عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے، اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شخص کے ساتھ کرے۔ اور دونوں ہی بیٹیوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3339]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3339
اردو حاشہ: (1)”شغار یہ ہے“ شغار کی یہ تفسیر اگرچہ خود رسول اللہﷺ یا کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ یہ حضرت ابن عمر کے شاگرد حضرت نافع سے منقول ہے‘ تاہم اس تفسیر سے نکاح شغار کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ وٹہ سٹہ شغار کی ذیل میں نہیں آتا کیونکہ ان میں الگ الگ مہر مقرر ہوتا ہے‘ تاہم جہالت کی وجہ سے وٹہ سٹہ کی شادی کے نتائج بالعموم بہت غلط نکلتے ہیں‘ اس لیے اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ (2) سنن ابوداود میں ایک واقعہ منقول ہے کہ دوشخصوں نے ایک دوسرے کی بیٹی سے نکاح کیا‘ اس کے بعد اس میں الفاظ ہیں: [وكانا جعَلا صداقًا]”اور ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیاتھا۔“(سنن ابي داود: النكاح‘ حدیث: 2075) اس کے باوجود اس راویت میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مروان (اپنے گورنر) کو لکھا ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دیں کیونکہ یہ وہی شعار ہے جس سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس روایت کی بنیاد پر بعض علماء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حق مہر ہو‘ تب بھی اس طرح کا مشروط نکاح (جس میں ایک دوسرے کی بیٹی یا نکاح کی شرط ہو) باطل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ سنن ابو داود کی یہ روایت صحیح ابن حبان (الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان: 6/ 180‘ وموارد الظمآن: 4/196) میں [وَقَدْ کَانَا جَعَلاَہُ صَدَاقاً] کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے‘ یعنی اس میں جعل کا مفعول اول بھی مذکور ہے۔ اس عبارت کی رُو سے معنیٰ بنتے ہیں کہ ان دونوں نے اس مشروط نکاح ہی کو حق مہر بنا دیا تھا۔ اس ضمیر کے ساتھ اس روایت کے معنیٰ بالکل صحیح ہوجاتے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے تفریق کرانے کی معقول وجہ بھی سامنے آجاتی ہے کہ یہ نکاح ممنوعہ شغار کا مصداق تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حکم تفریق بھی اس امر کا قرینہ ہے کہ یہاں ضمیر مفعول اول محذوف ہے اور روایت کے الفاظ [جَعَلاَہُ ] ہی ہیں‘ نہ کہ [جَعَلا ](ضمیرمفعول کے بغیر) کیونکہ حق مہر کی ادائیگی کے باوجود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اس نکاح کو باطل قراردینا ناقابل فہم ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3339
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 355
´وٹے سٹے (شغار) کی شادی منع ہے` «. . . 230- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار. والشغار أن يزوج الرجل ابنته الرجل على أن يزوجه الرجل الآخر ابنته، ليس بينهما صداق. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار (وٹے سٹے کے نکاح) سے منع فرمایا ہے۔ (نافع نے کہا:) اور شغار اسے کہتے ہیں کہ آدمی اپنی بچی کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بچی کا نکاح اس سے کرے گا (اور) دونوں کے درمیان حق مہر نہیں ہو گا . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 355]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5112، ومسلم 1415/57، من حديث مالك به] تفقه ➊ شغار (ادلا بدلا کی شادی، بٹے کی شادی) جائز نہیں ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا: «وأجمع العلماء علٰي أن نكاح الشغار مكروه لا يجوز واختلفوا فيه إذا وقع هل يصح بمهر المثل أم لا؟» علماء کا اجماع ہے کہ شغار مکروہ ہے جائز نہیں ہے اور انہوں نے اس میں اختلاف کیا کہ اگر یہ نکاح کردیا جائے تو کیا مہرِ مثل سے صحیح ہے یا نہیں؟ [التمهيد 14/72] ➋ عبد الرحمن بن ہرمز الاعرج رحمہ الله سے روایت ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبد الرحمن بن حکم سے کیا اور عبد الرحمن نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کیا۔ [و قد كانا جعلاه صداقاً] اور دونوں نے اس (نکاح) کو (ہی) حق مہر قرار دیا تو خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان (بن الحکم الاموی) کی طرف لکھ کر بھیجا کہ ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دو۔ انہوں نے اس خط میں بھی لکھا تھا کہ یہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 4141 يا 4153 وسنده حسن، مسند ابي يعلي: 7370 و سنده حسن] ➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔ ابن نمیر (راوی) نے یہ اضافہ روایت کیا ہے: اور شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے کہے: تم اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بیٹی کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں یا اپنی بہن کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بہن کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں۔ [صحيح مسلم: 1416، دارالسلام: 3469] ➍ بعض علماء کہتے ہیں کہ مطلقا نکاح شغار ممنوع ہے چاہے اس میں حق مہر ہو یا نہ ہو۔ یہ قول مرجوح ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 230
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3336
´نکاحِ شغار (یعنی بیٹی یا بہن کے مہر کے بدلے دوسرے کی بہن یا بیٹی سے شادی کرنے کی ممانعت) کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3336]
اردو حاشہ: شغار جاہلیت کے نکاحوں میں سے ایک نکاح ہے جسے ہماری زبان میں نکاح وٹہ کہتے ہیں۔ یہ اسلام میں ممنوع ہے۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ تفصیلی بحث وہاں ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3336
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2074
´نکاح شغار کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ مسدد نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے: میں نے نافع سے پوچھا: شغار ۱؎ کیا ہے؟ انہوں نے کہا آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح (بغیر مہر کے) کرے، اور اپنی بیٹی کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے اسی طرح کسی کی بہن سے (بغیر مہر کے) نکاح کرے اور اپنی بہن کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2074]
فوائد ومسائل: دورجاہلیت میں یہ نکاح شغار کے نام سے رائج تھا، اس صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی بہن، بیٹی کی اس شرط پر دوسرے شخص سے شادی کرتا کہ وہ شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کی اس شخص سے شادی کرے اور ایک کا مہر دوسرے کا نکاح ہوتا،علیحدہ سے مہر ادا نہ کیا جاتا۔ گویا یہ نکاح ایسا تھا کہ جیسا کہ آج کل بٹے یا ادلے بدلے (بٹاسٹا) کے طور پر بعض جگہ نکاح کیے جاتے ہیں ایسا نکاح جس میں مہر نہ ہو تو یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے اگر ہر لڑکی کا حق مہر الگ سے مقرر کیا گیا ہو تو نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر بدلے کی یہ شرط اور اس طرح کے نکاح بالعموم خاندانوں میں فساد کا ذریعہ بنتے ہیں اس لیے کچھ علما متشدد ہیں اور کہتے ہیں کہ خواہ حق مہر بھی کر لیا گیا ہو تو ناجائز ہے مگر یہ فتوی محل نظر ہے۔ درج ذیل حدیث کے واقعہ میں آرہا ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس اورعبدالرحمن بن حکم نے اس قسم کا نکاح (شغار) کیا اور اس نکاح ہی کو حق مہر قرار دیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ نے ان میں تفریق کروا دی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2074
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1883
´نکاح شغار کی ممانعت۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی سے کہے: آپ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے اس شرط پر کر دیں کہ میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تجھ سے کر دوں گا، اور ان دونوں کے درمیان کوئی مہر نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1883]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نکاح شغار یا متبادل شادیوں سے مراد وہی صورت ہے جو پنجاب میں ”وٹہ سٹہ“ کے نام سے معروف ہے۔ اس کی تفسیر روایت میں ذکر ہو چکی ہے۔
(2) نکاح شغار میں یہ خرابی ہے کہ اگر ایک طرف میاں بیوی میں ناچاقی ہوئی ہے تو دوسری طرف اس کا بدلہ چکانے کی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ دونوں میں سے اگر ایک مرد کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو دوسرا بھی اپنی بے قصور بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔
(3) جاہلیت میں نکاح شغار میں حق مہر کا تعین نہیں کیا جاتا تھا۔ نہ مہر مثل ہی ادا کیا جاتا تھا۔ گویا عورت کا عورت سے تبادلہ ہوتا تھا۔ آج کل اگرچہ حق مہر مقرر کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ خرابی بددستور رہتی ہے کہ ایک مرد کی زیادتی کا بدلہ اس کی بیٹی پر زیادتی کر کے اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے اس صورت سے بھی اجتناب ہی کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1883
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5112
5112. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا: اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح (کسی کے ساتھ) اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے گا اور ان دونوں کا کوئی حق مہر مقرر نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5112]
حدیث حاشیہ: لفظ شغار کی یہ تفسیر بقول بعض حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما یا نافع یا امام مالک کی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5112
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5112
5112. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا: اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح (کسی کے ساتھ) اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے گا اور ان دونوں کا کوئی حق مہر مقرر نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5112]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکاح شغار، اسلام میں نہیں ہے۔ “(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3465 (1415) صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ شغار کی تعریف حضرت نافع نے کی ہے۔ (صحیح البخاري، الحیل، حدیث: 6960) اس میں حق مہر کی قید اتفاقی ہے، اصل مشروط تبادلۂ نکاح ہی شغار ہے، خواہ اس میں حق مہر کی تعیین ہو یا نہ ہو جیسا کہ حضرت عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمٰن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبدالرحمٰن نے اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا، ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کی طرف سے ایک مکتوب کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2075)(2) اگرچہ فقہائے کوفہ نے مہر مثل کی ادائیگی سے اسے جائز قرار دیا ہے لیکن یہ موقف واضح احادیث کے خلاف ہے۔ ہاں، اگر اتفاقی طور پر تبادلۂ نکاح ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (3) اس کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہےکہ اگر ایک لڑکی کو اس کی غلطی کی وجہ سے طلاق ملتی ہے تو دوسری لڑکی کا گھر بلا وجہ اجڑ جاتا ہے، اس لیے شریعت نے مشروط تبادلۂ نکاح سے منع فرما دیا۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5112
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6960
6960. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا ہے، (راوی حدیث عبید اللہ نے کہا) میں نے حضرت نافع سے شغار کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: کوئی آدمی دوسرے کی بیٹی سے نکاح کرتا ہے اور وہ اس کے نکاح میں اپنی بیٹی دیتا ہے، اس (تبادلے) کے علاوہ اور کوئی حق مہر نہیں ہوتا۔ اور مہر کے بغیر کسی آدمی کی بہن سے نکاح کرے اور وہ اس کو اپنی بہن کا نکاح حق مہر کے بغیر کر دے۔ بعض لوگوں نے کہا: اگر کسی نے حیلہ کر کے نکاح شغار کر لیا تو عقد نکاح درست البتہ شرط باطل ہے۔ پھر نکاح متعہ کے متعلق کہا کہ یہ نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ نکاح متعہ اور نکاح شغار دونوں جائز ہیں البتہ شرط باطل ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6960]
حدیث حاشیہ: 1۔ کسی کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرنا کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس سے کر دے، نکاح شغار کہلاتا ہے، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں شغار کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے میں اپنی بیٹی کی شادی تجھ سے کر دیتا ہوں یا کہے کہ تو اپنی بہن کی شادی مجھ سے کر دے، میں اپنی بہن کی شادی تجھ سے کر دیتا ہوں۔ (مسند أحمد: 439/2) شریعت میں ایسا نکاح کرنا حرام ہے بلکہ اسلام اس قسم کے نکاح کو تسلیم نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”نکاح شغار اسلام میں نہیں ہے۔ “(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3465(1415) لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح شغار اپنے اصل کے اعتبار سے مشروع ہے لیکن ایک خاص وصف کی بنا پر فاسد ہے کیونکہ اس میں حق مہر نہیں ہوتا، لہذا مہرمثل واجب قرار دے کر اسے بحال رکھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے لوگوں پر تین اعتراض کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔ اس طرح کے نکاح کو حیلے کے ذریعے سے جائز قرار دینا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے نکاح سے منع فرمایا ہے اور آپ کی نہی منع کردہ چیز کے فساد کا تقاضا کرتی ہے بلکہ اسلام نے تو اس کے وجود سے انکار کیا ہے۔
۔ ان حضرات کے اقوال میں تناقض ہے۔ اسلام میں جس طرح شغار منع ہے، اسی طرح متعہ بھی ممنوع ہے، لہذا ان دونوں کا حکم بھی ایک ہونا چاہیے لیکن یہ لوگ حیلے سے شغار کو جائز قراردیتے ہیں لیکن متعے کو حیلے سے جائز قرار نہیں دیتے، یہ واضح تضاد ہے۔
۔ خود ان حضرات کے اقوال میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اکثر کے نزدیک نکاح شغار جائز اور متعہ ناجائز ہے لیکن ان میں سے بعض کے نزدیک شغار اور متعہ دونوں ہی جائز ہیں، البتہ شرط باطل ہے۔ 2۔ ہمارے رجحان کے مطابق متعے اور شغار کی ممانعت یکساں طور پر احادیث سے ثابت ہے بلکہ نکاح متعہ تو بعض حالات میں حلال تھا مگر شغار کبھی حلال نہیں ہوا۔ اب متعہ بھی قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ 3۔ نکاح شغار کی ممانعت مہر کے نہ ہونے کی بنا پر نہیں کہ مہر مثل سے اسے برقرار رکھا جاسکے گا بلکہ باہمی شرط لگانے اور تبادلے کی وجہ سے حرام ہے۔ اس میں معاشرتی خرابی یہ ہے کہ اگر ایک آدمی دوسرے کی بیٹی چھوڑدیتا ہے تو دوسرا بھی اس کی بیٹی کوچھوڑ دے گا۔ اس میں اگرحق مہر رکھ بھی دیا جائے تب بھی حرام ہے جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمان بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبدالرحمان نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کردیا، ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے مروان بن الحکم کی طرف ایک مکتوب کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان جدائی کاحکم بھیج دیا۔ اس مکتوب میں یہ بھی تھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث 2075) اس نکاح میں حق مہر بھی ادا کردیا گیا تھا اس کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ختم کردیا،لہذا اس قسم کے نکاح کو کسی حیلے کے ذریعے دے جائز قراردینا شریعت کے ضابطے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بروقت اس قسم کے حیلوں سے آگاہ کرکے امت کو خبردار کیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ ان میں گرفتار ہوجائے۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات پر کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ امر واقعی یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک نکاح شغار اور نکاھ موقت جائز ہے،چنانچہ شرح وقایہ میں ہے: "بیع توفاسد شرطوں سے باطل ہوجاتی ہے لیکن نکاح میں فاسد شرائط مؤثر نہیں ہوتیں،لہذا شغار اور نکاح موقت دونوں جائز ہیں۔ "(شرح وقایة، کتاب النکاح)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6960