´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کیلئے پتھر۔“ (بخاری و مسلم) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ایک قصہ کے متعلق بھی اسی طرح روایت ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے نسائی نے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ابوداؤد نے یہی روایت بیان کی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 963»
تخریج: «أخرجه البخاري، الحدود، باب للعاهر الحجر، حديث:6818، ومسلم، الرضاع، باب الولد للفراش...، حديث:1458، وحديث عائشة: أخرجه البخاري، الفرائض، حديث:6749، 2053، ومسلم، الرضاع، حديث:1457، وحديث ابن مسعود: أخرجه النسائي، الطلاق، حديث:3517 وهو صحيح، وحديث عثمان: أخرجه أبوداود، الطلاق، حديث: 2275، وهو صحيح.»
تشریح:
1.حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بیوی یا لونڈی جب بچے کو جنم دے تو اس بچے کا نسب اسی آدمی کے ساتھ ملحق کیا جائے گا جو خاوند یا آقا ہے اور وہ اس کا بچہ شمار کیا جائے گا۔
اور بوجہ ولادت ان دونوں کے مابین وراثت وغیرہ کے احکام جاری ہوں گے۔
اور اگر کوئی دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ ارتکاب زنا کا دعویٰ کرے اور یہ دعویٰ بھی کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے اور اس کے ساتھ اس بچے کی مشابہت بھی ہو جبکہ صاحب فراش کے ساتھ نہ ہو تو اس ساری صورتحال کے باوجود بچے کو صاحب فراش کے ساتھ ملحق کیا جائے گااور اس میں زانی کا کوئی حق نہیں ہوگا۔
اور یہ سب کچھ اس صورت میں ہے جب صاحب فراش بچے کی نفی نہ کرے۔
اگر اس نے نفی کر دی تو پھر بچہ ماں کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا اور اس کا نسب ماں کے ساتھ ہوگا‘ زانی کے ساتھ نہیں۔
یاد رہے! جمہور کا قول ہے کہ عورت صرف نکاح سے فراش بن جاتی ہے۔
اب اگر چھ ماہ یا اس سے زیادہ مدت کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے اور خاوند کا اس کے ساتھ جماع کرنا بھی ممکن ہے تو بچہ خاوند کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا اور اگر جماع کا امکان نہ ہو تو پھر بچے کو اس کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔
2. احناف کہتے ہیں کہ محض عقد کی وجہ سے بچے کو عورت کے خاوند کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا‘ خواہ جماع کا امکان ہو یا نہ ہو‘ حتیٰ کہ اگر مغرب کے رہنے والے نے مشرق میں رہنے والی خاتون سے نکاح کیا اور دونوں میں سے کسی نے بھی اپنا وطن مالوف نہ چھوڑا یا کسی آدمی نے عقد نکاح کے بعد طلاق دے دی‘ پھر چھ ماہ بعد اس عورت نے بچہ جنم دیا تو اس صورت میں بچہ اسی مرد کے ساتھ ملحق کیا جائے گا۔
یہ قول ایسا ہے کہ اس کی تردید کی ضرورت ہی نہیں۔
3. امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ عورت سے دخول محقق کی معرفت ضروری ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ اور صاحب منار السبیل نے ان کی تائید کی ہے اور یہ بات لفظ فراش سے لغوی‘ عرفی اور عقلی طور پر سمجھی جاسکتی ہے۔