ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر اوطاس کی طرف بھیجا ۱؎ وہاں ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو گئی، اور انہوں نے دشمن کا بڑا خون خرابہ کیا، اور ان پر غالب آ گئے، انہیں ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے، چنانچہ مسلمانوں نے ان قیدی باندیوں سے صحبت کرنا مناسب نہ سمجھا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم»”اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں“(النساء: ۲۴) یعنی یہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت پوری ہو جائے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3335]
بعث جيشا إلى أوطاس فلقوا عدوا فقاتلوهم وظهروا عليهم فأصابوا لهم سبايا لهن أزواج في المشركين فكان المسلمون تحرجوا من غشيانهن فأنزل الله والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم
بعث جيشا إلى أوطاس فلقوا عدوا فقاتلوهم فظهروا عليهم وأصابوا لهم سبايا فكأن ناسا من أصحاب رسول الله تحرجوا من غشيانهن من أجل أزواجهن من المشركين فأنزل الله في ذلك والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3335
اردو حاشہ: (1)”گناہ محسوس کیا“ کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔ ان کے خاوند زندہ تھے۔ (2)”تمہارے ہاتھ لگیں“ یعنی تمہاری لونڈیاں بن جائیں۔ لیکن کسی آزاد عورت کو خرید کر لونڈی نہیں بنایا جاسکتا۔ صرف جنگ میں کافر عورت قبضے میں آئے تو وہ لونڈی بن سکتی ہے۔ اگر کوئی شادی شدہ عورت پہلے سے لونڈی ہے تو اسے خریدنے سے اس کا سابقہ نکاح ختم نہیں ہوگا۔ (3)”جماع ونکاح“ یعنی مالک کے لیے جماع اور غیر مالک کے لیے نکاح (4)”عدت گزر جائے“ اور یہ عدت ایک حیض ہے۔ اگر حیض آجائے تو حیض ختم ہونے کے بعد جماع جائز ہے اور حیض نہ آئے تو وہ حاملہ ہوگی۔ وضع حمل تک جماع یا نکاح جائز نہیں۔ (5) یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے کہ جس طری عجمیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے‘ عرب مشرکین کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے ہوازن کو قیدی اور غلام بنایا تھا اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں۔ (6) اہل کتاب کے علاوہ کفار کی خواتین کو بھی لونڈیاں بنایا جاسکتا ہے اور ان سے جماع کیا جاسکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3335
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2155
´قیدی لونڈیوں سے جماع کرنے کا بیان۔` ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے دن مقام اوطاس کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تو وہ لشکر اپنے دشمنوں سے ملے، ان سے جنگ کی، اور جنگ میں ان پر غالب رہے، اور انہیں قیدی عورتیں ہاتھ لگیں، تو ان کے شوہروں کے مشرک ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کرام نے ان سے جماع کرنے میں حرج جانا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں یہ آیت نازل فرمائی: «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم»”اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں“(سورۃ النساء: ۲۴) تو وہ ان کے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت ختم ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2155]
فوائد ومسائل: جنگی قیدی بن جانے کے بعد میاں بیوی میں جدائی پیدا ہو جاتی ہے خواہ دونوں میں سے کوئی ایک پکڑا جائے یا دونوں۔ اس لئے عورت سے استمتاع جائز ہے اور اس کی عدت ایک حیض ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2155
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3608
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر ایک لشکر وادی اوطاس کی طرف روانہ کیا، ان کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا اور باہمی جنگ کے نتیجہ میں مسلمان ان پر غالب آ گئے اور ان کی عورتوں کو قید کر لیا، تو گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ساتھیوں نے، ان کے مشرک خاوند موجود ہونے کی وجہ سے ان سے صحبت کرنا گناہ خیال کیا۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (شادی شدہ عورتیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3608]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جنگ اوطاس کا واقعہ فتح مکہ کے بعد پیش آیا جس میں بنو ہوازن جو مشرک تھے شکست کھا کر بھاگ گئے، لیکن چونکہ وہ ساتھ اپنی عورتوں کو بھی لائے تھے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کی قید میں آ گئیں اور امت کا اس بات پراتفاق ہے کہ جن کافروں سے جنگ ہے ان کی عورت اگر بلا خاوند قید ہو جائے تو اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ اور جس کے حصہ میں آئے گی وہ ایک حیض کے ذریعہ یہ معلوم کرنے کے بعد کہ وہ حاملہ نہیں ہے اس سے صحبت کرسکے گا۔ ائمہ اربعہ اور جمہور علماء کے نزدیک مباشرت کے لیے باندی ہونے کے ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ وہ استبرائے رحم کے بعد، مسلمان ہو چکی ہو یا کتابی عورت ہو اگر بت پرست یا مجوسیہ ہو اور اسلام نہ لا چکی ہو تو پھر مباشرت جائز نہیں ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فسخ نکاح کا سبب، عورت کا قید میں آنا ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک میاں بیوی کے وطن کا مختلف ہونا ہے، اس لیے اگرخاوند دارالحرب میں ہے اور بیوی دارالسلام میں تو نکاح فسخ ہو گا۔ اگر میاں بیوی دونوں قید میں آ گئے ہیں تو نکاح فسخ نہیں ہو گا۔ احناف کا یہی مؤقف ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت اکیلی قید میں آئے یا میاں بیوی دونوں ہر صورت میں نکاح فسخ ہو جائے گا۔ لیکن اگر دارالسلام میں شادی شدہ باندی آ گے بیچ دی جائے تو ائمہ اربعہ اور جمہور علماء کے نزدیک خریدار کے لیے خاوند سے طلاق لیے بغیر محض استبراء رحم سے اس سے مباشرت کرنا جائز نہیں ہو گا۔ کیونکہ خریدوفروخت سے نکاح فسخ نہیں ہوتا۔ اگرچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم خریدوفروخت کو بھی فسخ نکاح کا سبب قرار دیتے ہیں۔