براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرمایا: کیا فرمایا؟ وہ الفاظ راوی کو یاد نہیں رہے لیکن) وہ کچھ ایسے الفاظ تھے جن کے معنی یہ نکلتے تھے: شانے کی ہڈی، تختی (کچھ) لاؤ۔ (جب وہ آ گئی تو اس پر لکھا یا) چنانچہ (زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے) لکھا: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» اور عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے موجود تھے۔ (وہ اندھے تھے۔ اسی مناسبت سے) انہوں نے کہا: کیا میرے لیے رخصت ہے؟ (میں معذور ہوں، جہاد نہیں کر پاؤں گا) تب یہ آیت «غير أولي الضرر»”ضرر، نقصان و کمی والے کو یعنی مجبور، معذور کو چھوڑ کر“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3103]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3103
اردو حاشہ: ”کندھے کی ہڈی“ اس دور میں لکھنے کے لیے اس قسم کی چیزیں ہی استعمال ہوتی تھیں۔ کندھے کی ہڈی چونکہ باریک ہوتی ہے، لہٰذا لکھنے کے لیے موزوں تھی۔ ”لوح“ سے مراد پتھر یا لوہے یا لکڑی کی تختی ہے۔ رسول اللہﷺ خود لکھنا نہیں جانتے تھے۔ کاتب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو لکھوایا کرتے تھے۔ آپ خود اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ زبانی یاد رکھتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3103
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1670
´معذور لوگوں کے لیے جہاد نہ کرنے کی رخصت کا بیان۔` براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس «شانہ»(کی ہڈی) یا تختی لاؤ، پھر آپ نے لکھوایا ۱؎: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين»”یعنی جہاد سے بیٹھے رہنے والے مومن (مجاہدین کے) برابر نہیں ہو سکتے ہیں نابینا صحابی“، عمرو ابن ام مکتوم رضی الله عنہ آپ کے پیچھے تھے، انہوں نے پوچھا: کیا میرے لیے اجازت ہے؟ چنانچہ (آیت کا) یہ ٹکڑا نازل ہوا: «غير أول الضرر»“، (معذورین کے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1670]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ تختیوں اور ذبح شدہ جانوروں کی ہڈیوں پرگرانی آیات وسور کا لکھنا جائز ہے اور مذبوح جانوروں کی ہڈیوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1670
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3031
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔` براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين»”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں“(النساء: ۹۵) نازل ہوئی تو عمرو بن ام مکتوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ نابینا تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں، میں تو اندھا ہوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے آیت: «غير أولي الضرر» نازل فرمائی، یعنی مریض اور معذور لوگوں کو چھوڑ کر، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس شانہ کی ہڈی اور دوات لے آؤ (یا یہ کہا) تختی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3031]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں“(النساء: 95) اس کے بعد والے ٹکڑے نے ”بیٹھے رہ جانے والوں“ میں سے معذروں کو مستثنیٰ کر دیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3031
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4593
4593. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا اور انہوں نے یہ آیت لکھ دی۔ پھر حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ آئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا تو اللہ تعالٰی نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَر﴾ کے الفاظ نازل فرما دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4593]
حدیث حاشیہ: جس سے معذورین کا استثناء ہو گیا۔ آیت میں مجاہدین اور بیٹھ رہنے والوں کا ذکر تھا کہ وہ برابر نہیں ہوسکتے مگر جو لوگ معذور ہیں وہ قابل معافی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4593
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4594
4594. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”فلاں کاتب کو بلاؤ۔“ چنانچہ وہ اپنے ساتھ دوات اور تختی یا شانے کی ہڈی لے کر حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لکھو ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ اس وقت نبی ﷺ کے پیچھے حضرت ابن ام مکتوم ؓ تھے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو نابینا ہوں، چنانچہ وہیں بیٹھے بیٹھے یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾[صحيح بخاري، حديث نمبر:4594]
حدیث حاشیہ: آیت کا تر جمہ یہی ہے کہ سوائے معذور لوگوں کے جہاد سے بیٹھ رہنے والے اور جہاد میں شرکت کرنے والے مؤمنین برابر نہیں ہو سکتے۔ مجاہدین فی سبیل اللہ کا درجہ بہت بلند ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4594
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2831
2831. حضرت براء ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”اہل ایمان میں سے جو لوگ جہاد سے بیٹھ رہیں۔۔۔ آخر آیت تک“ تو آپ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو بلایاتو وہ کندھے کی ہڈی لائے جس پر اس آیت کو لکھا اتنے میں ابن اُ م مکتوم ؓ آئے اور شکوہ کیا کہ میں تو اندھا ہوں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ یعنی ”بغیر کسی معذوری کے“ الفاظ نازل فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2831]
حدیث حاشیہ: اس زمانہ میں چونکہ کاغذ زیادہ نہیں تھا‘ اس لیے ہڈی یا اور بہت سی دوسری چیزوں پر بھی خاص طریقے استعمال کرنے کے بعد اس طرح لکھا جاتا کہ صاف پڑھا جاسکتا تھا اور کتابت بھی ایک طویل زمانہ تک باقی رہتی تھی۔ یہاں ایسی ہی ایک ہڈی پر آیت لکھنے کا ذکر ہوا ہے۔ اس آیت نے نابینا وغیرہ معذورین کو فرضیت جہاد سے مستثنیٰ کردیا۔ جس دور میں جیسا کہ آج کل ہے شرائط جہاد پورے طور پر موجود نہ ہوں اس دور کے اہل اسلام بھی معذورین ہی میں شمار ہوں گے مگر ایسے دور کو ضعف اسلام کا دور کہا جائے گا جیسا کہ بدأ الإسلام غريبًا وسيعود غريبًا سے ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2831
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4593
4593. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا اور انہوں نے یہ آیت لکھ دی۔ پھر حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ آئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا تو اللہ تعالٰی نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَر﴾ کے الفاظ نازل فرما دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4593]
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلے آیت میں یہ ذکر تھا کہ جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہوسکتے، اس میں معذور لوگوں کی وضاحت نہ تھی، پھر جب معذور لوگوں نے عذر پیش کیا تو مزید الفاظ نازل ہوئے جن سے معذور لوگوں کو تسلی ہوگئی کہ ان کا مرتبہ مجاہدین سے کم نہیں ہے جیساکہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مدینے میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔ "صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: باوجود اس کے کہ وہ مدینے میں ہیں؟آپ نے فرمایا: "ہاں،لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنھیں عذر نےروک لیا ہے۔ " گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کے عذر کو قبول فرما لیا لیکن اس رخصت کے باوجود آپ کا جذبہ جہاد اتنا تھا کہ نابینا ہونے کے باوجود آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔ 2۔ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ام مکتوم ؓ اس وقت آئے جب رسول اللہ ﷺ آیت لکھوا رہے تھے جبکہ آخری حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ابن مکتوم ؓ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا تو اس وقت آپ سامنے آگئے اور اپنا عذر پیش کیا کہ میں تو نابیناہوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4423)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4593
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4594
4594. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”فلاں کاتب کو بلاؤ۔“ چنانچہ وہ اپنے ساتھ دوات اور تختی یا شانے کی ہڈی لے کر حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لکھو ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ اس وقت نبی ﷺ کے پیچھے حضرت ابن ام مکتوم ؓ تھے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو نابینا ہوں، چنانچہ وہیں بیٹھے بیٹھے یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾[صحيح بخاري، حديث نمبر:4594]
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلے آیت میں یہ ذکر تھا کہ جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہوسکتے، اس میں معذور لوگوں کی وضاحت نہ تھی، پھر جب معذور لوگوں نے عذر پیش کیا تو مزید الفاظ نازل ہوئے جن سے معذور لوگوں کو تسلی ہوگئی کہ ان کا مرتبہ مجاہدین سے کم نہیں ہے جیساکہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مدینے میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔ " صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: باوجود اس کے کہ وہ مدینے میں ہیں؟آپ نے فرمایا: "ہاں،لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنھیں عذر نےروک لیا ہے۔ " گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کے عذر کو قبول فرما لیا لیکن اس رخصت کے باوجودآپ کا جذبہ جہاد اتنا تھا کہ نابینا ہونے کے باوجود آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔ 2۔ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ام مکتوم ؓ اس وقت آئے جب رسول اللہ ﷺ آیت لکھوا رہے تھے جبکہ آخری حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ابن مکتوم ؓ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا تو اس وقت آپ سامنے آگئے اور اپنا عذر پیش کیا کہ میں تو نابیناہوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4423)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4594
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4990
4990. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا زید کو میرے پاس بلاو اور ان سے کہو کہ تختی، دوات اور شانے کی ہڈی لے کر آئے۔“ جب وہ آئے تو آپ نے فرمایا: اس نبی ﷺ کو لکھو: ﴿لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ﴾ اس وقت نبی ﷺ کے پیچھے ایک نابینا صحابی سیدنا عمرو بن ام مکتوم ؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کا میرے متعلق کیا حکم ہے؟ بلاشبہ میں تو نا بینا ہوں۔ تو اس موقع پر یہ آیت کریم بایں الفاظ نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾[صحيح بخاري، حديث نمبر:4990]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں لفظ ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ فی سبیل اللہ کے بعد واقع ہوا ہے جبکہ قرآن کریم میں ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ کے بعد مذکور ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں قرآن مجید کے مطابق آیت کریمہ کا اندراج ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4594) ممکن ہے کہ مذکورہ روایات میں بطور تلاوت نہیں بلکہ تفسیرکے اعتبار سے ایسا ہو۔ واللہ اعلم۔ 2۔ ان احادیث میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے تھے جبکہ ان کے علاوہ بھی کاتبان وحی موجود تھے کیونکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو ہجرت کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں اور وحی کا سلسلہ تو اس سے پہلے جاری تھا، بہرحال ان کےعلاوہ خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حنظلہ بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کاتبان وحی میں ملتے ہیں۔ (فتح الباري: 29/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4990