عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ جمرہ کو گھاٹی کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں، تو عبداللہ بن مسعود نے وادی کے نیچے سے کنکریاں ماریں، پھر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اسی جگہ سے اس شخص نے کنکریاں ماریں جس پر سورۃ البقرہ نازل ہوئی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3072]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3072
اردو حاشہ: (1) رمی کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں طرف بیت اللہ ہو اور دائیں طرف منیٰ اور منہ جمرے کی طرف ہو۔ اس طرح رمی کرنے والا نشیب میں کھڑا ہوگا۔ یہ مستحب ہے مگر رش کی صورت میں چونکہ سب لوگ اس طرح رمی نہیں کر سکتے، لہٰذا جس طرف سے بھی رمی ہو جائے کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا، البتہ جس طرح آپ نے کی، وہ مستحب ہے۔ (2)”اس شخصیت نے“ مراد رسول اللہﷺ ہیں۔ سورہ بقرہ کا خصوصی ذکر اس لیے کیا کہ اس میں حج کے کافی مسائل ہیں۔ (3) بات کو موکد کرنے کے لیے مطالبے کے بغیر بھی قسم کھانا جائز ہے۔ (4) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ کا ہر عمل کما حقہ محفوظ کیا۔ اور وہ بحمد للہ، ہو بہو اسی شکل میں ہم تک پہنچا جس طرح انھوں نے پہنچایا… رضي اللہ عنهم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3072
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1974
´رمی جمرات کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا: اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1974]
1974. اردو حاشیہ: اور یہ وہی منظر ہے جس کا ذکر دیگر احادیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے وادی کے دامن میں سے کنکریاں ماریں(صحیح البخاری الحج حدیث:1750]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1974
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 627
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو اپنی بائیں جانب اور منٰی کو اپنی دائیں جانب رکھا اور جمرہ کو سات سنگریزے مارے اور فرمایا کہ یہ ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جن پر سورۃ «البقره» کا نزول ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 627]
627 لغوی تشریح: «رمى الجمرة» اس جمرہ سے جمرۃ العقبہ مراد ہے۔ «انزلت عليه سورة البقرة» سورہ بقرہ کا بالخصوص ذکر اس لیے کیا کہ حج کے اکثر احکام اس میں بیان ہوئے ہیں۔ گویا اس سے اس پر متنبہ اور خبردار کرنا مقصود ہے کہ حج کے اعمال توفیقی ہیں۔ ان میں رد و بدل اور ترمیم و تنسیخ کی کوئی گنجائش نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 627
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3075
´جمرہ عقبہ کی رمی کہاں سے کی جائے؟` اعمش کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو کہتے سنا کہ ”سورۃ البقرہ“ نہ کہو، بلکہ کہو ”وہ سورۃ جس میں بقرہ کا ذکر کیا گیا ہے“ میں نے اس بات کا ذکر ابراہیم سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن یزید نے بیان کیا ہے کہ وہ عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) کے ساتھ تھے جس وقت انہوں نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں، وہ وادی کے اندر آئے، اور جمرہ کو اپنے نشانہ پر لیا، اور سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہی، تو میں نے کہا: بعض لوگ (کنکریاں مارنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3075]
اردو حاشہ: حجاج کا یہ قول غیر ضروری تکلف ہے۔ سورہ بقرہ نام بن چکا ہے، لہٰذا اس کا لفظی ترجمہ نہیں کریں گے۔ ناموں میں اختصار ملحوظ ہوتا ہے ورنہ سورۂ بقرہ کے معنیٰ بھی یہی ہیں کہ جس سورت میں گائے کا ذکر ہے۔ حجاج نے لفظی ترجمے (گائے کی سورت) کی رو سے سوء ادب خیال کیا لیکن یہ درست نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3075
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3030
´جمرہ عقبہ پر کہاں سے کنکریاں ماری جائیں؟` عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے نچلے حصے میں گئے، کعبہ کی طرف رخ کیا، اور جمرہ عقبہ کو اپنے دائیں ابرو پر کیا، پھر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے جاتے تھے پھر کہا: قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، یہیں سے اس ذات نے کنکری ماری ہے جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3030]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ابرو کے مقابل رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بالکل سامنے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تھوڑا سا ہٹ کر کھڑے ہوئے۔
(2) رمی کرتے وقت کنکریاں ایک ایک مارنی چاہییں۔
(3) ہر کنکری مارتے وقت الله اكبر کہنا چاہیے۔
(4) اس حدیث میں ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کیا جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف رکھا۔ (صحيح البخاري، الحج، باب من رمي جمرة العقبة فجعل البيت عن يساره، حديث: 1749) حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی ہےلیکن یہ بھی فرمایا ہے: اس بات پر اجماع ہے کہ جہاں بھی کھڑے ہوکر رمی کرے جائز ہےخواہ اس کی طرف منہ کرے یا اسے دائیں بائیں رکھے۔ اس کی اوپر کی سمت سے یا نیچے کی سمت سے یا درمیان سے (فتح الباري3/ 734)
(5) سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس میں حج کے بہت سے مسائل مذکور ہیں، مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام کا مطلب رسول اللہ ﷺ بہتر طور پر سمجھتے تھے اس لیے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عمل کیا ہےہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3030
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:111
111- اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو یہ کہتے ہوئے سنا: تم لوگ یہ نہ کہو ”سورہ بقرہ“، سورہ فلاں۔اعمش کہتے ہیں: میں نے اس بات کا تذکرہ ابراھیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے بتایا: عبدالرحمٰن بن یزید نے مجھے یہ بات بتائی ہے، ایک مرتبہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ وادی کے نشیب میں چل رہتے تھے، جب وہ جمرہ کے پاس آئے، تو سیدنا عبداللہ نے اسے اپنے دائیں طرف رکھا اور پھر ان کے مدمقابل آگئے، پھر انہوں نے اسے کنکریاں ماریں۔ میں نے ان سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! لوگ تو اوپر سے کنکریاں مارتے یں، تو انہوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے، وہ ہستی جن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:111]
فائدہ: حجاج بن یوسف بعض دفعہ اہل علم سے علمی بحث کرتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بعض مسائل میں غلطیاں بھی کرتے تھے۔ اس حدیث میں رمی کرنے کے بعض مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ رمی کرتے وقت کنکریاں ایک ایک کر کے مارنی چاہئیں۔ ہر رمی کرتے وقت اللہ کبر پڑھنا چاہیے۔ (بخاری: 175) کنکریاں مارتے وقت کس طرف منہ کر نا چا ہیے سنن ابن ماجہ (3030) میں ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کیا جائے، جبکہ صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیت اللہ کو بائیں طرف اور منٰی کو دائیں طرف رکھتے تھے۔ (حـديـث: 1749) اس میں راجح بات صحيح بخاری والی ہے، اور یاد رہے کہ جہاں بھی کھڑے ہو کر رمی کی جائے، جائز ہے، خواہ اس کی طرف منہ کرے، یا اسے دائیں یا بائیں رکھے، اس کے اوپر کی سمت سے کنکریاں پھینکے یا نیچے کی سمت سے یا درمیان سے۔ (فتح الباری: 734/3) اس حدیث میں صحابی نے سورہ بقرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس سورہ میں حج کے اکثر مسائل مذکور ہیں۔ وہ یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جن پر قرآن نازل ہوا ہے) سے بڑھ کر کون ہے، جو دین کے مسائل سمجھتا ہو۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ سورۃ البقرہ، سورۃ الناس وغیرہ کہنا حدیث سے ثابت ہے۔ حجاج بن یوسف کو غلطی لگ گئی تھی، جس طرح ان کو لوگوں کے قتل کرنے میں غلطی لگ گئی تھی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 111
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3132
امام اعمش سے روایت ہے، میں نے حجاج بن یوسف سے سنا، جبکہ وہ منبر پر خطبہ دے رہا تھا، قرآن کو اس طرح مرتب کرو، جس طرح اسے جبریل علیہ السلام نے مرتب کیا تھا، وہ سورۃ جس میں بقرہ کا تذکرہ ہے، وہ سورۃ جس میں عورتوں (نساء) کا تذکرہ ہے، وہ سورہ جس میں آل عمران کا تذکرہ کیا گیا ہے، اعمش کہتے ہیں، میری ابراہیم سے ملاقات ہوئی، میں نے اسے حجاج کی بات بتائی، اس نے حجاج کو برا بھلا کہا، اور کہا، مجھے عبدالرحمٰن بن یزید نے بتایا، کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3132]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حجاج بن یوسف کا مؤقف یہ تھا کہ سورہ بقرہ، سورہ نساء یا سورہ آل عمران نہیں کہنا چاہیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے وہ سورۃ جس میں بقرہ کا تذکرہ ہے، وہ سورہ جس میں نساء کا تذکرہ ہے، وہ سورہ جس میں آل عمران کا ذکر ہے۔ امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے اس تکلف کی کیا ضرورت ہے جب کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سورۃ بقرہ، سورۃ نساء وغیرہ کے نام سے یاد کیا ہے باقی قرآن مجید کی سورتوں اور آیات کی ترتیب اور مصحف کی اشاعت تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ حجاج بن یوسف بنوامیہ کا گورنر ہو کر اس کی مخالفت کیسے کر سکتا تھا اور آیات وسورتوں کی ترتیب توفیقی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطابق آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا صرف سورہ انفال اور سورۃ توبہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کی ترتیب توفیقی ہے یا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتہاد ہے۔ اورکنکریاں مارنا جمہور کے نزدیک واجب ہے، اگر کسی شخص نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہیں ماریں حتی کہ ایام تشریق بھی گزر گئے تو اس کا حج صحیح ہو گا لیکن اس کو ایک جانورقربان کرنا ہوگا۔ احناف کا مؤقف بھی یہی ہے لیکن بعض مالکیوں کے نزدیک رمی رکن ہے اس لیے اس کے بغیر حج نہیں ہو گا۔ کنکریاں مارنے والا عقبہ کی طرف رخ کر کے اس طرح کھڑا ہو گا کہ مکہ مکرمہ اس کے بائیں ہو اور منیٰ دائیں۔ اب وادی کے اندر سے مارنے کا مسئلہ نہیں رہا کیونکہ وہاں صاف شفاف سڑکیں بن چکی ہیں۔ اب کنکریاں اللہ اکبر کہہ کر الگ الگ جمرہ کے دائرہ کے اندر پھینکنی ہوں گی، اگرسب کنکریاں بیک بار پھینک دے گا، تو ائمہ اربعہ کے نزدیک ایک کنکری شمار ہو گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3132
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3136
عبدالرحمٰن بن یزید رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا، کچھ لوگ جمرہ پر کنکریاں عقبہ کے اوپر سے مارتے ہیں، تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وادی کے اندر سے کنکریاں مار کر کہا، یہاں سے، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اس شخص نے کنکریاں ماریں تھیں، جس پر سورۃ بقرہ نازل کی گئی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3136]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جمرۃ عقبہ جس کو جمرۃ کبریٰ بھی کہتے ہیں، مکہ کی طرف منیٰ سے آخری جمرہ ہے اور قربانی کے دن صرف اس کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں لیکن کنکریاں مارنے کے بعد یہاں رک کر دعا نہیں کی جاتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3136
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1748
1748. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، جب وہ جمرہ کبریٰ (جمرہ عقبہ) کے پاس پہنچے تو انھوں نے کعبے کواپنی بائیں جانب اور منیٰ کو اپنی دائیں طرف کرلیا، پھر اسے سات کنکریاں ماریں اور فرمایا کہ اس طرح اس شخصیت ﷺ نے کنکریاں ماریں تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1748]
حدیث حاشیہ: حافظ صاحبؒ فرماتے ہیں: و استدل بهذا الحدیث علی أشراط رمي الجمارات واحدة واحدة لقوله یکبر مع کل حصاة و قد قال صلی اللہ علیه وسلم خذوا عني مناسککم و خالف في ذلك عطاء و صاحبه أبوحنیفة فقالا لو رمی السبع دفعة واحدة أجزاہ الخ (فتح) یعنی اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ رمی جمرات میں شرط یہ ہے کہ ایک ایک کنکری الگ الگ پھینکی جانے کے بعد ہر کنکری پر تکبیر کہی جائے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے مناسک حج سیکھو اور آپ ﷺ کا یہی طریقہ تھا کہ آپ ﷺ ہر کنکری پر تکبیر کہا کرتے تھے۔ مگر عطا اور آپ کے صاحب امام ابوحنیفہ ؒ نے اس کے خلاف کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ سب کنکریوں کا ایک دفعہ ہی مار دینا کافی ہے۔ (مگر یہ قول درست نہیں ہے)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1748
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1750
1750. حضرت اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا: وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے، وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے اور وہ سورت جس میں نساء کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا: جب میں نے اس بات کاابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن یزید نے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ہمراہ تھے۔ جب انھوں نے جمرہ عقبہ کو رمی کی تو وادی کے نشیب میں اترے حتیٰ کہ درخت کے بالمقابل ہوئے۔ اس کے سامنے کھڑے ہوکر سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے۔ پھرکہا: اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے!اس جگہ سے اس ذات گرامی نے کنکریاں ماری تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1750]
حدیث حاشیہ: معلوم ہواکہ کنکری جداجدا مارنی چاہئے اور ہر ایک کے مارتے وقت اللہ أکبر کہنا چاہئے۔ روایت میں حجاج بن یوسف کا ذکر ہے کہ وہ سورتوں کے مجوزہ ناموں کا استعمال چھوڑ کر اضافی ناموں سے ان کا ذکر کرتا تھا جیسا کہ روایت مذکور ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم نخعی نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت کا ذکر کیا کہ وہ سورتوں کے مجوزہ نام ہی لیتے تھے اور یہی ہونا چاہئے اس بارے میں حجاج کا خیال درست نہ تھا، امت اسلامیہ میں یہ شخص سفاک بے رحم ظالم کے نام سے مشہور ہے کہ اس نے زندگی میں خدا جانے کتنے بے گناہوں کا خون ناحق زمین کے گردن پر بہایا ہے، باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے قال ابن المنیر خص عبداللہ سورة البقرة بالذکر لأنها التي ذکراللہ فیها الرمي فأشار إلی أن فعله صلی اللہ علیه وسلم مبین لمراد کتاب اللہ تعالیٰ الخ۔ (فتح الباري) یعنی ابن منیر نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے خصوصیت کے ساتھ سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں اللہ نے رمی کا ذکر فرمایا ہے پس آپ نے اشارہ کیا کہ نبی ﷺ نے اپنے عمل سے کتاب اللہ کی مراد کی تفسیر پیش کردی گویا یہ بتلایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آنحضرت ﷺ پر احکام مناسک کا نزول ہوا۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں جس طرح شارع ؑ نے ان کو بتلایا، اسی طرح ان کی ادائیگی لازم ہے کمی بیشی کی کسی کو مجال نہیں ہے۔ واللہ أعلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1750
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1747
1747. حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو میں نے کہا: ابو عبدالرحمان!کچھ لوگ تو اوپر ہی سے کھڑے ہوکررمی کرتے ہیں، توانھوں نے فرمایا: قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں!یہ اس شخص کے رمی کرنے کامقام ہے جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔ ﷺ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1747]
حدیث حاشیہ: (1) جمرۂ عقبہ کو وادی کے نشیب میں کھڑے ہو کر رمی کی جاتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1750) اور دوسرے جمرات کو اوپر کی جانب سے رمی کی جاتی ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمرے کو اوپر کی جانب سے کنکریاں مارتے تھے۔ (2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان جمرۂ عقبہ کے متعلق قائم کیا ہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ وہ جمرۂ عقبہ کو وادی کے نشیب سے کنکریاں مارتے تھے۔ (فتح الباري: 732/3)(3) سائل نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے جمرۂ عقبہ کو رمی کرنے کے متعلق سوال کیا تھا۔ (4) واضح رہے کہ رمی کرتے وقت مکہ مکرمہ بائیں جانب اور عرفہ دائیں جانب ہو، اس طرح جمرۂ عقبہ کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کرنے کے لیے اسی مقام پر انصار سے بیعت لی تھی۔ جمرۂ عقبہ کو جمرۂ کبریٰ اور بڑا شیطان بھی کہتے ہیں۔ (5) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے آخر میں بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن ولید نے سفیان ثوری سے، انہوں نے حضرت اعمش سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ یہ تعلیق ”جامع سفیان ثوری“ میں متصل سند سے بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباري: 732/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1747
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1748
1748. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، جب وہ جمرہ کبریٰ (جمرہ عقبہ) کے پاس پہنچے تو انھوں نے کعبے کواپنی بائیں جانب اور منیٰ کو اپنی دائیں طرف کرلیا، پھر اسے سات کنکریاں ماریں اور فرمایا کہ اس طرح اس شخصیت ﷺ نے کنکریاں ماریں تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1748]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر جمرے کو سات، سات کنکریاں ماری جائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: سات یا چھ کنکریاں ماری جائیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امام بخاری کے نزدیک یہ روایت ثابت نہیں کیونکہ اس روایت کو حضرت قتادہ سیدنا ابن عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں جبکہ قتادہ کا حضرت عبداللہ بن عمر سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 733/3)(2) رمی جمرات میں یہ شرط ہے کہ ایک ایک کنکری ماری جائے اور ہر کنکری پر اللہ أکبر کہا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ ہر کنکری پر تکبیر پڑھتے تھے جبکہ کچھ حضرات کا موقف ہے کہ تمام کنکریاں ایک بار ہی مار دینا کافی ہے لیکن یہ سنت کے خلاف ہے اور رسول اللہ ﷺ کا طریقہ نہیں ہے۔ (فتح الباري: 735/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1748
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1750
1750. حضرت اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا: وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے، وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے اور وہ سورت جس میں نساء کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا: جب میں نے اس بات کاابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن یزید نے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ہمراہ تھے۔ جب انھوں نے جمرہ عقبہ کو رمی کی تو وادی کے نشیب میں اترے حتیٰ کہ درخت کے بالمقابل ہوئے۔ اس کے سامنے کھڑے ہوکر سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے۔ پھرکہا: اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے!اس جگہ سے اس ذات گرامی نے کنکریاں ماری تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1750]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رمی کرتے وقت ہر کنکری پر الله أكبر کہا جائے۔ حضرت علی ؓ رمی کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: (اللهم اهدني بالهدی وقني بالتقویٰ، واجعل الآخرة خيرا لي من الأولیٰ) اس بات پر اجماع ہے کہ اگر رمی کرتے وقت الله أكبر نہ کہا جائے تو رمی ہو جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جب رمی سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: (اللهم اجلعه حجا مبرورا وذنبا مغفورا وسعيا مشكورا)(عمدةالقاري: 377/7)(2) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خصوصیت کے ساتھ سورۂ بقرہ کا ذکر فرمایا کیونکہ اس میں احکام حج تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور اس میں تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے بتایا اسی طرح ان کی ادائیگی ضروری ہے۔ کسی کو اس میں ترمیم و اضافے کی اجازت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 735/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1750