معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد دو طرح کے ہیں: ایک جہاد وہ ہے جس میں جہاد کرنے والا اللہ کی رضا و خوشنودی کا طالب ہو، امام (سردار) کی اطاعت کرے، اپنی پسندیدہ چیز اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اپنے شریک کو سہولت پہنچائے، اور فساد سے بچے تو اس کا سونا، و جاگنا سب کچھ باعث اجر ہو گا۔ دوسرا جہاد وہ ہے جس میں جہاد کرنے والا ریاکاری اور شہرت کے لیے جہاد کرے، امیر (سردار و سپہ سالار) کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد پھیلائے تو وہ برابر سرابر نہیں لوٹے گا ۱؎“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3190]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الجہاد25 (2515)، (تحفة الأشراف: 11329)، موطا امام مالک/الحج 18 (43) (موقوفا) مسند احمد (5/234)، سنن الدارمی/الجہاد 25 (2461)، ویأتي عند المؤلف برقم: 4200 (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے کچھ ثواب نہیں ملے گا، بلکہ ہو سکتا ہے الٹا اسے عذاب ہو۔
الغزو غزوان فأما من ابتغى وجه الله وأطاع الإمام وأنفق الكريمة وياسر الشريك واجتنب الفساد كان نومه ونبهه أجرا كله من غزا رياء وسمعة وعصى الإمام وأفسد في الأرض فإنه لا يرجع بالكفاف
الغزو غزوان فأما من ابتغى وجه الله وأطاع الإمام وأنفق الكريمة واجتنب الفساد فإن نومه ونبهته أجر كله من غزا رياء وسمعة وعصى الإمام وأفسد في الأرض فإنه لا يرجع بالكفاف
الغزو غزوان فأما من ابتغى وجه الله وأطاع الإمام وأنفق الكريمة وياسر الشريك واجتنب الفساد فإن نومه ونبهه أجر كله من غزا فخرا ورياء وسمعة وعصى الإمام وأفسد في الأرض فإنه لم يرجع بالكفاف
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4200
´امام اور حاکم کی نافرمانی کی شناعت کا بیان۔` معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”جہاد دو طرح کے ہیں: ایک تو یہ کہ کوئی خالص اللہ کی رضا کے لیے لڑے، امام کی اطاعت کرے، اپنے سب سے پسندیدہ مال کو خرچ کرے اور فساد سے دور رہے تو اس کا سونا جاگنا سب عبادت ہے، دوسرے یہ کہ کوئی شخص دکھاوے اور شہرت کے لیے جہاد کرے، امام کی نافرمانی کرے، اور زمین میں فساد برپا کرے، تو وہ برابر سراسر بھی نہ لوٹے گا“(بلکہ عذاب کا مستحق ہو گا)۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4200]
اردو حاشہ: (1) حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہَا۔ (2) اس حدیث سے ریاکاری، شہرت اور فساد فی الارض کی مذمت ثابت ہوتی ہے، نیز ان کاموں سے نہ صرف نیکیاں برباد ہوتی ہیں بلکہ اس کا مرتکب شخص گناہوں کا بہت بڑا بوجھ بھی اٹھا لیتا ہے۔ (3) وہ مجاہد جو حدیث میں مذکور صفات کا حامل ہو گا وہی جہاد کے فضائل حاصل کر سکے گا وگرنہ جو امیر کا نافرمان ہو گا وہ جہاد کی فضیلت حاصل نہیں کر پائے گا۔ (4)”فساد سے بچے“ باہمی فساد مراد ہے، یعنی آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرے اس سے مسلمانوں میں آپس میں پھوٹ پڑے گی اور کافروں پر ان کا رعب ختم ہو جائے گا۔ (5)”پہلی حالت میں بھی واپس نہیں لوٹے گا“ یعنی جہاد سے پہلے والے اعمال بھی برقرار نہیں رہیں گے بلکہ اس قسم کے جہاد کا گناہ پہلے سے کیے ہوئے بہت سے اعمال کے ثواب کو بھی ضائع کر دے گا، چہ جائیکہ اس جہاد کا ثواب ملے جبکہ صحیح نیت اور طریقے کے ساتھ جہاد کرنے سے جہاد کے علاوہ عادی امور کا بھی ثواب ملے گا، مثلاً: سونا، چلنا، پھرنا اور کھانا، پینا وغیرہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4200