جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت جعرانہ کے عمرہ سے لوٹے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (امیر مقرر کر کے) حج پر بھیجا تو ہم بھی ان کے ساتھ آئے۔ پھر جب وہ عرج ۱؎ میں تھے اور صبح کی نماز کی اقامت کہی گئی اور وہ اللہ اکبر کہنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اپنی پیٹھ کے پیچھے آپ نے ایک اونٹ کی آواز سنی تو اللہ اکبر کہنے سے رک گئے اور کہنے لگے: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جدعا کی آواز ہے۔ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود بھی حج کے لیے آنے کا ارادہ بن گیا ہو تو ہو سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ رہے ہوں (آپ ہوئے) تو ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس اونٹنی پر علی رضی اللہ عنہ سوار ہیں۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: آپ (امیر بنا کر بھیجے گئے ہیں) یا قاصد بن کے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہم قاصد بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مقامات حج میں سورۃ برأۃ پڑھ کر لوگوں کو سنانے کے لیے بھیجا ہے۔ پھر ہم مکہ آئے تو ترویہ سے ایک دن پہلے (یعنی ساتویں تاریخ کو) ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ اور انہیں ان کے حج کے ارکان بتائے۔ جب وہ (اپنے بیان سے) فارغ ہوئے تو علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو سورۃ برأت پڑھ کر سنائی، یہاں تک کہ پوری سورت ختم ہو گئی، پھر ہم ان کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب عرفہ کا دن آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے انہوں نے خطبہ دیا اور انہیں حج کے احکام سکھائے۔ یہاں تک کہ جب وہ فارغ ہو گئے تو علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سورۃ برأت لوگوں کو پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔ پھر جب یوم النحر یعنی دسویں تاریخ آئی تو ہم نے طواف افاضہ کیا، اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ لوٹ کر آئے تو لوگوں سے خطاب کیا، اور انہیں طواف افاضہ کرو، قربانی کرنے اور حج کے دیگر ارکان ادا کرنے کے طریقے سکھائے اور جب وہ فارغ ہوئے تو علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو سورۃ برأت پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ پوری سورت انہوں نے ختم کی، پھر جب کوچ کا پہلا دن آیا ۲؎ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ وہ کیسے کوچ کریں اور کیسے رمی کریں۔ پھر انہیں حج کے (باقی احکام) سکھلائے جب وہ فارغ ہوئے تو علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سورۃ برأت لوگوں کو پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ابن خثیم (یعنی عبداللہ بن عثمان) حدیث میں قوی نہیں ہیں، اور میں نے اس کی تخریج اس لیے کی تاکہ اسے «ابن جریج عن ابی الزبیر» نہ بنا لیا جائے ۳؎ میں نے اسے صرف اسحاق بن راہویہ بن ابراہیم سے لکھا ہے، اور یحییٰ ابن سعید القطان نے ابن خیثم کی حدیث کو نہیں چھوڑا ہے، اور نہ ہی عبدالرحمٰن کی حدیث کو۔ البتہ علی بن مدینی نے کہا ہے کہ ابن خیثم منکر الحدیث ہیں اور گویا علی بن مدینی حدیث ہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2996]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 2777)، سنن الدارمی/المناسک 71 (1956) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ”عبداللہ بن عثمان بن خثیم“ کو علی بن المدینی نے منکر الحدیث قرار دیا ہے، مگر حافظ نے ’’صدوق‘‘ کہا ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”عرج“ ایک مقام کا نام ہے۔ ۲؎: یعنی بارہویں تاریخ ہوئی جسے نفر اول کہا جاتا ہے اور نفر آخر تیرہویں ذی الحجہ ہے۔ ۳؎: یعنی میں نے اس حدیث کی تخریج اس سند کے ساتھ جس میں ابن جریج اور ابوزبیر کے درمیان ابن خیثم ہیں اس سند سے نہیں کی ہے جس میں ابن جریج بن ابی الزبیر جیسا کہ بعض محدثین نے کی ہے تاکہ یہ ابن جریج کے طریق سے منقطع ہو کیونکہ وہ ابوالزبیر سے ارسال کرتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، أبو الزبير عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 344
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2996
اردو حاشہ: (1) بعض محدثین نے یہ روایت ابن خثیم کے واسطے کے بغیر بیان کی ہے لیکن اس صورت میں یہ روایت منقطع بنتی ہے کیونکہ ابن جریج ابو الزبیر کا نام لے کر ایسی روایات بیان کر دیتے ہیں جو انھوں نے ان سے نہیں سنی ہوتی تھیں۔ اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ واسطے والی روایت بیان کی ہے۔ واسطے والا راوی ابن خثیم متکلم فیہ ہے۔ امام علی بن مدینی جیسے عظیم الشان امام نے ان کے ضعیف ہونے کی صراحت فرمائی ہے، لیکن بعض محققین نے اسے ابن خثیم کی بجائے صرف ابو زبیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ بہرحال یہ روایت ضعیف ہے۔ واللہ أعلم (2)”امیر حج بنا کر بھیجا“ یہ عمرہ جعرانہ کے فوراً بعد کی بات نہیں بلکہ اگلے سال 9 ہجری ذوالقعدہ کی بات ہے۔ (3)”عرج“ مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک بستی یا پہاڑ کا نام ہے۔ (4)”قاصد“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ براءت کا اعلان ایسا اہم اعلان تھا کہ یا تو رسول اللہﷺ خود فرماتے یا آپ کا کوئی رشتے دار۔ (5)”براء ت کی آیات“ اس سے مراد سورۃ التوبہ کا ابتدائی رکوع ہے جس میں مشرکین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اب عرب میں تمہارا کردار ختم ہو چکا ہے۔ چار ماہ بلکہ حرمت والے مہینوں کے اختتام تک سوچ سمجھ لو۔ مسلمان ہو جاؤ یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ یا عرب خالی کر دو۔ نتیجتاً سب لوگ مسلمان ہوگئے اور عرب شرک سے خالی ہوگیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2960، 2961) (6)”یوم ترویہ“ ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ۔ یوم ترویہ سے ایک دن قبل خطبہ حج کا حصہ نہیں ہے۔ چونکہ یہ پہلا حج تھا، لوگ ناواقف تھے، اس لیے بار بار خطاب کی ضرورت پڑی۔ حج کا اصل خطبہ یوم عرفہ ہی میں ہے۔ باقی ضرورت پر موقوف ہیں۔ (7) یوم عرفہ سے مراد 9 تاریخ، یوم نحر سے 10 تاریخ اور واپسی کے پہلے دن سے مراد 12 ذوالحجہ اور واپسی کے دوسرے دن سے مراد 13 تاریخ ہے۔ 11، 12، 13 کو ایام تشریق کہتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2996