عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو وہ کہنے لگے: اہل جاہلیت جب تک سورج نکل نہیں جاتا مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے، کہتے تھے «أشرق ثبیر»”اے ثبیر روشن ہو جا“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی، پھر وہ سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3050]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3050
اردو حاشہ: ”اے ثبیر! روشن ہو“ ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ کی حدود ہی میں واقع ہے۔ ظاہر ہے سورج طلوع ہو تو اس کی روشنی سب سے پہلے پہاڑ ہی پر پڑتی ہے۔ پہاڑ کے روشن ہونے سے سورج کے طلوع ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔ اہل جاہلیت کا مقصد یہ تھا کہ پہاڑ روشن ہوگا، یعنی سور ج طوع ہوگا تو پھر چلیں گے جبکہ رسول اللہﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے چل پڑے اور یہی سنت ہے اگرچہ مزدلفہ میں سورج طلوع ہونے سے حج کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ رش میں ایسا ممکن ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3050
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1938
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔` عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگ مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے جب تک کہ سورج کو ثبیر ۱؎ پر نہ دیکھ لیتے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے ہی (مزدلفہ سے) چل پڑے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1938]
1938. اردو حاشیہ: مزدلفہ سے روانگی کا اصل وقت نمازفجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے ہے صرف ضعیفوں کے لئے رخصت ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد جاسکتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1938
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 625
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مشرکین طلوع آفتاب کے بعد واپس لوٹتے تھے اور کہتے تھے، ثبیر (ایک پہاڑ کا نام) روشن ہو گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے تشریف لے آئے۔ (بخاری)[بلوغ المرام/حدیث: 625]
625 لغوی تشریح: «لا يفضون» واپس نہیں آتے تھے، یعنی مزدلفہ سے منیٰ کی جانب۔ «اشرق» «اشراق» سے امر کا صیغہ ہے۔ «اشراق» کہتے ہیں روشنی میں دخول کو، یعنی چاہئیے کہ تجھ پر سورج طلوع ہو۔ «ثبير»”ثا“ پر فتحہ اور ”با“ کے نیچے کسرہ ہے۔ یہ نداء مخدوف کا منادیٰ ہونے کے وجہ سے مبنی علی الضم ہے۔ منیٰ کی طرف جانے والے کے بائیں جانب آنے والے ایک مشہور و معروف پہاڑ کا نام ہے۔ مکہ کے بڑے عظیم پہاڑوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ قبیلہ ہذیل کے ثبیر نامی ایک شخص کے نام پر معروف ہوا۔ اسی پہاڑ پر وہ دفن ہوا۔ ایک روایت یہ بھی ہے۔ «كيما نغير» اس کے معنی ہیں: تاکہ ہم چل سکیں اور ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر سرپٹ دوڑیں۔ [سنن ابن ماجه، المناسك، باب الوقف لجمع، حديث: 3022 ]
فائدہ: اس حدیث سے یہ دلیل ملتی ہے کہ مزدلفہ سے واپسی طلوع آفتاب سے پہلے روشنی میں ہونی چاہیے اور جو طلوع آفتاب تک وہاں وقوف نہ کر سکا اس کا وقوف فوت ہو گیا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 625
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1684
1684. حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضر ت عمر ؓ نے مزدلفہ میں نماز فجر ادا کی تو میں بھی موجود تھا۔ نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا:، مشرکین طلوع آفتاب کے بعد یہاں سے کوچ کرتے اور طلوع آفتاب کے انتظار میں یہ کہتے تھے: اے ثبیر!تو چمک جا، یعنی آفتاب تجھ پر ظاہر ہو۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے روانہ ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1684]
حدیث حاشیہ: ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے مزدلفہ میں جو منیٰ کو آتے ہوئے بائیں جانب پڑتا ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں جبل معروف ھناك و هو علی یسار الذاهب إلی منیٰ وهو أعظم جبال مکة عرف به جبل من هذیل اسمه ثبیر دفن فیه۔ یعنی ثبیر مکہ کا ایک عظیم پہاڑ ہے جو منی جاتے ہوئے بائیں طرف پڑتا ہے اور یہ ہذیل کے ایک آدمی ثبیر نامی کے نام پر مشہور ہے جو وہاں دفن ہوا تھا۔ مزدلفہ سے صبح سورج نکلنے سے پہلے منی کے لیے چل دینا سنت ہے۔ مسلم شریف میں حدیث جابر ؓ سے مزید تفصیل یوں ہے: ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ، حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا، فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ یعنی عرفات سے لوٹتے وقت آپ ﷺ اپنی اونٹنی قصواءپر سوار ہوئے، یہاں سے مزدلفہ میں مشعر الحرام میں آئے اور وہاں آکر قبلہ رو ہو کر تکبیر و تہلیل کہی اور آپ ﷺ خوب اجالا ہونے تک ٹھہرے رہے، مگر سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہو گئے۔ عہد جاہلیت میں مکہ والے سورج نکلنے کے بعد یہاں سے چلا کرتے تھے، اسلام میں سورج نکلنے سے پہلے چلنا قرار پایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1684
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1684
1684. حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضر ت عمر ؓ نے مزدلفہ میں نماز فجر ادا کی تو میں بھی موجود تھا۔ نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا:، مشرکین طلوع آفتاب کے بعد یہاں سے کوچ کرتے اور طلوع آفتاب کے انتظار میں یہ کہتے تھے: اے ثبیر!تو چمک جا، یعنی آفتاب تجھ پر ظاہر ہو۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے روانہ ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1684]
حدیث حاشیہ: (1) ثبير، مزدلفہ میں ایک بہت بڑا پہاڑ ہے جو عرفات کو جاتے وقت دائیں جانب اور منیٰ کو جاتے وقت بائیں جانب پڑتا ہے۔ یہ پہاڑ قبیلہ ہذیل کے ایک آدمی کے نام سے مشہور ہوا جو وہاں مدفون ہے اور اس کا نام ثبیر تھا۔ (2) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مزدلفہ سے منیٰ جانے کے لیے صبح سورج نکلنے سے پہلے روانہ ہونا چاہیے۔ صحیح مسلم میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹتے وقت اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ آپ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس آئے، وہاں قبلہ رو ہو کر تکبیر و تہلیل میں مصروف ہوئے، خوب اجالا ہونے تک آپ نے وہاں موقوف فرمایا، پھر طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے منیٰ کے لیے روانہ ہو گئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218) جبکہ دور جاہلیت میں مشرکین کا طریقہ اس کے خلاف تھا۔ وہ طلوع آفتاب کے بعد وہاں سے روانہ ہوتے تھے۔ وقوف مزدلفہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ﴾(البقرة: 198: 2) ”پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر حرام پہنچ کر اللہ کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت کی ہے۔ “(3) مزدلفہ میں جہاں کہیں جگہ ملے وقوف کر لیا جائے لیکن وادی محسر میں نہیں ٹھہرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1684