملکیت کو اللہ کے راستے میں روک دینا‘ وقف کردینا کہ اس کے منافع کو فقراءاور مسافروں پر خرچ کیا جائے اور اس کی اصل واقف کی ملکیت میں باقی رہے وقف کی صحت کے لئے الفاظ میں نے وقف کیا‘ میں نے اسے روک دیاوغیرہ وغیرہ صریح الفاظ ہیں۔ بطور کنایہ یہ بھی درست ہے کہ میں نے اسے صدقہ کردیا۔ لفظ حرمت میں نے اس کے منافع کا استعمال اپنے لئے حرام قرار دے لیا‘ اس کوبعض نے وقف کے لئے لفظ صریح قرار دیا اور بعض نے غیر صریح قرار دیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب کی حدیث کے ذیل امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں: وفي الحدیث فوائد منھا ثبوت صحة أصل الوقف قال النووي وھذا مذھبنا یعني أئمة الشافعیة و مذھب الجماھیر و یدل علیه أیضاً إجماع المسلمین علی صحة وقف المساجد و السقایات و منھا فضیلة الإنفاق مما یحب ومنھا ذکر فضیلة ظاھرة لعمر رضي اللہ عنه ومنھا مشاورة أھل الفضل والصلاح في الأمور و طریق الخیر ومنھا فضیلة صلة الأرحام و الوقف علیھم۔ واللہ أعلم (نیل) یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں جن میں سے اصل وقف کی صحت کا ثبوت بھی ہے۔ بقول علامہ نووی ائمہ شافعیہ اور جماہیر کا یہی مذہب ہے اور اس پر عام مسلمانوں کا اجماع بھی دلیل ہے جو مساجد اور کنویں وغیرہ کے وقف کی صحت پر ہوچکا ہے اور اس حدیث سے خرچ کرنے کی بھی فضیلت ثابت ہوئی جو اپنے محبوب ترین مال میں سے کیا جاتا ہے اور اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور اس سے اہل علم و فضل سے صلاح و مشورہ کرنا بھی ثابت ہوا اور صلہ رحمی کی فضیلت اور رشتہ نا طہ والوں کے لئے وقف کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔ لفظ ''وقف'' مختلف احادیث میں مختلف معانی پربولاگیا ہے۔ جس کی تفصیل کیلئے کتاب لغات الحدیث بذیل لفظ ''واو'' کا مطالعہ کیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2737
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2772
2772. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عمر ؓ کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے، میں نے قبل ازیں اس سے عمدہ مال کبھی نہیں پایا۔ اس کے متعلق آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اصل زمین روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کرتے رہو۔“ تو حضرت عمر ؓ نے اس طرح صدقہ کیا کہ اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے نہ کسی کو ہبہ کی جائے اور نہ اس کو ورثہ ہی بنایا جائے۔ یہ فقراء قرابت داروں، غلام آزاد کرنے، جہاد فی سبیل اللہ، مہمانوں اور مسافروں کے لیے وقف ہے۔ جو شخص اس وقف کا متولی ہو وہ دستور کے مطابق اس سے خود کھا سکتا ہے اور اپنے دوستوں کو بھی کھلا سکتا ہے لیکن اس کے ذریعے سے دولت جمع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2772]
حدیث حاشیہ: اس روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے وقف کی یہ شرطیں لکھوادیں مگر امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا جس کو ابو داؤد نے نکالا۔ اس میں یوں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ شرطیں معیقیب کی قلم سے لکھوادیں جس میں یہ تھا کہ اصل جائداد کو کوئی بیع یا ہبہ نہ کرسکے‘ اسی کو وقف کہتے ہیں۔ ناطے والوں میں مالدار اور نادار سب آگئے توباب کا مقصد نکل آیا (وحیدی) حضرت عمر ؓ کا یہ واقعہ 7 ھ سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ نے شروع میں اس کا متولی حضرت حفصہ ؓ ام المو منین کو بنایا تھااور یہ لکھا تھا کہ ھذا ما کتب عبداللّٰہ عمر أمیر المؤمنین في ثمغ أنه إلی حفصة ما عاشت تنفق ثمرہ حیث أراھا اللّٰہ فإن توفیت فإلی ذوي الرأي من أھلھا وقف نامہ کا متن لکھنے والے معیقیب تھے اور گواہ عبداللہ بن ارقم۔ آنحضرت ﷺ کے مبارک عہد میں یہ زبانی وقف تھا‘ بعد میں حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد حکومت میں اسے باضابطہ تحریر کرادیا (فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2772
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2773
2773. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے خیبر میں مال حاصل کیا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق آپ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اسے صدقہ کردو۔“ چنانچہ حضرت عمرفاروق ؓ نے وہ مال فقراءمساکین، قریبی رشتہ داروں اور مہمانوں کے لیے صدقہ کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2773]
حدیث حاشیہ: حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: فیه جواز الوقف علی الأغنیاء لأن ذوي القربی والضیف لم یقید بالحاجة وھوالأصح عند الشافعیة (فتح) یعنی اس سے اغنیاءپر وقف کرنے کا جواز نکلا‘ اس لئے کہ قرابتداروں اور مہمانوں کے لئے حاجت مند ہونے کی قید نہیں لگائی اور شافعیہ کے نزدیک یہی صحیح مسلک ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2773
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2737
2737. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملا تو وہ اس کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے۔ میرے نزدیک اس سے نفیس ترمال میں نے کبھی نہیں پایا۔ آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اصل زمین اپنی ملکیت میں رکھو اور اس کی پیداوار کو صدقہ کردو۔“ پھر حضرت عمر ؓ نے اس شرط کے ساتھ، اس زمین کو صدقہ کردیا کہ نہ اسے فروخت کیا جائے گا اور نہ اسےہبہ ہی کیا جائے گا، نیز اس میں وراثت بھی نہیں چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں، رشتہ داروں، غلام آزاد کرانے، اللہ کے دین کی تبلیغ واشاعت اور مہمانوں کے لیے وقف کردیا، نیز جو اس کا انتظام وانصرام کرے وہ معروف طریقے کے مطابق خود کھائے اور دوسروں کو کھلائے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہو گا۔ لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2737]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کے مطابق وقف کرنے والا اپنی وقف کی ہوئی جائیداد کو جس طرح چاہے مشروط کر سکتا ہے، نیز وہ اپنے وقف پر اپنی ذاتی ملکیت بھی باقی رکھ سکتا ہے اور نیک نیتی کے ساتھ دستور کے مطابق اس میں سے اپنے اخراجات بھی پورے کر سکتا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے آئندہ ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب هل ينتفع الواقف بوقفه؟) ” کیا وقف کرنے والا اپنے وقف سے خود بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے؟“(صحیح البخاري، الوصایا، باب: 12) اس میں یہ شبہ نہیں کرنا چاہیے کہ وقف کرنے والے کا اپنے وقف سے فائدہ اٹھانا ایسا ہے، گویا اس نے اپنے صدقے سے خود فائدہ اٹھایا ہے، اس شبہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ (فتح الباري: 470/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2737
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2772
2772. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عمر ؓ کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے، میں نے قبل ازیں اس سے عمدہ مال کبھی نہیں پایا۔ اس کے متعلق آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اصل زمین روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کرتے رہو۔“ تو حضرت عمر ؓ نے اس طرح صدقہ کیا کہ اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے نہ کسی کو ہبہ کی جائے اور نہ اس کو ورثہ ہی بنایا جائے۔ یہ فقراء قرابت داروں، غلام آزاد کرنے، جہاد فی سبیل اللہ، مہمانوں اور مسافروں کے لیے وقف ہے۔ جو شخص اس وقف کا متولی ہو وہ دستور کے مطابق اس سے خود کھا سکتا ہے اور اپنے دوستوں کو بھی کھلا سکتا ہے لیکن اس کے ذریعے سے دولت جمع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2772]
حدیث حاشیہ: (1) اگرچہ اس روایت میں وقف نامہ تحریر کرنے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ نے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام ابو داود ؒ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت معیقیب ؓ کے ذریعے سے ان الفاظ میں دستاویز تیار کرائی ”اصل جائیداد کو کوئی فروخت یا ہبہ نہیں کر سکے گا۔ “(سنن أبي داود، الوصایا، حدیث: 2879) رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ وقف زبانی تھا، پھر آپ نے اپنے دور حکومت میں اسے باضابطہ تحریر کرا دیا۔ (فتح الباري: 491/5)(2) بہتر ہے کہ وقف نامہ تحریر کر کے حکومت سے سرکاری طور پر اس کی رجسٹری کرا لی جائے تاکہ آئندہ کسی قسم کے اختلافات کا باعث نہ ہو۔ زبانی اقرار سے ورثاء میں جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے دستاویز تیار کر کے اس پر گواہی تحریر کرا لی جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2772
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2773
2773. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے خیبر میں مال حاصل کیا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق آپ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اسے صدقہ کردو۔“ چنانچہ حضرت عمرفاروق ؓ نے وہ مال فقراءمساکین، قریبی رشتہ داروں اور مہمانوں کے لیے صدقہ کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2773]
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: اس حدیث سے اغنیاء کے لیے وقف کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں قرابت داروں اور مہمانوں کے لیے حاجت مند ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی۔ (فتح الباري: 493/5)(2) لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اگر اغنیاء کو فقراء کے تابع کر کے ان پر وقف کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اگر کسی نے وقف کو مطلق رکھا اور فقراء کے ساتھ مقید نہیں کیا تو اغنیاء کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔ اگر فقراء کی تخصیص کر دی جائے تو پھر اغنیاء کو وقف شدہ مال کے استعمال کرنے کا حق نہیں۔ صرف اغنیاء کے لیے وقف کرنا محل نظر ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2773